یورپی یونین، ترکی کے ساتھ پناہ گزینوں کے معاہدے پر قائم
10 مارچ 2020
ایک ایسے وقت پر جب ترکی اور یونان کی سرحد پر پناہ گزینوں کا بحران شدت اختیار کرتا جا رہا ہے ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے برسلز میں یورپی یونین کی قیادت سے ملاقات کی۔
اشتہار
برسلز میں ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن سے ملاقات کے بعد یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا فان ڈیئر لائن اور یورپی کونسل کے صدر شارل مشیل نے کہا کہ سن 2016ء میں پناہ گزينوں سے متعلق یورپی یونین اور ترکی کے درمیان جو معاہدہ ہوا تھا یونین اس کے تئیں اب بھی پر عزم ہے۔ ترکی کی حکومت اس معاہدے سے دستبردار ہونے کا اعلان پہلے ہی کر چکی ہے۔
ترکی کے صدر رجب طیب ایردوآن نے فروری کے اواخر میں اعلان کیا تھا کہ اب ان کی حکومت یورپ کی طرف جانے والے پناہ گزینوں کو نہیں روکے گی۔ یہ اعلان سن 2016 کے اس معاہدے کی خلاف ورزی ہے جس میں ترکی نے یورپ کی جانب بلا ضابطہ مہاجرت پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا۔ ترکی کے اس اعلان کے بعد بڑی تعداد میں مہاجرین یورپ میں داخل ہونے کے لیے ترکی اور یونان کی سرحد پر جمع ہوگئے جس کی وجہ سے یونانی سکیورٹی فورسز اور پناہ گزینوں کے درمیان پر تشدد جھڑپیں بھی ہوئی ہیں۔
جرمن چانسلر اینگلا میرکل کی حامی یورپی کمیشن کی صدر اُرسلا فان ڈیئر لائن کا کہنا ہے کہ ترکی اور یورپی یونین اس معاہدے کے تحفظ کے لیے پر عزم ہیں۔ برسلز میں ایک پریس کانفرنس سے بات چيت میں فان ڈیئر لائن نے کہا، ''مہاجرین اور یونان دونوں کو مدد کی ضرورت ہے، لیکن ترکی کو بھی حمایت کی ضرورت ہے۔ اسی طرح سے معاہدے کی راہ تلاش کی جا سکتی ہے۔‘‘
انہوں نے اس کی مزید وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ پیر نو مارچ کی میٹنگ بنیادی طور پر یہ واضح کرنے کے بارے میں تھی کہ اس سلسلے میں ''دونوں فریق ماضی کو کس طرح سے دیکھتے ہیں اور ہم یورپی یونین، ترکی کے بیان کا کس انداز سے جائزہ لیتے ہیں... تاکہ اس بارے میں مشترکہ مؤقف اختیار کر سکیں کہ کہاں کن چیزوں کی کمی ہے اور اور کہاں چیزیں درست ہیں۔‘‘
ترکی اور یونان کی سرحد پر پناہ گزینوں اور یونانی سکیورٹی فورسز کے درمیان ہونے والی جھڑپوں کے بارے میں انہوں نے کہا، ''طاقت کا بے جا استعمال قابل قبول نہیں ہے اور حکام کو چاہیے کہ وہ کوئی بھی کارروائی تناسب کے اعتبار سے کریں۔ یورپی سرحدوں کے احترام کے ساتھ ساتھ بنیادی حقوق کا احترام بھی لازم ہے۔ مثال کے طور پناہ لینے کی گزارش کا حق ... جس کا احترام ہونا چاہیے۔ دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لازم و ملزوم ہیں۔‘‘
مہاجرين کی ’دوزخ‘ موريا کيمپ کے آس پاس زندگی
يونان نے گنجائش سے زيادہ بھرے ہوئے مہاجر کيمپوں کی بندش اور مہاجرين کی حراستی مراکز کے طرز کے نئے کيمپوں ميں منتقلی کا عنديہ ديا ہے۔ مہاجرين کے ليے ’دوزخ‘ سے تعبير کيا جانے والا موريا کيمپ بھی عنقريب بند کر ديا جائے گا۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
جن کا سب کچھ جل کر راکھ ہو گيا
انتيس ستمبر کو موريا کيمپ ميں لگنے والی آگ ميں اس افغان خاندان کا سب کچھ جل کر راکھ ہو گيا۔ چار افراد پر مشتمل يہ خاندان اب موريا کيمپ کے باہر ايک خيمے ميں گزر بسر کر رہا ہے۔ دو چھوٹے بچوں کے ہمراہ ہونے کے باوجود ان کا دعویٰ ہے کہ حکام نے ان کی کوئی مدد نہيں کی اور يہ کيمپ بھی انہيں ايک امدادی ادارے نے ديا ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
مہلک مرض مگر راہ کوئی نہيں
پاکستانی زير انتظام کشمير سے تعلق رکھنے والے نصير احمد ہيپاٹائٹس بی کے مرض ميں مبتلاء ہيں۔ وہ اکتوبر سن 2016ء سے ليسبوس پر پھنسے ہوئے ہيں۔ نصير کی پناہ کی درخواست دو مرتبہ مسترد ہو چکی ہے اور اب انہيں کوئی امداد بھی نہيں ملتی۔ موريا کيمپ کے باہر کھڑی ايک وين ميں چار ديگر افراد کے ساتھ گزر بسر جاری ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
اسمارٹ فون، روز مرہ کی زندگی کا اہم جزو
موريا کيمپ کی زيادہ تر آبادی نوجوان لڑکوں پر مشتمل ہے۔ اسمارٹ فون وہاں روز مرہ کی زندگی کے ليے ايک اہم جزو ہے۔ ديگر يورپی ملکوں يا آبائی ملکوں ميں اہل خانہ کی خيريت جاننی ہو يا معاملہ تفريح کا ہو، ضرورت اسمارٹ فون ہی پوری کرتا ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
بچوں کے ليے سہوليات کا فقدان
موريا اور اس کے آس پاس کی مہاجر بستيوں ميں بچوں کے ليے سہوليات نہ ہونے کے برابر ہيں۔ يہ دو افغان بچياں اِدھر اُدھر گھوم کر اپنا دل بہلا رہی ہيں۔ اس علاقے ميں بچوں کو کيمپوں کے درميان تنگ راستوں اور سڑکوں پر اکثر ديکھا جا سکتا ہے۔ اپنے ارد گرد کی پريشانيوں سے نا آشنا ان بچوں کے چہروں پر مسکراہٹ، موريا کيمپ کے رہائشيوں کے ليے ٹھنڈی ہوا کے ايک جھونکے کی مانند ہے۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
جگہ کی کمی
موريا کيمپ کے سيکشن بی ميں ڈيڑھ سو بچوں کی گنجائش ہے ليکن وہاں ساڑھے پانچ سو کے لگ بھگ بچے مقيم ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
بالغ مرد الجھن کا شکار
موريا کيمپ کے اکثريتی رہائشيوں کا تعلق افغانستان سے ہے۔ اس تصوير ميں ايک باپ اور بيٹا کيمپ کے بيرونی ديوار سے ٹيک لگائے بيٹھے ہيں۔ مردوں کے ليے پورا پورا دن بے مقصد پھرنا الجھن کا سبب بنتا ہے۔ ان مہاجرين کو نہ تو ملازمت کی اجازت ہے اور نہ ہی يہ زبان جانتے ہيں۔ اکثر دن اسی طرح بيٹھ کر کٹ جاتے ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
جگہ کا فقدان
اس تصوير ميں دو افغان مہاجر لڑکے موريا کے باہر قائم ايک دکان کے باہر بيٹھ کر کھانا کھاتے ہوئے ديکھے جا سکتے ہيں۔ موريا کيمپ ميں ساڑھے تين ہزار افراد کی گنجائش ہے مگر وہاں تيرہ ہزار سے زيادہ لوگ رہ رہے ہيں۔ يہی وجہ ہے کہ آس پاس ايسے کئی مناظر ديکھنے کو ملتے ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
’بے ضائقہ کھانوں‘ کا متبادل
يہ موريا کے باہر قائم ايک عارضی دکان ہے۔ پھر سبزياں وغيرہ يہاں سے خريدی جا سکتی ہيں۔ جن لوگوں کو کيمپ ميں فراہم کيا جانے والا کھانا پسند نہيں آتا، وہ يہاں سے سبزياں وغيرہ خريد کر خود پکانے کو ترجيح ديتے ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
موريا کے ارد گرد کی مہاجر بستياں
يہ منظر موريا کيمپ کے باہر واقع مہاجر بستیوں ميں سے ايک کا ہے۔ اس سال سينکڑوں مہاجرين کی آمد کے سبب غير سرکاری بستياں بڑھ رہی ہيں، جہاں صفائی کے انتظامات کافی ناقص ہيں۔
تصویر: InfoMigrants/Aasim Saleem
9 تصاویر1 | 9
یورپی کونسل کے صدر شارل مشیل نے بھی ترکی اور یورپی یونین کے درمیان معاہدے کی پاسداری پر زور دیا۔ برسلز میں نامہ نگاروں سے بات چيت میں انہوں نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہر ایک فریق کو اپنا وعدہ پورا کرنا ہوگا: ''یورپی یونین کا منصوبہ یہی ہے اور ہم نے اس بات کی وضاحت کی ہے کہ ہم پناہ گزينوں کی مدد کس طرح کریں گے اور ترکی کو بھی اس ضمن میں اپنے وعدے پورے کرنا چاہییں۔‘‘
انہوں نے کہا یورپی یونین میں خارجی امور کے وزیر جوزیف بوریل اپنے ترکی کے ہم منصب سے اس بارے میں بات چيت کریں گے کہ سن 2016ء کے معاہدے پر عمل درآمد کو کیسے یقینی بنایا جائے گا اور اس بارے میں ''ایردوآن کے ساتھ ہمارے سیاسی مذاکرات جاری رہیں گے۔‘‘
سن 2015 میں پناہ گزینوں کا شدید بحران پیدا ہونے کے بعد یورپی یونین اور ترکی کے درمیان 2016ء میں ایک معاہدہ طے پایا تھا جس کی رو سے ترکی نے اپنی سرحد سے پناہ گزینوں کی یورپ میں بے ضابطہ داخلے پر قابو پانے کا وعدہ کیا تھا۔ اس معاہدے میں یہ بات بھی شامل تھی کہ اگر کوئی پناہ گزین ترکی کے راستے سے طے شدہ اصولوں کے بر خلاف یونان میں داخل ہوا تو اسے ترکی واپس لے گا۔ اس کے بدلے میں یورپی یونین نے ترکی کو چھ ارب یورو بطور امداد دینے کا وعدہ کیا تھا تاکہ وہ پناہ گزینوں کی بڑھتی تعداد سے نمٹ سکے۔ ایک تخمینے کے مطابق اس وقت ترکی میں 35 لاکھ سے بھی زیادہ پناہ گزین موجود ہیں۔
یونانی کوسٹ گارڈز کا مہاجرین کے خلاف طاقت کا استعمال