’یورپی یونین مہاجرین کے ساتھ ’غیر اخلاقی‘ رویہ روکے‘
25 اگست 2018
اقوام متحدہ کے ہائی کميشن برائے مہاجرین UNHCR نے یورپی یونین سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بحیرہء روم سے ریسکیو کیے گئے تارکین وطن کی بابت ’خطرناک اور غیر اخلاقی‘ رویے سے اجتناب برتے۔
اشتہار
اطالوی کوسٹ گارڈز کے ایک بحری جہاز نے چند روز قبل بحیرہء روم میں ڈیڑھ سو سے زائد تارکین وطن کو ریسکیو کیا تھا، تاہم اطالوی حکومت نے ان مہاجرین کے ملک میں داخلے پر پابندی عائد کر رکھی ہے اور یہ امدادی جہاز اطالوی ساحل پر لنگر انداز تو ہے، تاہم مہاجرین اب بھی اس سے اتارے نہیں گئے ہیں۔
اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی کہہ چکے ہیں کہ بحیرہ روم میں ریسکیو کیے جانے والے تارکین وطن کو اطالوی سرزمین پر نہیں آنے دیا جائے گا۔ اطالوی حکومت کی جانب سے یورپی یونین پر زور دیا گیا ہے کہ وہ ان تارکین وطن کو پناہ دے۔
اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے مہاجرین فيلیپو گراندی کی جانب سے کہا گیا ہے، ’’وقت آ گیا ہے کہ ہم مہاجرین کی مدد سے متعلق مختلف ممالک کے درمیان سب سے کم اقدامات کرنے والوں میں سبقت لینے کا رویہ تبدیل کیا جائے۔ یہ طریقہ اب بدلا جانا چاہیے کہ سمندروں میں بچائے گئے مہاجرین کی ذمہ داری کس طرح کسی دوسرے پر ڈالی جا سکے۔‘‘
ہفتے کے روز گراندی کی جانب سے جاری کردہ اس بیان میں کہا گیا ہے، ’’یہ خطرناک اور غیراخلاقی عمل ہے کہ مہاجرین اور سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کی زندگیوں کو خطرات کا شکار کر دیا جائے، جب کہ مختلف ریاستيں اپنے اپنے سیاسی مفادات اور طویل المدتی حل ڈھونڈنے کی تگ و دو میں مصروف رہیں۔‘‘
چند روز قبل اطالوی جہاز دیکیوتی نے درجنوں مہاجرین کو ریسکیو کیا تھا، تاہم پیر کو اطالوی ساحل کاتانیہ میں لنگر انداز ہونے والے اس جہاز سے تارکین وطن کو اتارنے کا عمل رکا ہوا ہے۔ سخت گیر موقف کے حامل اطالوی وزیر داخلہ ماتیو سالوینی کہہ چکے ہیں کہ ان مہاجرین کو جہاز سے اترنے کی اجازت صرف اس صورت میں دی جائے گی، جب یورپی یونین کی دیگر رکن ریاستیں انہیں قبول کرنے کی حامی بھریں۔
جمعے کو اس معاملے کے حل کے لیے یورپی یونین کی بارہ رکن ریاستوں کے وفود نے ملاقات کی تھی اور اس سلسلے میں ایک طویل المدتی حل پر غور کیا، تاہم اس اجلاس کا کوئی تعمیری نتیجہ برآمد نہ ہو سکا۔ خبر رساں ادارے ڈی پی اے کے مطابق یورپی یونین کی رکن ریاستوں کو بحیرہء روم میں ریسکیو کیے جانے والے تارکین وطن کی بابت کسی ’اسٹینڈرڈ پروسیجر‘ یا ’عمومی طریقہء کار‘ پر اختلافات ہیں۔
ع ت، ع س (روئٹرز، اے ایف پی، ڈی پی اے)
ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو، ماہ رمضان ميں اکيلے پن کا احساس
بلقان روٹ کی بندش کے بعد مہاجرين کی اکثریت ليبيا کے راستے آج کل يورپ پہنچ رہی ہے، جہاں ان کی پہلی منزل اٹلی ہوتی ہے۔ ايک نيا ملک، نئی زبان اور نيا سماج، جانيے اٹلی کے جزيرے سسلی پر مسلمان مہاجرين رمضان کيسے گزار رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
انجان ملک ميں روزے رکھنا
رواں سال اب تک جتنے پناہ گزين يورپ پہنچے ہيں، ان کی پچاسی فيصد تعداد اٹلی ميں موجود ہے۔ ان میں سے اکثريت کا تعلق مسلم ممالک سے ہے اور ہزاروں کے ليے ايک انجان ملک اور معاشرے ميں يہ ان کا پہلا رمضان ہے۔ رمضان ميں مذہبی ذمہ داريوں کو پورا کرنے کے سلسلے ميں مہاجرين کو سماجی مسائل کا سامنا ہے کيونکہ يہ سب ان کے ليے بالکل نيا ہے۔ تاہم سسلی ميں کتانيا کی مسجد الرحمان بہت سوں کے ليے سکون کی آغوش ہے۔
تصویر: DW/D.Cupolo
يورپی طور طريقے سيکھنا
رمضان ميں سورج طلوع ہونے سے غروب ہونے تک کھايا، پيا نہيں جا سکتا ليکن روزے کا مقصد صرف يہی نہيں۔ مسلمان اس ماہ زيادہ سے زيادہ نيکياں کمانے کی کوشش کرتے ہيں۔ نائجيريا سے اٹلی پہنچ کر سولہ سالہ گلاڈيما کو احساس ہوا کہ يہاں کا طرز زندگی کس قدر مختلف ہے۔ اس نے کہا، ’’یورپ کے بارے ميں سب سے حيران کن بات يہ ہے کہ آپ کئی ماہ تک ان ہی افراد کو سڑکوں پر ديکھ سکتے ہيں ليکن آپ ان کے نام تک نہيں جان سکتے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
طويل روزے
مسلم ممالک سے پہلی دفعہ يورپ ميں آنے والے ان پناہ گزينوں کے ليے ایک بڑی تبديلی يہاں کا معاشرہ ہی نہيں بلکہ يہاں کا جغرافيہ بھی ہے۔ خطِ استوا سے زيادہ فاصلے کا مطلب ہے کہ یہاں گرمیوں میں دن کا دورانيہ زيادہ طويل ہوتا ہے اور نتيجتاً روزے کا دورانيہ بھی۔ گلاڈيما کہتا ہے، ’’ميں يہ سوچ بھی نہيں سکتا تھا کہ کوئی رات تين بجے سے اگلے دن رات آٹھ بجے تک روزہ رکھے۔ اب ميں اتنا طويل روزہ رکھ رہاں ہوں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
بڑھتی ہوئی بنگلہ ديشی برادری
براعظم افريقہ کے مختلف حصوں سے پناہ گزين يورپ پہنچنے کے ليے ليبيا کا راستہ اختيار کرتے آئے ہيں۔ اطالوی وزارت داخلہ کے مطابق اب بڑی تعداد ميں بنگلہ ديشی تارکين وطن بھی يہی راستہ اختيار کر رہے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف زبانوں ميں قرآن دستياب
سسلی بحيرہ روم کا سب سے بڑا جزيرہ اور اٹلی کا خود مختار علاقہ ہے۔ دنيا کے مختلف حصوں سے تعلق رکھنے والے مہاجرين کی آمد کے تناظر ميں وہاں مسجد الرحمان کے مولوی نے مختلف زبانوں ميں قرآن پاک کی دستيابی کو يقينی بنايا ہے۔ مراکش نژاد مولوی بتاتے ہيں کہ ان کی مسجد ميں نماز ادا کرنے کے ليے دنيا بھر سے ہر شہريت کے لوگ آتے ہيں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
مختلف ثقافت و سماج
’’مسجد ميں ہوں تو پتہ چلتا ہے کہ رمضان ہے ليکن جب ميں سڑکوں پر ہوتا ہوں، تو لگتا ہے کہ يوں ہی کوئی عام سا دن ہے،‘‘ اٹھائيس سالہ پاکستانی تارک وطن خان کہتا ہے۔ اس کے بقول يہاں کا معاشرہ بہت مختلف ہے اور بالکل اسلامی نہيں۔ وہ مزيد کہتا ہے، ’’ميں مسيحی نہيں ليکن جب تک ہم سب ايک دوسرے کے ساتھ محبت اور احترام کے ساتھ پيش آتے رہيں، اس سے کوئی فرق نہيں پڑتا کہ آپ کس مذہب کے ماننے والے ہيں۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
فراغت نہ ہونے کے برابر
جنوبی اٹلی ميں عام طور پر دکانيں شام کے وقت جلد بند ہو جاتی ہيں۔ سہ پہر کے وقت کھانے کا وقفہ بھی معمول کی بات ہے۔ اس کے برعکس بنگلہ ديشی دکان دار زيادہ دير تک کام کرتے رہتے ہيں، خواہ کوئی بھی موسم اور کوئی بھی وقت ہو۔ پچيس سالہ مومن معتوبر کہتا ہے، ’’ہم تھکے ہوئے ہوں تو بھی اپنی دکان کھلی رکھتے ہيں اور کام کاج کرتے رہتے ہيں۔ رمضان ميں بھی يہ معمول مشکل نہيں کيونکہ يہ تو ہمارا مذہب ہے۔‘‘
تصویر: DW/D.Cupolo
روايتی کھانے اور افطار
بہت سے تارکين وطن کے ليے رمضان ايک وقت بھی ہوتا ہے جب وہ اپنے آبائی علاقوں کے کھانے اور روايتی اسلامی طريقہ ہائے کار سے افطار کرنا چاہتے ہيں۔ ليکن سماجی انضمام کو فروغ دينے کے ليے کام کرنے والے اسمائيل جامع کا کہنا ہے کہ بيرون ملک رمضان کا مطلب يہ بھی ہے کہ لوگ نئے کھانے اور نئی روايات کو موقع ديں۔
تصویر: DW/D.Cupolo
برکتوں کے مہينے ميں اکيلے پن کا احساس
ليبيا کے راستے حال ہی ميں اٹلی پہنچنے والے نوجوان مالا کا کہنا ہے، ’’آج کل رمضان جاری ہے۔ جب ميں اپنے گھر کو ياد کرتا ہوں تو خود کو بہت اکيلا محسوس کرتا ہوں۔‘‘ مالا کا يہ اپنے اہل خانہ کے بغير پہلا رمضان ہے۔ وہ کہتا ہے، ’’ہم تو يہاں آمد پر ہی اجنبی ہيں ليکن اس ہجرت کا سب سے تکليف دہ پہلو اکيلے پن کا احساس ہے۔‘‘