یورپی یونین مہاجرین کی تقسیم کے معاملے پر تا حال منقسم
صائمہ حیدر
13 دسمبر 2017
یورپی یونین کے رہنما بحیرہ روم کے پار سے یورپ کی جانب غیر قانونی مہاجرت کی روک تھام کے لیے ملاقات کر رہے ہیں۔ یونین کے رہنما یورپ پہنچنے والے مہاجرین کی دیکھ بھال کے مسئلے پر اب بھی منقسم ہیں۔
اشتہار
یورپی کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک نے غیر قانونی مہاجرت کو روکنے کے لیے یورپی بلاک کے آئندہ کثیر السالی بجٹ میں ایک نیا طریقہ کار وضع کرنے کی تجویز دی ہے۔ یہ طریقہ کار رکن ریاستوں کی جانب سے مہاجرین کے لیے امدادی رقوم کے مطالبوں کا متبادل ہو گا۔ سن 2015 میں مہاجرین کے بحران کے آغاز کے بعد سے یونین کی رکن ریاستوں کو ایک عارضی بجٹ کے ذریعے مہاجرین کی دیکھ بھال کی مد میں رقم فراہم کی جا رہی تھی۔ نئے طریقہ کار کے تحت اس مد میں بجٹ سال 2021 سے مختص کیا جائے گا۔
انسانی حقوق کے لیے سرگرم تنظیمیں بحیرہ روم کے جنوبی ساحلوں پر موجود تارکین وطن کو یورپ آنے سے روکنے کی یورپی یونین کی کوششوں کی کڑی ناقد رہی ہیں۔ ان ہیومن رائٹس گروپوں کا کہنا ہے کہ اس طرح ان تارکین وطن کی مشکلات میں مزید اضافہ ہو گا۔ تاہم یورپی یونین اس کے باوجود بھی ان مہاجرین کو یورپ کا قصد کرنے سے روکنے کے لیے مشرق وسطٰی اور افریقہ میں متعلقہ حکومتوں اور اقوام متحدہ کے اداروں کی مختلف طریقوں سے معاونت کی اپنی پالیسی پر قائم ہے۔
دوسری جانب یہ امر بھی اہم ہے کہ یورپ پہنچنے والے پناہ گزینوں کی رہائش اور دیگر انتظامی معاملات پر دو سال گزرنے کے باوجود بھی یورپی بلاک میں تقسیم پائی جاتی ہے۔ واضح رہے کہ یورپی کمشین نے یورپی یونین پہنچنے والے ان لاکھوں افراد کو مختلف ممالک میں تقسیم کرنے سے متعلق ایک لازمی کوٹہ تشکیل دیا تھا، تاہم ہنگری اور متعدد دیگر مشرقی یورپی ممالک کی جانب سے اس کوٹے کو منظور نہ کرنے کی وجہ سے مہاجرین کی تقسیم انتہائی سست روی کا شکار رہی ہے۔
سن 2015 ميں مشرق وسطیٰ، جنوبی ايشيا اور شمالی افريقہ کے کئی ممالک سے ايک ملين سے زائد پناہ گزينوں کی آمد کے نتيجے ميں يونان اور اٹلی سمیت چند ديگر يورپی رياستوں پر کافی بوجھ پڑ گيا تھا۔ اس صورت حال سے نمٹنے کے ليے يورپی کميشن نے ايک منصوبے کو حتمی شکل دی، جس کے تحت 160,000 مہاجرين کو رکن ملکوں ميں باقاعدہ طور پر بسايا جانا تھا۔
یورپی کمیشن نے کوٹے کے مطابق مہاجرین کو اپنے ممالک میں قبول نہ کرنے پر پہلے سے ہی پولینڈ، ہنگری اور چیک جمہوریہ کے خلاف مقدمہ دائر کر رکھا ہے۔
یورپی یونین کی صدارت کرنے والی ریاست ایسٹونیا نے تجویز پیش کی ہے کہ جب بڑے پیمانے پر مہاجرت جاری ہو تو تارکین وطن کی تقسیم کے کوٹے کے منصوبے پر عمل لازمی ہے لیکن ایسٹونیا کا یہ بھی کہنا ہے کہ قانون سازی کے ذریعے مہاجرین کو بھیجنے اور قبول کرنے والے ممالک کی آمادگی کے معاملے پر بھی لچک کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ تاہم اس تجویز کو متعدد یورپی ریاستوں کے مندوبین کی جانب سے مسترد کر دیا گیا ہے۔
دوسری جانب یورپی پارلیمنٹ مہاجرین کی آمد کے دباؤ سے قطع نظر ہر وقت مہاجرین کی لازمی منتقلی کی خواہاں ہے۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ اب یورپی کونسل کے سربراہ ڈونلڈ ٹسک بھی مہاجرین کی تقسیم کے کوٹہ سسٹم منصوبے سے متفق نظر نہیں آتے اور دوسری طرف یورپی یونین کے کمشنر برائے مہاجرت دیمیتریس اورامو پولوس نے منگل کے روز ایک نیوز کانفرینس میں ٹسک کے منصوبے پر تنقید کرتے ہوئے کہا ہے کہ یورپی کونسل کے سربراہ تارکین وطن کے حوالے سے یورپی بلاک کے منصوبے کے بنیادی ستونوں میں سے ایک یعنی ’ یکجہتی کے اصول‘ کی اہمیت کو کم کر رہے ہیں۔
کون سا سمندر کب کتنے مہاجرین نگل گیا
پناہ کی تلاش ميں سب کچھ داؤ پر لگا دينے والے اکثر منزل پر پہنچنے سے قبل ہی اس دنيا کو خيرباد کہہ ديتے ہيں۔ پچھلے چند برسوں کے دوران کتنے مہاجرين ہلاک ہوئے، کہاں ہلاک ہوئے اور ان کا تعلق کہاں سے تھا، جانيے اس گيلری ميں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/T. Markou
بحيرہ روم ’مہاجرين کا قبرستان‘
سال رواں ميں دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہو جانے والے مہاجرين کی تعداد 1,319 ہے۔ سب سے زيادہ ہلاکتيں بحيرہ روم ميں ہوئيں، جہاں وسط اپريل تک 798 افراد يا تو ہلاک ہو چکے ہيں يا تاحال لاپتہ ہيں۔ پناہ کی تلاش ميں افريقہ يا ديگر خطوں سے براستہ بحيرہ روم يورپ پہنچنے کی کوششوں کے دوران جنوری ميں 257، فروری ميں 231، مارچ ميں 304 اور اپريل ميں اب تک چھ افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں۔
تصویر: Getty Images/M. Bicanski
سينکڑوں نامعلوم شناخت والے لاپتہ يا ہلاک
سال رواں ميں جنوری سے لے کر اپريل تک دنيا بھر ميں 496 ايسے افراد ہلاک يا لاپتہ ہو چکے ہيں جن کی شناخت واضح نہيں۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے 191 افراد کا تعلق ايک سے زيادہ ملک يا خطے سے تھا۔ زیریں صحارا افريقہ کے 149، قرن افريقی خطے کے ملکوں کے 241، لاطينی امريکی خطے کے 172، جنوب مشرقی ايشيا کے 44، مشرق وسطیٰ و جنوبی ايشيا کے پچيس افراد اس سال گمشدہ يا ہلاک ہو چکے ہيں۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Morenatti
سن 2016 ميں تقریبا آٹھ ہزار مہاجرين ہلاک يا لاپتہ
سن 2016 ميں عالمی سطح پر لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی مجموعی تعداد 7,872 رہی۔ پچھلے سال بھی سب سے زيادہ ہلاکتيں يا گمشدگياں بحيرہ روم ميں ہوئيں اور متاثرين کی مجموعی تعداد 5,098 رہی۔ سن 2016 کے دوران شمالی افريقہ کے سمندروں ميں 1,380 افراد، امريکا اور ميکسيکو کی سرحد پر 402 افراد، جنوب مشرقی ايشيا ميں 181 جب کہ يورپ ميں 61 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔
پچھلے سال بھی افريقی خطہ سب سے زيادہ متاثر
پچھلے سال افريقہ کے 2,815 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہوئے۔ اسی عرصے کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہونے والے ايک سے زائد ملک کی شہريت کے حامل مہاجرين کی تعداد 3,183 رہی۔ مشرق وسطیٰ اور جنوبی ايشيائی خطے کے 544، جنوب مشرقی ايشيا کے 181 جبکہ لاطينی امريکا و کيريبيئن کے 675 مہاجرين سن 2016 ميں لقمہ اجل بنے۔ پچھلے سال بغير شہريت والے 474 مہاجرين بھی لاپتہ يا ہلاک ہوئے۔
تصویر: Reuters/G. Moutafis
جنوب مشرقی ايشيا بھی متاثر
پناہ کے سفر ميں اپنی منزل پر پہنچنے سے قبل ہی زندگی کو خيرباد کہہ دينے والوں کی تعداد سن 2015 ميں 6,117 رہی۔ اُس سال بھی سب سے زيادہ 3,784 ہلاکتيں بحيرہ روم ہی ميں ہوئيں۔ 2015ء ميں بحيرہ روم کے بعد سب سے زيادہ تعداد ميں ہلاکتيں جنوب مشرقی ايشيا ميں رونما ہوئيں، جہاں 789 پناہ گزينوں کے بہتر زندگی کے خواب چکنا چور ہو گئے۔ يہ وہی سال ہے جب ميانمار ميں روہنگيا مسلمانوں کا معاملہ بھی اپنے عروج پر تھا۔
تصویر: AFP/Getty Images
روہنگيا بھی پناہ کی دوڑ ميں گُم ہو گئے
سن 2015 کے دوران بحيرہ روم سے متصل ممالک کے 3784 مہاجرين، جنوب مشرقی ايشيا کے 789 جبکہ شمالی افريقہ کے 672 مہاجرين ہلاک يا لاپتہ ہو گئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرين يو اين ايچ سی آر نے سن کے دوران پناہ کے سفر کے دوران ہلاک ہونے والے روہنگيا مسلمانوں کی تعداد لگ بھگ ساڑھے تين سو بتائی تھی۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
شناخت واضح نہيں يا وجہ کوئی اور؟
دنيا کے مختلف حصوں ميں لاپتہ يا ہلاک ہونے والے مہاجرين کی سن 2014 ميں مجموعی تعداد 5,267 تھی۔ ہلاکتوں کے لحاظ سے اس سال بھی بحيرہ روم اور جنوب مشرقی ايشيائی خطے سر فہرست رہے، جہاں 3,279 اور 824 ہلاکتيں ہوئيں۔ اس سال ہلاک ہونے والے قريب ايک ہزار افراد کی شناخت واضح نہيں تھی۔
تصویر: picture alliance/dpa/S.Palacios
سن 2000 سے اب تک چھياليس ہزار ہلاک
’مسنگ مائگرينٹس پراجيکٹ‘ بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت کا ايک ذيلی منصوبہ ہے، جس ميں پناہ کے سفر کے دوران ہلاک يا لاپتہ ہو جانے والوں کے اعداد و شمار پر نظر رکھی جاتی ہے۔ اس ادارے کے مطابق سن 2000 سے لے کر اب تک تقريباً چھياليس ہزار افراد سياسی پناہ کے تعاقب ميں اپنی جانيں کھو چکے ہيں۔ یہ ادارہ حکومتوں پر زور ديتا ہے کہ اس مسئلے کا حل تلاش کيا جائے۔