یورپ ترکی کے ساتھ ڈیل کے خاتمے کے لیے تیار نہیں، یونانی وزیر
4 اگست 2016جمعرات چار اگست کے روز یونانی وزیر موزالاس نے کہا کہ ترکی جس معاہدے کے تحت اپنے ہاں موجود مہاجرین کو یورپی یونین کے رکن ملکوں میں جانے سے روک رہا ہے، اگر وہ معاہدہ ختم ہو جاتا ہے، تو یورپی یونین مہاجرین کے بڑے سیلاب سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہو گی۔
موزالاس نے کہا کہ یونان اور دیگر یورپی ممالک کو مارچ میں طے پانے والے اس معاہدے کے خاتمے کی صورت میں ایک ’بڑے امتحان‘ سے گزرنا پڑے گا۔ ترکی میں گزشتہ ماہ فوجی بغاوت کی ایک ناکام کوشش کے بعد سے انقرہ حکومت نے مبینہ طور پر اس سازش میں ملوث افراد کے خلاف سخت کریک ڈاؤن شروع کر رکھا ہے، جب کہ ترکی کا الزام ہے کہ اس سازش میں شریک عناصر کو یورپی ہم دردیاں بھی حاصل تھیں۔ تاہم یورپی یونین ایسے تمام الزامات کو مسترد کرتی ہے۔ بیانات کے اس تبادلے کی وجہ سے ترکی اور یورپی یونین کے درمیان تعلقات میں پہلے سے موجود کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
موزالاس نے جمعرات کے روز ایک یونانی ٹی وی چینل سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ اگر گزشتہ برس کی طرح ایک مرتبہ پھر مہاجرین کا سیلاب یورپی یونین کے رکن ملکوں کا رخ کرتا ہے، تو کوئی بھی ملک ایسی کسی صورت حال سے نمٹنے کے لیے تیار نہیں ہو گا۔
موزالاس کا یہ بیان ایک ایسے موقع پر سامنے آیا ہے، جب ایک روز قبل ہی ایک یونانی اہلکار نے بتایا تھا کہ اب تک اس معاہدے پر عمل درآمد دیکھا جا رہا ہے اور ترکی سے یونان پہنچنے والے تارکین وطن کی تعداد خاصی کم ہے۔
یونانی وزارت مہاجرت کی جانب سے جاری کردہ ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یونان، ترکی اور یورپی یونین کے درمیان ہونے والی اس ڈیل سے پوری طرح جڑا ہوا ہے اور اس ڈیل کی کامیابی یورپی مدد اور ترکی کی ذمہ داری سے مشروط ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے، ’’ظاہر ہے ترکی سے یونان آنے والے مہاجرین کے نئے سلسلے پر ایتھنز کو تشویش ہے، تاہم یہ تعداد اتنی کم ہے کہ اسے دیکھ کر یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ترک یورپی معاہدے کا احترام نہیں کیا جا رہا۔‘‘
ترکی سے جغرافیائی قربت کی وجہ سے یونان، ترکی سے یورپی یونین پہنچنے والے مہاجرین کے لیے ایک دروازے کی سی حیثیت رکھتا ہے اور گزشتہ برس اسی راستے سے ایک ملین سے زائد افراد مغربی یورپی ممالک پہنچے تھے۔
مہاجرین کے بحران کے عروج کے دنوں میں ترکی سے یونان پہنچنے والے ان مہاجرین کی تعداد یومیہ بنیادوں پر ہزاروں میں رہتی تھی۔ رواں برس مارچ میں ترکی اور یورپی یونین کے درمیان طے پانے والے معاہدے کے بعد سے یہ تعداد نہایت کم ہو چکی ہے۔