یورپی یونین میں داخلے اور رخصتی کا نگران ایک نیا الیکٹرانک نظام اتوار 12 اکتوبر سے فعال ہو رہا ہے۔ اس بارڈر چیکنگ سسٹم سے یونین میں داخل ہونے والے برطانوی شہریوں کے اوور اسٹے کا خودکار انداز میں پتا چل جایا کرے گا۔
یورپی یونین کے رکن ملک لکسمبرگ کا گاؤں شینگن ، جس کے نام پر شینگن معاہدے اور شینگن زون کے نام رکھے گئےتصویر: Iolanda Paz/DW
اشتہار
برطانوی دارالحکومت لندن سے موصولہ رپورٹوں کے مطابق برطانیہ کے یورپی یونین سے اخراج یا بریگزٹ کے بعد برٹش باشندوں کو اب تک یہ سہولت حاصل ہے کہ وہ ویزے کے بغیر یورپی یونین کے کسی بھی رکن ملک میں 180 دنوں یا چھ ماہ کے کسی بھی عرصے میں داخل ہو کر زیادہ سے زیادہ 90 روز یا تین ماہ تک قیام کر سکتے ہیں۔
لیکن اکثر ایسا ہوتا ہے کہ ایسے برٹش باشندے 90 روز سے بھی زیادہ عرصے تک یورپی یونین میں قیام کرتے ہیں اور متعلقہ ملک کے حکام کو یہ پتہ نہیں چلتا کہ ان کے قیام کی مدت قانوناﹰ اوور اسٹے کے زمرے میں آ چکی ہے۔
برطانیہ میں لندن کے ہیتھرو ایئر پورٹ کے ایک ٹرمینل پر یو کے بارڈر کے امیگریشن کاؤنٹرز کے سامنے مسافروں کی قطارتصویر: Steve Parsons/empics/picture alliance
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے اور پی اے میڈیا نامی خبر رساں اداروں کے مطابق سیاحت اور آمد و رفت کے شعبے کی تنظیم Abta کے اعداد و شمار بھی یہ ثابت کرتے ہیں کہ اب تک یورپی یونین میں برطانوی باشندوں کی طرف سے قیام کی قانونی مدت کی خلاف ورزیاں کی جاتی ہیں اور ان کا پتا چلانے کا کوئی خودکار نظام موجود نہیں۔
اشتہار
یورپی یونین کا الیکٹرانک انٹری ایگزٹ سسٹم
یہ صورت حال اب یورپی یونین کے اس نئے انٹری ایگزٹ سسٹم یا EES کی مدد سے بدل جائے گی، جو اتوار 12 اکتوبر سے ابتدائی طور پر کام کرنا شروع کر رہا ہے۔ اس نئے الیکٹرانک اور آٹومیٹک سسٹم کے تحت اپنے پاسپورٹوں کے ساتھ یونین کی کسی بھی بیرونی سرحد کو پار کرنے والے برطانوی باشندوں میں سے ایسے افراد کی یورپی بارڈر حکام کو خود بخود اطلاع مل جایا کرے گی جو اوور اسٹے کے مرتکب ہوئے ہوں۔
جرمنی کی فیڈرل پولیس کا ایک اہلکار فرینکفرٹ ایئر پورٹ پر ایک مسافر کا پاسپورٹ چیک کرتے ہوئےتصویر: picture alliance/dpa
اب تک ایسی کسی خلاف ورزی کا پتا چلانے کے لیے لازمی تھا کہ متعلقہ ملک کے بارڈر حکام سرحد پار کرتے ہوئے کسی بھی برطانوی شہری کا پاسپورٹ چیک کریں اور اس پر لگی امیگریشن کی مہر کی مدد سے یہ دیکھیں کہ وہ یورپی یونین میں کب داخل ہوا تھا۔
نئے نظام کے تحت ایسے کسی اوور اسٹے کی شناخت نہ صرف فوراﹰ اور خودکار الرٹ سسٹم کی مدد سے ہو سکے گی، بلکہ یوں بہت سے انتطامی وسائل بھی بچائے جا سکیں گے۔
نئے نظام کا نفاذ مرحلہ وار
یورپی یونین کے پورے شینگن زون میں اس انٹری ایگزٹ سسٹم یا ای ای ایس کا اتوار 12 اکتوبر سے نفاذ مرحلہ وار کیا جا رہا ہے۔ یہ تمام مراحل اگلے برس کی پہلی سہ ماہی کے آخر تک مکمل ہو جائیں گے۔ اس کے بعد 10 اپریل 2026ء سے یہ نیا نظام مکمل طور پر نافذالعمل ہو جائے گا۔
برطانیہ کے شہری ہر سال بہت بڑی تعداد میں سیاحت کے لیے یورپی یونین میں اسپین کا رخ کرتے ہیںتصویر: Davide Bonaldo/Sipa USA/picture alliance
برطانوی باشندے یوں تو یورپی یونین کے رکن سبھی ملکوں میں آتے جاتے ہیں، تاہم ان کی بہت بڑی تعداد کی پسندیدہ منزل اسپین ہوتا ہے، جہاں وہ چھٹیاں گزارنے کے لیے جاتے ہیں۔ بہت سے برٹش باشندوں نے تو اسپین میں اپنے گھر بھی خرید رکھے ہیں، مگر انہوں نے طویل قانونی کارروائی سے بچنے کی کوشش میں اپنے لیے اسپین میں رہائش کے قانونی پرمٹ حاصل نہیں کیے۔
یورپی یونین کے نئے انٹری ایگزٹ سسٹم کے مکمل نفاذ کے بعد یونین میں داخل ہونے والے یونین سے باہر کے تمام ممالک کے شہریوں کے فنگر پرنٹس بھی لیے جایا کریں گے اور بارڈر پر ہی ان کی ڈیجیٹل تصاویر بھی لی جایا کریں گی۔
اس عمل میں 12 سال سے کم عمر کے بچے فنگر پرنٹس کی شرط سے مستثنیٰ ہوں گے تاہم ان کی بھی یونین کے بارڈرز پر الیکٹرانک رجسٹریشن لازمی ہو گی۔
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔