1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین ۔ بھارت آزاد تجارتی معاہدہ، منزل ابھی دور

16 جولائی 2020

بھارت اور یورپی یونین تجارت اور سرمایہ کاری کے موضوع پر اعلی سطحی وزارتی مذاکرات کے لیے متفق ہوگئے ہیں تاہم ایک طویل عرصے سے زیر التوا آزاد تجارت معاہدہ کے لیے وقت کے تعین پر متفق نہیں ہوسکے۔

Brüssel EU Indien Videokonferenz Modi, Michel und von der Leyen
تصویر: Reuters/Y. Herman

بھارت اوریورپی یونین کے درمیان بدھ کی شام ہونے والی آن لائن چوٹی میٹنگ میں فریقین نے تجارت اور سرمایہ کاری پر ایک ”اعلی سطحی مذاکرات‘‘ شروع کرنے کے منصوبے کا اعلان کیا۔  میٹنگ کی قیادت بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی، یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن نے کی۔

چوٹی میٹنگ کے بعد جاری مشترکہ بیان میں کہا گیا ہے”اعلی سطحی مذاکرات کا مقصد تجارت اور سرمایہ کاری سے متعلق معاہدوں میں ترقی کو مزید مستحکم کرنا، تجارت میں حائل رکاوٹوں کو دور کرنا، دونوں طرف کے تاجروں اور سرمایہ کاروں کے لیے حالات کو بہتر بنانا ہے۔"

میٹنگ کے بعد بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان پرکاش سوروپ نے میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ فریقین کے وزرائے تجارت ایک وسیع تجارتی معاہدہ پر بات چیت جاری رکھنے کے لیے رضامند ہوگئے ہیں اور اعلی سطحی مذاکرات اسی عمل کا حصہ ہوگا۔ انہوں نے تاہم کہا ”اس کے لیے کوئی وقت معین نہیں کیا گیا ہے... فریقین حتی الامکان جلد از جلد ملاقات کرنے پر متفق تھے۔"

خیال رہے کہ یورپی یونین بھارت کا سب سے بڑا تجارتی پارٹنر ہے۔ دونوں کے درمیان 2018-19 میں 115.6 بلین ڈالر کی تجارت ہوئی تھی۔ دونوں 2007 سے ایک وسیع تر تجارتی اور سرمایہ کاری معاہدہ (بی ٹی آئی اے) کے لیے بات چیت کررہے ہیں تاہم یہ بات چیت ابھی تک کسی حتمی نتیجے پر نہیں پہنچ سکی ہے۔ دونوں کے درمیان کئی امور پر اختلافات ہیں جن میں کاروں اور شراب پر بھارت کی طرف سے عائد کیاجانے والا محصول اور یورپی لیبر مارکیٹ میں بھارتی پروفیشنلز کی رسائی پر یورپی یونین کی جانب سے عائد پابندیاں شامل ہے۔ یہ مذاکرات 2013 سے تعطل کا شکار ہیں۔

یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل اور یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائنتصویر: Reuters/Y. Herman

بدھ کی شام ہونے والی اس ورچوول میٹنگ میں دفاع کے شعبے میں تعاون سے لے کر کووڈ 19 وبا سے مقابلہ کرنے، صحت کی دیکھ بھال اورماحولیاتی تبدیلی نیز قابل تجدید توانائی اورانسانی حقوق سمیت متعدد امور پر تبادلہ خیال کیا گیا۔ بچہ مزدوری کا خاتمہ اور متنازعہ شہریت ترمیمی قانون 2019 کے خلاف ہونے والے مظاہرے جیسے متنازعہ امورپر بھی بات چیت ہوئی۔

خیال رہے کہ بھارت میں شہریت ترمیمی قانون کے خلاف ملک بھر میں زبردست مظاہرے ہوئے تھے۔ مظاہروں کا سلسلہ کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاون نافذ کرنے تک جاری رہا۔  ان مظاہروں میں شامل ہونے کے الزام میں بہت سے افراد اس وقت بھی جیلوں میں بند ہیں۔

متنازعہ شہریت ترمیمی قانون پر یورپی پارلیمان میں بھی بحث ہونی تھی تاہم بعد میں یہ ملتوی کردی گئی۔ یورپی رہنماوں نے اس قانون کو  مسلمانوں کے تئیں تعصب پر مبنی اور بھارت کی سیکولر قدروں کے منافی قرار دیا ہے۔ انہوں نے اس قانون کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں سے نمٹنے میں پولیس اور انتظامیہ کے رول کی بھی نکتہ چینی کی تھی۔

وزیر اعظم مودی نے اپنی افتتاحی تقریر میں کہا کہ وہ بھارت اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات کو مزید گہرا اور وسیع بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔ انہوں نے کہا”بھارت اور یورپی یونین فطری پارٹنر ہیں۔ ہماری پارٹنرشپ دنیا میں امن و استحکام کے لیے بھی کارآمد ہے۔ ہم دونوں عالمگیر اقدار مثلاً جمہوریت، تکثیریت، شمولیت، بین الاقوامی اداروں کا احترام، کثیر الجہتی، آزادی، شفافیت پر ایک دوسرے سے اشتراک کرتے ہیں۔" 

بھارتی وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ کووڈ 19 کے بعد اقتصادی شعبے میں عالمی سطح پر نئے مسائل پیدا ہوگئے ہیں۔ اس لیے جمہوری ممالک کے درمیان زیادہ سے زیادہ تعاون کی ضرورت ہے۔


یورپی کونسل کے صدر چارلس مائیکل نے کہا کہ اب جبکہ طاقت کے ڈائنامکس بدل گئے ہیں، یورپی یونین ایشیا اور پوری دنیا میں ایک زیادہ مضبوط رول ادا کرنا چاہتی ہے۔ انہوں نے کہا کہ بھارت اور بھارتی وزیر اعظم کے ساتھ آج کی بات چیت سے یورپی یونین کو اپنے طویل مدتی اسٹریٹیجک اہداف کو مستحکم کرنے میں مدد ملے گی۔

یورپی کمیشن کی صدر ارزولا فان ڈیئر لائن کا کہنا تھا ”دنیا کی دوسب سے بڑی جمہوریتو ں کی حیثیت سے یورپی یونین اور بھارت کوموثر تکثریت، قانون کی حکمرانی اور انسانی حقوق پر مبنی ہمارے مشترکہ مفادات کے فروغ اور تحفظ کے لیے ایک دوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ مل کرکام کرنا چاہیے۔"

چوٹی میٹنگ کے بعد بھارت اور چین کے مابین کشیدگی کے متعلق ایک سوال کے جواب میں فان ڈیئر لائن نے کہا”چین اور بھارت دونوں ہمارے لیے اہم ہیں۔ دونوں بہت مختلف ہیں۔ اگر ہم ماحولیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ جیتنا چاہتے ہیں۔ تو دونوں ہمارے لیے اہم ہیں۔ فرق یہ ہے کہ بھارت کے ساتھ مشترک بات یہ ہے کہ ہم جمہوری ہیں۔"

ج ا /ص ز (اے ایف پی،  ڈی پی اے)

’مودی کی حکومت ملک کو ایک ہندو ریاست بنانے کی کوشش میں‘

05:01

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں