یورپی یونین سمٹ: بریگزٹ، مہاجرت اور یروشلم معاملہ سرفہرست
شمشیر حیدر ڈی پی اے/اے ایف پی
14 دسمبر 2017
اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے سربراہان جمعرات کے روز برسلز میں اس برس کے آخری اجلاس اجلاس کے لیے جمع ہو رہے ہیں۔ اس سمٹ کے دوران بریگزٹ اور مہاجرین کے بحران کے علاوہ ممکنہ طور پر یروشلم کا معاملہ بھی زیر بحث لایا جائے گا۔
اشتہار
برسلز میں آج چودہ دسمبر بروز جمعرات سے یورپی رہنماؤں کا دو روزہ اجلاس شروع ہو رہا ہے۔ اس برس کے آخری سربراہ اجلاس میں بھی برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ اور یورپ میں مہاجرت اور مہاجرین کے بحران کے موضوعات زیر بحث ہوں گے، سن 2017 کے پہلے اجلاس میں بھی یہی دونوں معاملات کلیدی اہمیت کے حامل تھے۔
تاہم اس برس کے اختتامی اجلاس تک آتے آتے بریگزٹ کے معاملے پر کافی پیش رفت ہو چکی ہے۔ یورپی یونین برطانیہ کے بغیر اور تیزی سے بدلتے عالمی منظر نامے کو سامنے رکھتے ہوئے بلاک کے مستقبل کا از سر نو جائزہ لے رہے ہیں۔ بریگزٹ معاملے پر اب تک ہو چکی پیش رفت اور برطانیہ کے ساتھ مذاکرات کے دوسرے مرحلے کی شروعات اس اجلاس کے دوران بھی گفتگو کا محور ہوں گے۔
انتہائی دائیں بازو کے یورپی رہنما اور سیاسی جماعتیں
سست اقتصادی سرگرمیاں، یورپی یونین کی پالیسیوں پر عدم اطمینان اور مہاجرین کے بحران نے کئی یورپی ملکوں کے انتخابات میں انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کو کامیابی دی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جرمن: فراؤکے پیٹری، الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ
جرمنی کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت الٹرنیٹو فار ڈوئچ لینڈ کی لیڈر فراؤکے پیٹری نے تجویز کیا تھا کہ جرمن سرحد کو غیرقانونی طریقے سے عبور کرنے والوں کے خلاف ہتھیار استعمال کیے جائیں۔ یہ جماعت جرمنی میں یورپی اتحاد پر شکوک کی بنیاد پر قائم ہوئی اور پھر یہ یورپی انتظامی قوتوں کے خلاف ہوتی چلی گئی۔ کئی جرمن ریاستوں کے انتخابات میں یہ پارٹی پچیس فیصد ووٹ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔
تصویر: Reuters/W. Rattay
فرانس: مارین لے پین، نیشنل فرنٹ
کئی حلقوں نے اس خدشے کا اظہار کیا کہ برطانیہ میں بریگزٹ اور امریکا میں ڈونلڈ ٹرمپ کی کامیابی سے انتہائی دائیں بازو کی فرانسیسی سیاسی جماعت کو مزید قوت حاصل ہو گی۔ سن 1972 میں قائم ہونے والے نیشنل فرنٹ کی قیادت ژاں ماری لے پین سے اُن کی بیٹی مارین لے پین کو منتقل ہو چکی ہے۔ یہ جماعت یورپی یونین اور مہاجرین کی مخالف ہے۔
تصویر: Reuters
ہالینڈ: گیئرٹ ویلڈرز، ڈچ پارٹی فار فریڈم
ہالینڈ کی سیاسی جماعت ڈچ پارٹی فار فریڈم کے لیڈر گیئرٹ ویلڈرز ہیں۔ ویلڈرز کو یورپی منظر پر سب سے نمایاں انتہائی دائیں بازو کا رہنما خیال کیا جاتا ہے۔ مراکشی باشندوں کے خلاف نفرت انگیز تقریر پر سن 2014 میں ویلڈرز پر ایک مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا۔ اُن کی سیاسی جماعت یورپی یونین اور اسلام مخالف ہے۔ اگلے برس کے پارلیمانی الیکشن میں یہ کامیابی حاصل کر سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Koning
یونان: نکوس مِشالاولیاکوس، گولڈن ڈان
یونان کی فاشسٹ خیالات کی حامل سیاسی جماعت گولڈن ڈان کے لیڈر نکوس مِشالاولیاکوس ہیں۔ مِشالاولیاکوس اور اُن کی سیاسی جماعت کے درجنوں اہم اہلکاروں پر سن 2013 میں جرائم پیشہ تنظیم قائم کرنے کا مقدمہ بھی درج کیا گیا تھا اور وہ سن 2015 میں حراست میں بھی لیے گئے تھے۔ سن 2016 کے پارلیمانی الیکشن میں ان کی جماعت کو 16 نشستیں حاصل ہوئیں۔ گولڈن ڈان مہاجرین مخالف اور روس کے ساتھ دفاعی معاہدے کی حامی ہے۔
تصویر: Angelos Tzortzinis/AFP/Getty Images
ہنگری: گَبور وونا، ژابِک
ہنگری کی انتہائی دائیں بازو کی سیاسی جماعت ژابِک کے بارے میں خیال کیا جاتا ہے کہ وہ سن 2018 کے انتخابات جیت سکتی ہے۔ اس وقت یہ ملک کی تیسری بڑی سیاسی جماعت ہے۔ سن 2014 کے پارلیمانی الیکشن میں اسے بیس فیصد ووٹ ملے تھے۔ یہ سیاسی جماعت جنسی تنوع کی مخالف اور ہم جنس پرستوں کو ٹارگٹ کرتی ہے۔ اس کے سربراہ گَبور وونا ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
سویڈن: ژیمی آکسن، سویڈش ڈیموکریٹس
ڈونلڈ ٹرمپ کے الیکشن کے بعد سویڈش ڈیموکریٹس کے لیڈر ژیمی آکسن نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ یورپ اور امریکا میں ایسی تحریک موجود ہے جو انتظامیہ کے لیے چیلنج کی حیثیت رکھتی ہے۔ سویڈش ڈیموکریٹس بھی مہاجرین کی آمد کو محدود کرنے کے علاوہ ترکی کی یورپی یونین میں شمولیت کی مخالف ہے۔ یہ پارٹی یورپی یونین کی رکنیت پر بھی عوامی ریفرنڈم کا مطالبہ رکھتی ہے۔
تصویر: AP
آسٹریا: نوربیرٹ، فریڈم پارٹی
نوربیرٹ ہوفر آسٹریا کی قوم پرست فریڈم پارٹی کے رہنما ہیں اور وہ گزشتہ برس کے صدارتی الیکشن میں تیس ہزار ووٹوں سے شکست کھا گئے تھے۔ انہیں گرین پارٹی کے سابق لیڈر الیگزانڈر فان ڈیئر بیلن نے صدارتی انتخابات میں شکست دی تھی۔ ہوفر مہاجرین کے لیے مالی امداد کو محدود اور سرحدوں کی سخت نگرانی کے حامی ہیں۔
سلوواکیہ کی انتہائی قدامت پسند سیاسی جماعت پیپلز پارٹی، ہمارا سلوواکیہ ہے۔ اس کے لیڈر ماریان کوتلیبا ہیں۔ کوتلیبا مہاجرین مخالف ہیں اور اُن کے مطابق ایک مہاجر بھی بہت زیادہ ہوتا ہے۔ انہوں نے مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کو ایک مرتبہ جرائم پیشہ تنظیم بھی قرار دیا تھا۔ یہ یورپی یونین کی مخالف ہے۔ گزشتہ برس کے انتخابات میں اسے آٹھ فیصد ووٹ ملے تھے۔ پارلیمان میں چودہ نشستیں رکھتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
8 تصاویر1 | 8
یونین کے رہنماؤں نے برطانیہ کے ساتھ مستقبل کے تعلقات کو تین بنیادی موضوعات پر پیش رفت سے مشروط کر رکھا ہے۔ اس ’طلاق‘ اور مستقبل کے تعلقات کے لیے اقتصادی تصفیہ، شہریوں کے حقوق اور آئرلینڈ کی سرحد کے معاملہ حل کیا جانا تھا۔
علاوہ ازیں جمعرات کی شام جب یونین کی رکن ریاستوں کے سربراہان شام کے کھانے کے لیے جمع ہوں گے تو مہاجرت کا موضوع بھی زیر بحث آئے گا۔ سن 2015 میں لاکھوں مہاجرین اور تارکین وطن کی یورپ آمد کے باعث پیدا ہونے والا یہ بحران اب بھی رکن ریاستوں کے مابین سیاسی کشیدگی کا ایک اہم سبب ہے۔
یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک نے اس اجلاس سے قبل یورپ میں مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کو ’تقسیم کا باعث‘ اور ’غیر موثر‘ قرار دے کر جس نئی بحث کا آغاز کیا ہے، اس کے اثرات ممکنہ طور پر مہاجرت کے موضوع پر یورپی رہنماؤں کی آج کی گفتگو تک بھی پہنچیں گے۔
یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے کے امریکی فیصلے کے بعد شروع ہونے والا نیا تنازعہ اگرچہ آج کے اجلاس کے باقاعدہ ایجنڈے میں شامل نہیں ہے، لیکن اس معاملے کی نزاکت اور اہمیت کے پیش نظر اس کا آج زیر بحث آنا بعید از قیاس نہیں ہے۔ یونین کی کئی رکن ریاستیں اور یورپی یونین کی خارجہ امور کی سربراہ دو ٹوک انداز میں امریکی فیصلے کی مخالفت کر چکی ہیں۔ یونین کے بیشتر ارکان کی رائے میں یروشلم کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے سے مشرق وسطیٰ میں امن اور دو ریاستی حل کے امکانات کم ہو جائیں گے۔