1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

یورپی یونین تائیوان پر امریکہ یا چین کی پیروی نہ کرے، ماکروں

10 اپریل 2023

فرانس کے صدر ایمانوئل ماکروں نے یورپی یونین سے 'اسٹریٹیجک خود مختاری' کی اپنی بیان کردہ پالیسیوں پر عمل کرنے کا مطالبہ کیا اور دلیل پیش کی اس طرح یہ بلاک چین اور امریکہ کے ساتھ ہی ایک 'تیسرا ستون' بھی بن سکتا ہے۔

China Frankreich Emmanuel Macron Xi Jinping
تصویر: Ng Han Guan/AP/picture alliance

فرانسیسی صدر ماکروں نے اتوار کے روز فرانس کے ایک اخبار لیس ایکو کو دیے گئے انٹرویو میں یورپی یونین سے ایک آزاد خارجہ پالیسی برقرار رکھنے کے اپنے مطالبات کا اعادہ کیا اور کہا کہ اسے امریکہ کی پیروی کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔

فرانسیسی صدر ماکروں اور یورپی کمیشن کی صدر آج چین میں

ان کا کہنا تھا، ''ہم ایک بلاک کے مقابلے میں دوسرا بلاک کھڑا کرنے کی منطق میں نہیں پڑنا چاہتے۔'' انہوں نے دلیل دی کہ یورپ کو ''دنیا کی بگڑتی ہوئی صورت حال  اور ایسے بحرانوں میں نہیں پھنسنا چاہیے جو ہمارے نہیں ہیں۔''

’چین روس کو ہوش میں لا سکتا ہے،‘ فرانسیسی صدر ماکروں پرامید

ان کا یہ بیان یورپی یونین کے دیگر عہدیداروں کے ساتھ ان کے دورہ چین کے بعد سامنے آیا ہے، جس
 انہوں نے چینی صدر شی جن پنگ سے بھی ملاقات کی تھی۔ دورہ بیجنگ کے دوران دیگر امور کے ساتھ ہی تائیوان کے ارد گرد کشیدگی اور یوکرین پر روسی حملے پر بھی تبادلہ خیال ہوا تھا۔

جرمنی اب بھی امریکہ کے 'قبضے' میں ہے، صدر پوٹن

ماکروں نے اس بات پر زور دیا کہ تائیوان کے مسئلے پر کشیدگی میں اضافہ یورپی یونین کے مفاد میں نہیں ہے۔

چینی سیاحوں کی یورپ آمد سست روی کا شکار کیوں؟

ان کا کہنا تھا، ''ہم یورپیوں سے جو سوال پوچھے جاتے ہیں وہ یہ ہیں: کیا تائیوان کے موضوع پر اس قدر تیزی ہمارے مفاد میں ہے؟ نہیں، اس موضوع پر ہم یورپیوں کے لیے سب سے برا کام پیروکار بننا ہے نیز امریکیوں اور حد سے زیادہ چینی رد عمل کے مطابق چلنا ہے۔ آخر ہم کسی اور کی منتخب کردہ سر تال کے تابعدار کیوں بنیں؟''

جرمن عوام میں سب سے زیادہ تشویش کی وجہ روس اور چین، سروے

یورپی یونین کی 'اسٹریٹجک خود مختاری' کا مطالبہ

فرانس کے صدر نے اس بات پر بھی زور دیا کہ وہ یورپی یونین کو اپنی ''اسٹریٹیجک خود مختاری'' تیار کرنے کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ یہ اصطلاح یورپی یونین میں ایک آزاد خارجہ پالیسی برقرار رکھنے کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''یورپ نے طویل عرصے سے اس اسٹریٹیجک خود مختاری کو نہیں وضع کیا۔'' لیکن اس حوالے سے ''اب نظریاتی جنگ جیتی جا چکی ہے۔ انہوں نے کہا، ''پانچ برس قبل تک اسٹریٹیجک خود
 مختاری محض ایک خواب تھا۔ اب ہر کوئی اس کے بارے میں بات کر رہا ہے۔''

گزشتہ جمعہ کے روز ماکروں نے  یورپی کمیشن کے صدر ارزلا فان ڈیئر لائن اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھیتصویر: Ludovic Marin/AP/picture alliance

ماکروں نے کہا کہ یورپی یونین کے رکن ممالک کو کسی کی ''جاگیر'' بننے سے گریز کرنا چاہیے اور یہ بلاک امریکہ اور چین کے ساتھ ہی جغرافیائی سیاست میں ''تیسرے ستون'' (تیسری طاقت) کے طور پر کام کر سکتا ہے۔ انہوں نے ''گھبراہٹ کے اضطراب'' کے طور پر امریکی خارجہ پالیسی کی پیروی کرنے کے خلاف خبردار بھی کیا۔

ماکروں نے کہا کہ جب تائیوان کی بات آتی ہے تو برسلز کے لیے چین کے استدلال کو ''سمجھنا'' بھی ضروری ہے۔

انہوں نے کہا کہ ''یورپیئن کی حیثیت سے ہماری فکر ہمارا اتحاد ہے۔ چینی بھی اپنے اتحاد کے بارے میں فکر مند ہیں، اور اس کے اپنے نقطہ نظر سے تائیوان (اس اتحاد کا) ایک اہم جزو ہے۔'' 

گزشتہ کئی مہینوں سے تائیوان پر کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور اس وقت چین نے جزیرے کے آس پاس فوجی مشقوں کا ایک سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔

فرانس کے صدر نے فوجی اخراجات میں اضافے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا: ''تاریخ تیزی سے آگے بڑھ رہی ہے اور یورپی جنگی معیشت کو بھی اسی مناسبت سے تیز تر کرنے کی ضرورت ہے۔''

ان کا کہنا تھا کہ ''یورپ کی دفاعی صنعت ہماری تمام ضروریات کو پورا نہیں کرتی اور بہت بکھری ہوئی بھی ہے۔'' انہوں نے دلیل دی کہ یہی وجہ ہے کہ یورپی یونین امریکی اور ایشیائی ممالک کے سپلائرز پر انحصار کرتی ہے۔

ماکروں کی چینی صدر سے ملاقات 

جمعہ کے روز ماکروں نے  یورپی کمیشن کے صدر ارزلا فان ڈیئر لائن اور دیگر عہدیداروں کے ساتھ بیجنگ میں چینی صدر شی جن پنگ سے ملاقات کی تھی۔

یورپی یونین کے رہنماؤں کو امید ہے کہ وہ یوکرین پر روسی حملے کو ختم کرنے کی کوششوں میں بڑا کردار ادا کرنے پر بیجنگ کو راضی کر لیں گے۔ چین کے سرکاری میڈیا نے ماکروں کے دورے کو ''نئی رفتار اور چین-یورپ تعلقات میں نئی جان ڈالنے'' کا ایک موقع قرار دیا۔

ص ز/ ج ا (اے ایف پی)

يورپ کا چينی سولر مصنوعات پر انحصار کم کرنے کا منصوبہ

02:38

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں