یورپی یونین سے تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر واضح اضافہ
4 اکتوبر 2022
یورپی یونین کے رکن ستائیس ممالک نے مجموعی طور پر اپنے ہاں سے پناہ کے متلاشی تارکین وطن کی ملک بدریوں میں پھر اضافہ کر دیا ہے۔ اس سال اپریل سے جون تک ایسے قریب ایک لاکھ غیر ملکی شہریوں کی ملک بدری کے آرڈر جاری کیے گئے۔
اشتہار
یورپی یونین کے شماریاتی ادارے یوروسٹَیٹ کے جاری کردہ تازہ ترین اعداد و شمار کے مطابق سال رواں کی دوسری سہ ماہی میں اس بلاک کے رکن ممالک نے مجموعی طور پر اپنے ہاں مقیم اور پناہ کے درخواست دہندہ تقریباﹰ ایک لاکھ غیر ملکیوں کو ان کی درخواستیں مسترد ہو جانے کے بعد ملک بدر کر دینے کا حکم جاری کر دیا۔
بہت بڑی اکثریت یورپی یونین سے باہر کے ممالک کی شہری
یوروسٹَیٹ کے مطابق یورپی یونین میں تارکین وطن کی ملک بدریوں کے احکامات کا اجرا ایک بار پھر تیز ہو گیا ہے۔ اس سال یکم اپریل سے تیس جون تک کے عرصے میں یونین کی رکن ریاستوں سے مجموعی طور پر 23 ہزار 110 تارکین وطن کو ملک بدر کیا گیا۔
ان میں سے کئی تارکین وطن ایسے بھی تھے، جنہیں یونین کے کسی ایک رکن ملک نے کسی ایسے دوسرے رکن ملک بھیج دیا، جہاں سے وہ اس ملک میں داخل ہوئے تھے، جہاں ان کی درخواستیں مسترد ہو گئی تھیں۔
اس کے علاوہ رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں مجموعی طور پر 96 ہزار 550 ایسے تارکین وطن کو بھی ملک بدر کر کے ان کے آبائی ممالک بھیجے جانے کے احکامات جاری کر دیے گئے، جن کا تعلق یورپی یونین سے باہر کے ممالک سے تھا۔ ان میں بڑی تعداد ایشیائی اور افریقی ممالک کے شہریوں کی بھی تھی۔
ایک سال پہلے کے مقابلے میں پندرہ فیصد اضافہ
یوروسٹَیٹ کے تازہ ترین ڈیٹا کے مطابق یورپی یونین کی رکن ریاستوں نے اس سال کی دوسری سہ ماہی میں جن تارکین وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے، ان کی تعداد گزشتہ برس کی اسی سہ ماہی کے مقابلے میں 15 فیصد زیادہ بنتی ہے۔
اس کے علاوہ اس سال یکم اپریل سے لے کر 30 جون تک جن تارکین وطن کو عملی طور پر ملک بدر کیا گیا، ان کی تعداد بھی 2021ء کی دوسری سہ ماہی کے مقابلے میں تقریباﹰ 11 فیصد زیادہ رہی۔
اشتہار
کس یورپی ملک سے کتنے تارکین وطن کی ملک بدری؟
رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں یورپی یونین کے رکن جس ملک نے اپنے ہاں سے تارکین وطن کی ملک بدری کے سب سے زیادہ احکامات جاری کیے، وہ فرانس تھا۔ وہاں ایسے 33 ہزار 450 سرکاری آرڈرز جاری کیے گئے۔ اس کے بعد دوسرے نمبر پر یونان رہا، جہاں حکام نے 8,750 تارکین وطن کو ملک بدر کر دینے کے احکامات جاری کیے۔
اس فہرست میں یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک جرمنی تیسرے نمبر پر رہا، جہاں پناہ کے ناکام درخواست دہندہ 8,275 تارکین وطن کو ملک بدر کرنے کے آرڈر جاری کیے گئے۔ اس فہرست میں اٹلی اپنے ہاں سے تارکین وطن کی ملک بدری کے 6,020 احکامات کے ساتھ چوتھے نمبر پر رہا۔
رواں برس کی دوسری سہ ماہی میں جن یورپی ممالک نے اپنے ہاں سے تارکین وطن کو سب سے بڑی تعداد میں عملاﹰ ملک بدر کیا، ان میں فرانس 3,590 تارکین وطن کے ساتھ پہلے اور جرمنی 2,765 ملک بدریوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہا۔
دیگر ممالک میں سے اسی عرصے میں سویڈن نے پناہ کے متلاشی 2,380 غیر ملکیوں اور یونان نے 1,770 تارکین وطن کو ملک بدر کر کے واپس ان کے ممالک میں بھیج دیا۔
یورپی یونین سے ملک بدر کیے گئے ایسے غیر ملکیوں میں سب سے زیادہ تعداد البانیہ، جارجیا، روس اور ترکی کے شہریوں کی تھی۔
ہجرت کے دوران پیش آنے والے ہلاکت خیز ترین واقعات
گزشتہ دو دہائیوں میں تنازعات، موسمیاتی تبدیلیوں اور اقتصادی مسائل کے باعث دنیا کے مختلف خطوں سے امیر ممالک کی طرف ہجرت جاری ہے۔ تارکین وطن کے ساتھ پیش آنے والے کچھ ہلاکت خیز ترین واقعات
تصویر: Gareth Fuller/PA/picture alliance
امریکہ، ایک ٹرک سے 50 تارکین وطن کی لاشیں برآمد
اس سال 27 جون کو امریکہ کے شہر سان انتونیو میں ایک لاوارث ٹرک میں سوار پچاس تارکین وطن ہلاک ہو گئے۔ انہیں شدید گرمی میں ٹرک کے اندر چھوڑ دیا گیا تھا۔
تصویر: Eric Gay/AP Photo/picture alliance
برطانیہ پہنچنے کی خواہش جان لیوا ثابت ہوئی
23 اکتوبر 2019ء کو ویتنام کے 39 تارکین وطن برطانیہ کے شہر ایسکس میں ایک ٹرک میں مردہ حالت میں پائے گئے۔ اس واقعہ میں ملوث چار افراد کو قتل کے جرم میں سزا دی گئی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Grant
سان انتونیو کا دردناک حادثہ
23 جولائی 2017ء میں سان انتونیو کی شدید گرمی میں سپر مارکیٹ وال مارٹ کے احاطے میں پارک ایک ٹرک میں 8 تارکین وطن مردہ حالت میں ملے۔ دیگر دو بعد میں ہسپتال میں ہلاک ہو گئے۔ ٹرک کے ڈرائیور کو عمر قید کی سزا سنائی گئی۔
تصویر: Reuters/R. Whitehouse
افریقی تارکین وطن کی ہلاکتیں
20 فروری 2017ء میں ایک شپنگ کنٹینر میں 13 افریقی تارکین وطن دم گھٹنے سے ہلاک ہو گئے تھے۔ یہ کنٹینر لیبیا کے ایک شہر سے دوسرے شہر لے جایا جا رہا تھا۔ زیادہ تر تارکین وطن کا تعلق مالی سے تھا۔ اس کنٹینر میں کل 69 تارکین وطن سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo
ستر سے زائد ہلاکتیں
27 اگست 2015ء کو آسٹریا کی پولیس کو ایک لاوارث ٹرک ملا۔ اس ٹرک میں 71 تارکین وطن مردہ حالت میں موجود تھے۔ ہلاک شدگان میں آٹھ بچے بھی شامل تھے۔ ان تارکین وطن افراد کا تعلق افغانستان، شام اور عراق سے تھا۔ یہ ٹرک ہنگری سے آسٹریا پہنچایا گیا تھا۔
تصویر: Robert Jaeger/AFP
افغان مہاجرین کی پاکستان کے ذریعے مہاجرت کی کوشش
4 اپریل 2009ء کو جنوب مغربی پاکستان میں ایک کنٹینر میں 35 افغان تارکین وطن کی لاشیں ملیں۔ انتظامیہ کے مطابق اس کنٹینر میں ایک سو سے زائد افراد سوار تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/EPA/A. Gulfam
میانمار کے مہاجرین
9 اپریل 2008ء کو تھائی لینڈ سے ایک ایئرٹائٹ فریزر والے ٹرک سے 54 تارکین وطن افراد کی لاشیں ملیں۔ ان سب کا تعلق میانمار سے تھا۔
تصویر: AFP
ٹیکساس میں ہلاکتیں
14 مئی 2003ء کو 19 تارکین وطن جنوبی ٹیکساس سے ہوسٹن کی طرف روانہ تھے۔ اس دوران شدید گرمی کے باعث یہ افراد اسی ٹرک میں دم توڑ گئے۔
تصویر: William Luther/San Antonio Express-News/ZUMA/picture alliance
چینی تارکین وطن کی برطانیہ جانے کی کوشش
18 جون 2008ء کے روز 58 چینی تارکین وطن انگلینڈ کے بندرگاہی شہر ڈوور میں ٹرک کے اندر مردہ پائے گئے۔ ایک ڈچ ٹرک نے تارکین وطن کو بیلجیم سے برطانیہ پہنچایا تھا۔ اس حادثے میں دو افراد زندہ بھی بچ گئے تھے۔ ب ج/ ع ا (اے پی)
تصویر: Edward Crawford/Sopa/Zuma/picture alliance
9 تصاویر1 | 9
اٹلی سے ملک بدری کے احکامات میں دو ہزار فیصد اضافہ
بحیرہ روم کے کنارے واقع یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی نے اس سال کی دوسری سہ ماہی میں یہ بھی کیا کہ وہاں سے تارکین وطن کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے جانے کے واقعات میں 2000 فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔
اس سال یکم اپریل سے تیس جون تک اطالوی حکام نے ایسے 6,020 احکامات جاری کیے۔ اس سے قبل اسی سال یکم جنوری سے اکتیس مارچ تک کی پہلی سہ ماہی میں وہاں ایسے صرف 260 آرڈر جاری کیے گئے تھے۔
اٹلی میں جن غیر ملکیوں کی پناہ کی درخواستیں مسترد ہو جانے کے بعد ان کی ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے، ان میں سے سب سے بڑی تعداد الجزائر، مراکش، البانیہ اور پاکستان کے شہریوں کی تھی۔
م م / ش ر (ڈی پی اے، روئٹرز)
سمندر کی آغوش میں موت تارکینِ وطن کی منتظر
مہاجرین کا بُحیرہ روم کے راستے یورپ کی جانب سفر دن بدن خطرناک ہوتا جا رہا ہے۔ سمندر میں ڈوبتے تارکین وطن کو بچانے والی امدادی تنظیمیں لیبیا پر اس حوالے سے معاونت کرنے میں ناکامی کا الزام عائد کرتی ہیں۔
تصویر: Reuters/J. Medina
ڈرامائی واقعہ
اس تصویر میں ایک مہاجر خاتون اور ایک بچے کی لاشیں ڈوبنے والی کشتی کے شکستہ ڈھانچے کے درمیان تیر رہی ہیں۔ انٹرنیشنل آرگنائزیشن برائے مہاجرت کے اطالوی دفتر کے ترجمان فلاویو ڈی جیاکومو نے اسے ’ڈرامائی واقعہ‘ قرار دیا۔
تصویر: Reuters/J. Medina
صدمے کے زیر اثر
یہ مہاجر خاتون ڈوبنے سے بچ گئی تھی۔ ایک غیر سرکاری ہسپانوی این جی او’ پرو آکٹیوا اوپن آرمز‘ کے عملے نے اس خاتون کو بچانے کے لیے امدادی کارروائی کی اور پھر اپنے جہاز پر لے آئے۔ اس خاتون کو غالباﹰ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے سمندر ہی میں چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ واپس لیبیا نہیں جانا چاہتی تھی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
کمپیوٹر اسکرین پر کشتی کی تلاش
جہاز کے کپتان مارک رائگ سرے اوس اور آپریشنل مینیجر انابل مونٹیس سمندر میں موجود کسی کشتی کے مقام کا تعین کر رہے ہیں۔ پرو آکٹیوا اوپن آرمز کے عملے کے ارکان کے خیال میں یہ مہاجرین کی کشتی بھی ہو سکتی ہے۔
تصویر: Reuters/J. Medina
تباہ حال کشتی سے لپٹی خاتون
امدادی کارکن ایستھر کامپس سمندر میں ایسے مہاجرین کو ایک بہت بڑی دور بین کے ذریعے تلاش کر رہی ہیں جنہیں مدد کی ضرورت ہو سکتی ہے۔ گزشتہ ہفتے اس امدادی بحری جہاز کے عملے نے ایک تباہ حال کشتی سے لپٹی ہوئی ایک تارک وطن خاتون کو بچایا تھا۔ تاہم ایک اور خاتون اور بچے تک مدد پہنچنے میں دیر ہو گئی۔
تصویر: Reuters/J. Medina
لیبیا واپس نہیں جانا
جہاز کے عملے نے تصویر میں نظر آنے والی دو لاشوں کو پلاسٹک میں لپیٹ دیا ہے۔ پرو آکٹیوا کے بانی آسکر کامپس نے ایک ٹویٹ پیغام میں لکھا،’’ لیبیا کے کوسٹ گارڈز نے بتایا ہے کہ انہوں نے ایک سو اٹھاون مہاجرین سے بھری ایک کشتی کا راستہ روکا تھا۔ لیکن جو نہیں بتایا وہ یہ تھا کہ انہوں نے دو عورتوں اور ایک بچے کو کشتی ہی پر چھوڑ دیا تھا کیونکہ وہ لیبیا واپس نہیں جانا چاہتی تھیں اور وہ کشتی ڈوب گئی۔‘‘
تصویر: Reuters/J. Medina
اسپین کی طرف سفر
امدادی کارروائی کے بعد پروآکٹیوا کا ’آسترال‘ نامی جہاز اب اسپین کی ایک بندرگاہ کی جانب رواں دواں ہے۔