1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین میں ترجیحی تجارتی حیثیت کے لیے پاکستان کی کوششیں

7 دسمبر 2012

ماہرین کا کہنا ہے کہ ملک میں بڑھتی ہوئی بدعنوانی، لاقانونیت، انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں اور ناقص طرز حکمرانی کی وجہ سے یورپی یونین کے ساتھ ترجیحی تجارتی حیثیت حاصل کرنے کی پاکستان کی کوششوں کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔

تصویر: dapd

 حال ہی میں پاکستان میں یورپی یونین وفد کے سربراہ لارس گنار بھی واضح کر چکے ہیں کہ پاکستان کی یورپی منڈی میں ڈیوٹی فری داخلے کی اجازت (جی ایس پی پلس) حیثیت دینے سے قبل یورپی یونین پاکستان میں انسانی حقوق اور حکمرانی کی صورتحال کا بغور جائزہ لے گی۔ 

پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھر نے گزشتہ ہفتے دورہ برسلز میں یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کی سربراہ کیتھرین ایشٹن اور ٹریڈ کمشنر کیرل ڈی گشٹ سے ملاقاتیں کی تھیں۔ سرکاری بیانات کے مطابق ان ملاقاتوں کا مقصد پاکستان کے لیے جی ایس پی پلس حیثیت حاصل کرنے کے کوشش تھی۔

تاہم تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ پہلے رمشاء مسیح کیس پھر ملالہ یوسفزئی پر حملے اور بعد میں ہندوؤں اور احمدیوں کے مذہبی مقامات کی توہین کے واقعات ان کوششوں کو بری طرح متاثر کر سکتے ہیں۔ اسلام آباد میں قائم ادارہ برائے پائیدار ترقی کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں یورپی پارلیمنٹ کو پاکستان کو جی ایس پی پلس دینے کے لیے قائل کرنا بڑا چیلنج ہوگا۔ انہوں نے کہا کہ اب صرف کوئی سیاسی مصلحت ہی پاکستان کو یورپ یونین می‍ں یہ درجہ دلا سکتی ہے۔

پاکستانی وزیر خارجہ حنا ربانی کھرتصویر: DW/H.Kiesel

انہوں نے کہا: ’’اصل چیز یہ ہے کہ کیا یورپی یونین کو سیاسی طور پر ہماری ضرورت محسوس ہو گی یا نہیں، اگر ان کو ہماری ضرورت محسوس ہو گی تو بھلے ان کو رسمی کارروائی کے طور پر متعلقہ دستاویزات دے دیں تو وہ آپ کو جی ایس پلس حیثیت دے دیں گے لیکن مجھے لگ رہا ہے کہ شاید اس حکومت کو تو نہیں لیکن انتخابات کے بعد آنے والی حکومت کو یہ حیثیت مل جائے۔‘‘

دوسری طرف حکام کا دعویٰ ہے کہ یورپی یونین کے ساتھ ترجیحی تجارت کے لیے کی گئی کوششوں کو نقصان نہیں پہنچنے دیا جائے گا۔ ٹریڈ ڈویلپمنٹ اتھارٹی پاکستان میں ڈبلیو ٹی او سیل کے سربراہ مجیب الرحمٰن کا کہنا ہے کہ حکومت کو یورپی یونین کے سامنے اپنا کیس اس طرح پیش کرنا ہے کہ وہ انہیں یقین دلا سکے کہ ملک میں انسانی حقوق اور طرز حکمرانی کی بہتری کے لیے ٹھوس اقدامات کیے جا رہے ہیں۔

انہوں نے کہا: ’’حکومت کو یہ بتانا ہوگا کہ وہ تبدیلی لانے کا ارادہ رکھتی ہے اور ان چیزوں کی بہتری کے لیے اقدامات کر رہی ہے۔ جو بھی ملک ہو، چاہے پاکستان یا کوئی دوسرا ملک، اسے جی ایس پی پلس حیثیت حاصل کرنے کے لیے بتانا پڑے گا کہ حالات کی بہتری کے لیے کیا اقدامات کیے گئے ہیں۔‘‘

وکیل اطہر من اللہ کا کہنا ہے کہ ٹرانسپرنسی انٹرنیشنل کی حالیہ رپوٹ میں بھی پاکستان بدعنوان ممالک کی فہرست میں 42 ویں سے 33 ویں نمبر پر آ گیا ہے جو پوری قوم اور خصوصا حکمرانوں کے لیے ایک لمحہء فکریہ ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ بدعنوانی بھی انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی ایک قسم ہے۔ اطہر من اللہ نے کہا: ’’انسانی حقوق کی خلاف ورزی اس وقت زیادہ ہوتی ہے جب قانون کی بالادستی نہ ہو کیونکہ یہ سارا معاملہ منسلک ہے حکمرانی سے، اس لیے میں سمجھتا ہوں کہ صرف بیرون ملک ہی نہیں اندرون ملک بھی ہم سب کو یہ تحفظات ضرور ہیں کہ طرز حکمرانی نہ ہونے کی وجہ سے لوگوں کے حقوق پامال ہوتے ہیں اور ان کا تحفظ نہیں ہو پاتا۔‘‘

رپورٹ: شکور رحیم ، اسلام آباد

ادارت: ندیم گِل

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں