یورپی یونین: سیاسی پناہ کی درخواستوں میں حیران کن کمی
30 دسمبر 2017
سن دو ہزار پندرہ کے مقابلے ميں اس سال یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں حیران کن کمی آئی ہے۔ دوسری جانب رواں برس یورپی یونین میں سب سے زیادہ سیاسی پناہ کی درخواستیں جرمنی میں جمع کرائی گئی ہیں۔
اشتہار
ہفتے کے روز یورو اسٹیٹ کی طرف سے جاری ہونے والے اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس کے مقابلے میں رواں برس یورپ بھر میں سیاسی پناہ کی درخواستوں میں پچاس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ جرمنی کے فونکے میڈیا ہاؤس نے یورپی یونین کے دفتر برائے شماریات کے حوالے سے بتایا ہے کہ جنوری دو ہزار سترہ سے لے کر ستمبر دو ہزار سترہ تک یورپی یونین میں مجموعی طور پر سیاسی پناہ کی تقریبا چار لاکھ اسی ہزار درخواستیں جمع کرائی گئیں جبکہ سن دو ہزار سولہ میں ایسی درخواستوں کی تعداد بارہ لاکھ کے قریب تھی۔
رواں برس کے اعداد و شمار کا اگر سن دو ہزار پندرہ کے اعداد و شمار سے موازنہ کیا جائے تو یہ کمی مزید حیران کن ہے۔ سن دو ہزار پندرہ کے دوران اٹھائیس رکنی یورپی یونین میں سیاسی پناہ کی درخواستیں دینے والوں کی تعداد ایک عشاریہ پچیس ملین کے قریب تھی۔
مہاجرین کا دل بہلاتا پاکستانی تارک وطن
02:39
یورو اسٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق جرمنی اب بھی مشرق وسطیٰ، افریقہ اور ایشیا سے آنے والے مہاجرین کی پسندیدہ منزل ہے۔ رواں برس بھی سب سے زیادہ ایک تہائی سیاسی پناہ کی درخواستیں جرمنی میں جمع کروائی گئی ہیں۔ جرمنی کے بعد اٹلی اور پھر یونان کا نمبر آتا ہے۔ جرمنی اور یورو اسٹیٹ کے اعداد وشمار ایک دوسرے سے مختلف بھی ہیں۔ یورپی یونین کے مطابق جرمنی میں رواں برس تقریباﹰ ایک لاکھ سینتیس ہزار سیاسی پناہ کی درخواستیں دی گئیں جبکہ جرمنی کے مطابق ایسی درخواستوں کی تعداد دو لاکھ سات ہزار سے زائد تھی۔
جرمن وزارت داخلہ کے مطابق رواں برس جرمنی میں دی جانے والی درخواستوں کی تعداد گزشتہ برس کے مقابلے میں اکہتر فیصد کم تھی۔ گزشتہ برس جرمنی میں سات لاکھ تیئس ہزار سے زائد سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرائی گئی تھیں۔ یورو اسٹیٹ کے مطابق ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ رواں برس جمع کرائی جانے والی نصف درخواستیں منظور کر لی گئی ہیں۔ تجزیہ کاروں کے مطابق مہاجرین کی یورپ آمد میں کمی کی ایک بنیادی وجہ بلقان روٹ کا بند ہونا ہے۔
جرمنی سے افغان مہاجرین کی ملک بدری
سن دو ہزار سولہ کے وسط میں جرمن حکومت نے چونتیس افغان تارکین وطن کو ملک بدر کیا تھا۔ رواں برس مئی میں افغان مہاجرین کی ملک بدری عارضی طور پر روکے جانے کے بعد یہ سلسلہ اب دوبارہ شروع کر دیا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
کابل کی طرف پرواز
رواں برس مئی میں کابل میں جرمن سفارت خانے پر دہشت گردانہ حملے کے بعد پہلی مرتبہ بارہ ستمبر کو پندرہ ایسے افغان تارکین وطن کی ایک پرواز کابل روانہ ہوئی جن کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو چکی تھیں۔ جرمن سیاسی جماعتوں ’دی لنکے‘ اور ’گرین‘ نے ملک بدری کے سلسلے کے دوبارہ آغاز پر حکومت کو تنقيد کا نشانہ بنايا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
مہلت حاصل کرنے کی جد وجہد
امسال مارچ میں جرمن شہر کوٹبس کے ایک اسکول کے طلبہ نے اپنے تین افغان ساتھیوں کی ملک بدری کے احکامات جاری ہونے کے بعد مظاہرے کیے اور ان کی ملک بدری رکوانے کے لیے چندہ جمع کرتے ہوئے ایک مہم بھی شروع کی تاکہ کسی طرح ان افغان مہاجر ساتھیوں کو جرمنی ہی میں رکھا جا سکے۔
تصویر: DW/S.Petersmann
’کابل محفوظ نہیں‘
’جان لیوا خطرے کی جانب روانگی‘ یہ پوسٹر افغان مہاجرین کی جرمنی بدری کے خلاف فروری میں میونخ کے ہوائی اڈے پر ایک مظاہرے کے دوران استعمال کیا گیا۔ تارکین وطن ایسے مظاہرے عموماﹰ اُن ہوائی اڈوں پر کرتے ہیں جہاں سے ملک بدر مہاجرین کے جہاز نے پرواز کرنا ہوتا ہے۔ جنوری سے مئی سن دو ہزار سترہ تک ایسی کئی پروازیں کابل روانہ کی گئیں۔ امسال اب تک برلن حکومت دو سو اکسٹھ مہاجرین افغانستان واپس بھیج چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Balk
وورزبرگ سے کابل تک
تیس سالہ بادام حیدری نے رواں برس جنوری میں ملک بدر ہونے سے پہلے جرمنی میں سات سال کا عرصہ گزارا۔ حیدری نے افغانستان میں امریکی ادارے یو ایس ایڈ کے ساتھ کام کیا تھا اور وہ طالبان کے خوف سے جرمنی فرار ہوئے تھے۔ اُنہیں اب بھی امید ہے کہ وہ کسی طرح دوبارہ جرمنی پہنچنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C.F. Röhrs
اقلیتوں پر مظالم
جنوری ہی میں جرمن حکومت نے افغان ہندو سمیر نارنگ کو بھی افغانستان واپس بھیج دیا تھا۔ نارنگ اپنے خاندان کے ساتھ جرمن شہر ہیمبرگ میں چار سال سے پناہ گزین تھا۔ نارنگ نے ایک جرمن پبلک ریڈیو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ مسلم اکثریت والا ملک افغانستان مذہبی اقلیتوں کے لیے محفوظ نہیں۔ سمیر کے مطابق یہ ملک بدریاں زندگی کے لیے خطرہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Wiedl
نہ چاہتے ہوئے بھی جانا ہو گا
ملک بدر کیے جانے والے افغان تارکین وطن کو بیس یورو فی کس دیے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عالمی ادارہ مہاجرت سے معاونت حاصل کرنے کے لیے رجوع کر سکتے ہیں۔ بین الاقوامی سائیکولوجیکل تنظیم کے ارکان واپس جانے والے مہاجرین کو مشورے دیتے ہیں۔ آئی پی ایس او نامی اس تنظیم کو جرمن وزارت خارجہ فنڈز فراہم کرتی ہے۔