یورپی سمٹ: برطانیہ کے لیے مزید وقت، مہاجرین کے لیے مزید رقم
18 اکتوبر 2018
یورپی یونین کے سربراہان کی سمٹ کے دوران برطانیہ کے یونین سے اخراج کے عمل میں توسیع اور یونین میں مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے اضافی رقوم مختص کیے جانے کے فیصلے کیے گئے۔
اشتہار
یورپی یونین کے سربراہان کی سمٹ اس مرتبہ بھی برطانوی وزیر اعظم ٹریزا مے کے لیے آسان مرحلہ ثابت نہیں ہوئی۔ جمعرات کے روز وہ طے شدہ وقت سے پہلے ہی اور بغیر کوئی باقاعدہ پریس کانفرنس کیے واپس لوٹ گئیں۔ تاہم اس دوران برسلز میں صحافیوں سے مختصرا گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے یہ اشارہ ضرور دیا کہ اگلے برس مارچ میں یونین سے اخراج کے بعد بھی ’عبوری مدت میں چند ماہ کی توسیع‘ کی جا سکتی ہے۔
'چند ماہ‘ کا عبوری وقت حاصل کرنے کا فیصلہ بریگزٹ کے بعد برطانیہ اور یورپی یونین کے مستقبل کے تعلقات کے حوالے سے جاری مذاکرات میں کسی نتیجے پر پہنچنے کے لیے کیا گیا ہے۔ برطانوی وزیر اعظم کو تاہم اس حوالے سے اپنی ہی سیاسی جماعت کی جانب سے مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔
عبوری وقت کے حصول کے لیے برطانیہ کو درخواست کرنا پڑے گی اور یونین کے دیگر ستائیس ارکان کی تائید کے بعد اسے منظور کیا جائے گا۔ عبوری مدت یا ٹرانزیشن پیریڈ اس بات سے بھی مشروط ہے کہ اگلے برس مارچ کے اواخر میں بریگزٹ سے قبل یونین اور برطانیہ کے مابین کسی نوعیت کا کوئی ابتدائی معاہدہ طے پا جائے۔
مہاجرین کے بحران سے نمٹنے کے لیے مزید رقم
جمعرات اٹھارہ اکتوبر کے روز جاری کردہ بیان کے مطابق یورپی سربراہان نے اس بات پر اتفاق کیا ہے کہ انسانوں کے اسمگلروں کی ’نشاندہی، گرفتاری اور سزا دینے‘ کے لیے شمالی افریقی ممالک کے ساتھ تعاون بڑھایا جائے گا۔
لکسمبرگ کے وزیر اعظم ژاویئر بیٹل نے کہا کہ بلاک کے تمام ارکان کے لیے یہ بات اہم ہے کہ مہاجرت کا معاملہ بلاک کی حدود سے باہر ہی حل کیا جائے۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ مہاجرت یورپی یونین کا اجتماعی مسئلہ ہے اور اسے حل بھی مشترکہ طور پر ہی کیا جا سکتا ہے۔
آسٹرین چانسلر سباستیان کُرس نے عندیہ دیا کہ مستقبل میں اس حوالے سے مختص بجٹ میں مزید اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ کُرس کا کہنا تھا، ’’ہم نے تجویز دی ہے کہ مہاجرین کی تقسیم کے لازمی کوٹے کی بجائے یکجہتی کے اظہار کے لیے دیگر طریقے اختیار کیے جائیں۔ اس کا یہ مطلب بھی ہے کہ ہر رکن ملک کو، جہاں ضرورت پڑے، مزید پیسے بھی دینا ہوں گے۔‘‘
یورپی پارلیمان کے صدر انتونیو تیجانی کا تاہم کہنا تھا کہ یہ منصوبہ اسی صورت میں کامیاب ہو سکتا ہے جب 'مختص بجٹ میں معمولی نہیں بلکہ نمایاں طور پر اضافہ کیا جائے‘۔
بیئر اور چپس
سمٹ کے پہلے دن کے اختتام پر جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں نے برسلز کے رہائشیوں اور سیاحوں کو اس وقت حیران کر دیا جب وہ برسلز کے مصروف ترین علاقے میں بیئر اور چپس لینے کے لیے رک گئے۔
اس دوران بیلجیم اور لکسمبرگ کے وزرائے اعظم بھی ان کے ساتھ رک گئے۔ ژاویئر بیٹل نے کہا کہ وہ تو گزشتہ اتوار کے روز دوبارہ وزیر اعظم منتخب ہوئے ہیں، اور بیئر اسی خوشی میں پی رہے ہیں۔
اس دوران سیاحوں اور صحافیوں کے ایک گروہ نے چاروں یورپی سربراہان سے مختصر بات چیت کی۔ ایک صحافی نے بریگزٹ کے بارے میں پوچھا تو چانسلر میرکل بولیں، ’’پلیز، یہ بہت اچھی شام ہے اسے خراب مت کریں۔‘‘
ش ح / ع ب (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔