1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

معیشت کی بحالی کے لیے یورپی یونین کا اربوں ڈالر کا پیکج

11 فروری 2021

یہ مالی پیکج کورونا وائرس سے متاثرہ یورپی یونین کی معیشتوں کو دو بارہ بحال کرنے میں معاون ثابت ہوگا۔ یورپی پارلیمان کی بھاری اکثریت نے اسے منظور کیا ہے۔

Belgien I Ursula von der Leyen
تصویر: Johanna Geron/AP/picture alliance

یورپی یونین کے ارکان پارلیمان نے بدھ 10 فروری کو معیشت کی بحالی کے لیے 815 ارب ڈالر کے ایک فنڈ کو بھاری اکثریت سے منظور کر لیا تاکہ کورونا وائرس کی عالمی وبا سے متاثرہ رکن ممالک اپنی معیشتوں کو جلد از جلد پٹری پر دوبارہ لا سکیں۔

اس پیکج کا نام 'دی ریکوری اینڈ ریزیلینس فیسلٹی' (آر آر ایف) ہے جس کی حمایت میں 582 ارکان نے ووٹ دیا جبکہ 40 نے اس کی مخالفت کی جبکہ 69 ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا اور واک آؤٹ کیا۔

آر آر ایف قرضوں اور امداد پر مشتمل ایک ایسے محرک پیکج کا ستون ہے جسے قانون سازوں نے گزشتہ برس ہی تسلیم کر لیا تھا۔

یورپی یونین کے رکن ممالک کا ’گولڈن پاسپورٹ‘

01:57

This browser does not support the video element.

رقم تین برس تک کے لیے دستیاب ہوگی

اس پیکج کی منظوری کے حوالے سے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ یہ فنڈ، ''وبائی امراض کے معیشت اور معاشرے پر مرتب ہونے والے مضمرات اور اثرات کو دور کرنے کے لیے قومی سطح پر اقدامات کی مالی اعانت کے لیے دستیاب ہوں گے۔''

اس بیان کے مطابق، ''اس مقصد کے تحت جو پروجیکٹ یکم فروری 2020  کے بعد شروع کیے گئے ہوں ان کی بھی آر آر ایف کے ذریعے معالی معاونت کی جا سکتی ہے۔ یہ فنڈنگ آئندہ تین برس تک کے لیے دستیاب ہوگی اور یورپی یونین کی حکومتیں اپنی معیشتوں کی بحالی کے منصوبوں کے لیے تیرہ فیصد تک مالی اعانت کی درخواست کر سکتی ہیں۔

 اٹھارہ یورپی ممالک اپنی معاشی بحالی کے لیے اس فنڈ کو حاصل کرنے کے لیے اپنی درخواستیں پہلے ہی یورپی کمیشن میں جمع کرا چکے ہیں۔ یورپی یونین میں انتظامی محکمہ کے حکام اس حوالے درخواستوں اور منصوبوں کا ابھی جائزہ لے رہے ہیں۔

ص ز/ ج ا  (اے پی، روئٹرز)  

برسل‍ز میں کشمیریوں کا بھارتی سفارت خانے کے سامنے مظاہرہ

02:10

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں