1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین میانمار پر پابندیاں لگانے پر تیار

22 فروری 2021

یورپی یونین نے کہا ہے کہ وہ میانمار میں فوجی بغاوت کے پیچھے فعال مرکزی ملٹری افسران پر پابندیاں عائد کرنے کے لیے تیار ہے۔ ادھر میانمار میں اس عسکری بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

Myanmar Myitkyina | nach Militärputsch | Protest
تصویر: REUTERS

یورپی یونین کے رکن ممالک کے وزرائے خارجہ نے پیر 22 فروری کو کہا ہے کہ میانمار میں فوجی بغاوت کرنے والے مرکزی ملٹری افسران کے خلاف پابندیاں عائد کرنے کی تیاری کی جا چکی ہے۔

برسلز میں ایک کانفرنس کے بعد جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا گیا کہ یورپی یونین میانمار میں یکم فروری کو ہونے والی فوجی بغاوت کے ذمہ دار فوجی افسران کے خلاف ایکشن لینے کے تیار ہے۔

یہ بھی پڑھیے: میانمار میں صورتحال بگڑتی ہوئی، دو مظاہرین ہلاک

یورپی یونین بلاک کے وزرائے خارجہ نے مزید کہا کہ میانمار کی فوجی جنتا ملک میں کشیدگی کے خاتمے، اقتدار سول حکومت کو سونپنے اور گرفتار شدہ سیاسی رہنماؤں کو رہائی کو ممکن بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کرے۔

میانمار میں مظاہرے جاری

 میانمار میں فوجی جنتا کی طرف سے سخت اقدامات کے باوجود فوجی بغاوت کے خلاف عوامی احتجاج کا سلسلہ بدستور جاری ہے۔

آج پیر کے دن بھی ہزاروں مظاہرین نے ینگون کی سڑکوں پر نئے مظاہرے کیے جبکہ کاروبار زندگی معطل رہا۔ یکم فروری کی فوجی بغاوت کے بعد سے ملک بھر میں احتجاج کا سلسلہ جاری ہے جبکہ  ہفتے کے دن ان مظاہروں کے دوران مزید دو افراد ہلاک ہو گئے۔

میانمار سے موصولہ اطلاعات کے مطابق پیر کے دن ینگون میں جمع ہونے والے مظاہرین نے فوج سے مطالبہ کیا کہ وہ جمہوری رہنما آنگ سان سوچی کو فوری طور پر رہا کر دے۔ نوبل امن یافتہ سوچی یکم فروری سے فوجی کی حراست میں ہیں۔

فوجی جنتا کی طرف سے کریک ڈاؤن کا دفاع

میانمار کی فوجی جنتا کی طرف سے جاری کیے گئے ایک تازہ بیان میں دہرایا گیا ہے کہ فوجی کی طرف سے ملک کا کنٹرول سنبھالنا ایک آئینی عمل ہے۔

ملکی وزارت خارجہ کی طرف سے جاری کیے گئے اس بیان میں مزید کہا کہ ‌'غیرقانونی مظاہروں۔ اشتعال انگیزی اور تشدد‘ کے باوجود متعلقہ حکام طاقت کے بے جا استعمال سے احتراز کر رہے ہیں۔

یہ بھی پڑھیے:میانمار میں بڑے مظاہرے، شاہراہیں بلاک

اس بیان میں مزید کہا گیا کہ سکیورٹی اہلکار ملکی قوانین اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق عوامی تحفظ کو یقینی بنانے کی کوشش میں ہیں۔

فوجی بغاوت کن حالات میں ہوئی؟

میانمار میں پانچ دہائیوں تک فوجی جنتا کی آمریت کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں جمہوری نظام فعال ہوا تھا، جس کے نتیجے میں نومبر سن دو ہزار پندرہ کو ہوئے الیکشن میں جیت کے بعد آنگ سان سوچی کی سیاسی پارٹی نیشنل لیگ فار ڈیموکریسی نے ملک کا اقتدار سنبھالا تھا۔

سوچی کی پارٹی نے نومبر سن دو ہزار بیس کے الیکشن میں بھی قطعی اکثریت حاصل کی تھی جبکہ اس انتخابی عمل میں فوج نواز اتحاد ناکامی سے دوچار ہو گیا تھا۔

یہ بھی پڑھیے: میانمار میں فوج نے اقتدار پر قبضہ کیوں کر لیا؟

فوج نے اس الیکشن میں دھاندلی کا الزام عائد کیا تھا، جسے الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا تھا۔ اس کے بعد فوج نے یکم فروری کو سوچی کا اقتدار ختم کرتے ہوئے ہنگامی حالت کا نافذ کر دیا تھا۔

ع ب / ا ب ا / خبر رساں ادارے

میانمار میں فوجی بغاوت کے خلاف نوجوان شہریوں کا احتجاج

03:55

This browser does not support the video element.

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں