1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین اور عرب لیگ کی سمٹ شروع ہو گئی مگر توقعات کم

شمشیر حیدر نیوز ایجنسیوں کے ساتھ
24 فروری 2019

یورپی یونین اور عرب لیگ کی پہلی سمٹ آج چوبیس فروری بروز اتوار مصری شہر شرم الشیخ میں شروع ہو گئی ہے۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ یورپی یونین اور عرب لیگ خود اندرونی اختلافات کا شکار ہیں اس لیے سمٹ سودمند ثابت نہیں ہو گی۔

Scharm el Scheich Gipfel der EU und der Arabischen Liga
تصویر: Imago/Xinhua

مصر کے ساحلی و سیاحتی مقام شرم الشیخ میں آج چوبیس فروری کے روز یورپی یونین اور عرب لیگ کے رکن ممالک کی اولیں سربراہی سمٹ شروع ہو گئی ہے۔ تجزیہ نگاروں کے مطابق اس سربراہی اجلاس سے زیادہ امیدیں وابستہ اس لیے بھی نہیں کی جا سکتیں کیوں کہ عرب لیگ کے ممالک اور یورپی یونین کے رکن ممالک باہمی اختلافات کا شکار ہیں۔ ایسی صورت میں اس سمٹ میں صرف ایک مثبت بات رہ جاتی ہے کہ عرب اور یورپی ممالک کے سربراہان کا اولین سربراہی اجلاس ہے جو مستقبل کے باہمی تعاون میں مددگار ثابت ہو سکتا ہے۔

سمٹ میں کون سے رہنما شریک ہیں؟

یورپی یونین کے رکن ممالک کی تعداد اٹھائیس جب کہ عرب لیگ کے ارکان کی تعداد بائیس ہے۔ مصر میں یورپی یونین کے کم از کم چوبیس رہنما شرکت کر رہے ہیں۔

سعودی فرمانروا شاہ سلمان کے علاوہ عراقی اور بحرینی رہنما پہلے ہی سے شرم الشیخ پہچ چکے تھے جب کہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل، برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے، آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس اور آئرش وزیر اعظم اجلاس میں شرکت کے لیے آج پہنچے ہیں۔ یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک اور مصری صدر عبدالفتاح السیسی مشترکہ طور پر سمٹ کی صدارت کریں گے۔

یورپی کمیشن کے سربراں ژاں کلود یُنکر بھی شرم الشیخ پہنچے ہوئے ہیں۔ اجلاس سے قبل شرم الشیخ میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ’’یہ بہت اہم اجلاس ہے اور یہ سمٹ دنیا کے لیے ایک پیغام کی حیثیت رکھتا ہے۔‘‘

کن موضوعات پر گفتگو کی جائے گی؟

اس اجلاس میں دہشت گردی، علاقائی تنازعات، اقتصادی تعاون اور یورپ میں مہاجرین کے بحران جیسے موضوعات زیر بحث آنے کی توقع ہے۔ یورپی یونین کے جاری کردہ ایک بیان کے مطابق سربراہی اجلاس کی افتتاحی تقریب کے بعد پہلی نشست میں یورپ عرب تعاون کو مضبوط بنانے اور عالمی مسائل پر گفتگو کا سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

یورپی کمیشن کے سربراہ ژاں کلود یُنکر سے اجلاس سے قبل ایک صحافی نے پوچھا کہ کیا عرب ممالک میں انسانی حقوق کی صورت حال پر بھی بات چیت ہو گی تو ان کا کہنا تھا، ’’جی ہاں، ہم ہر ایک سے بات کریں گے اور ہمیں کھل کر بات کرنا ہو گی۔ انسانی حقوق کے معاملے پر بڑھا چڑھا کر بات نہیں کی جائے گی لیکن اس کی اہمیت کم بھی نہیں رکھی جائے گی۔‘‘

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں