یورپی حکام نے بتایا ہے کہ چار برسوں کے مقابلے میں سن دو ہزار بیس میں زیادہ اموات ریکارڈ کی گئی ہیں۔ اس کی ایک وجہ کورونا کی عالمی وبا کو قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے شماریاتی ادارے یورو اسٹیٹ کے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ سن دو ہزار سولہ تا انیس کے مقابلے میں سن دو ہزار بیس میں یورپی بلاک میں کہیں زیادہ اموات ہوئیں۔ بالخصوص نومبر میں ہونے والی ہلاکتیں بہت زیادہ تھیں کیونکہ تب مشرقی یورپی ممالک کورونا سے بہت زیادہ متاثر ہوئے تھے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سن دو ہزار بیس میں مارچ اور نومبر کے درمیان تقریبا ساڑھے چار لاکھ افراد کا انتقال ہوا، جو گزشتہ برسوں کے اسی دورانیے میں ہلاکتوں کی تعداد سے کہیں زیادہ بنتی ہے۔ منگل کو جاری کیے گئے ان اعدادوشمار میں مزید بتایا گیا ہے کہ ان میں کورونا یا کسی اور وجہ سے ہونے والی اموات بھی شامل ہیں۔
پہلی لہر
اس رپورٹ کی تیاری میں یورو اسٹیٹ نے آئر لینڈ کے سوائے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک سے معلومات جمع کیں، کیونکہ آئر لینڈ نے اپنے ملک میں ہونے والی اموات کے بارے میں تفصیلات فراہم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
کورونا اور پاکستانیوں میں خدمت خلق کا جذبہ
کورونا کی وبا نے لاکھوں پاکستانی خاندانوں کو متاثر کیا ہے۔ کچھ بیماری سے متاثر ہوئے اور کچھ کا روزگار چلا گیا۔ ایسے میں کچھ لوگوں نے اپنے ہم وطنوں کی دل کھول کر خدمت بھی کی۔ بھلا کیسے؟ دیکھیے اس پکچر گیلری میں۔
تصویر: Syeda Fatima
مریضوں کو کھانا پہنچانا
لاہور کی سیدہ فاطمہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ جب ان کی سہیلی کورونا وائرس سے متاثر ہوئی تو انہوں نے اپنی سہیلی کے لیے کھانا بنانا شروع کیا۔ فاطمہ کو اندازہ ہوا کہ بہت سے مریض ایسے ہیں جنہیں صحت بخش کھانا میسر نہیں ہو رہا۔ انہوں نے پچیس متاثرہ افراد کے لیے کھانا بنانا شروع کیا۔ یہ سلسلہ بیس دنوں سے جاری ہے۔
تصویر: Syeda Fatima
ایک سو بیس افراد کے لیے مفت کھانا
اب فاطمہ روزانہ ایک سو بیس افراد کے لیے کھانا بناتی ہیں۔ فاطمہ اس کام کا معاوضہ نہیں لیتیں۔ وہ روز صبح سات بجے کام شروع کرتی ہیں۔ وہ رائیڈر کے ذریعے کھانے کا پہلا حصہ دن دس بجے بھجوا دیتی ہیں۔ جس کے بعد وہ باقی مریضوں کے لیے کھانا بنانا شروع کرتی ہیں اور پھر اسے بھی مریضوں تک پہنچا دیا جاتا ہے۔
تصویر: Syeda Fatima
طلبا کی مشترکہ کاوش
مریم ملک پاکستان میں سافٹ ویئرکی طالبہ ہیں۔ انہوں نے سوشل میڈیا پر دیکھا کہ کس طرح مریض کورونا وائرس سے متاثر ہو رہے ہیں۔ انہوں نے دو دیگر طلبا کے ساتھ مل کر متاثرہ افراد کے لیے کھانا پکانا شروع کیا۔ یہ تینوں طلبا روزانہ سرکاری ہسپتالوں میں داخل مریضوں کو روزانہ گھر کا تیار کیا کھانا فراہم کرتی ہیں۔
تصویر: privat
روزانہ ڈھیروں دعائیں ملتی ہیں
مریم اور دیگر طلبا یہ سہولت بالکل مفت فراہم کرتی ہیں اور ڈیڑھ سو افراد کو روزانہ کھانا فراہم کرتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ان کا ان مریضوں کے ساتھ محبت کا رشتہ قائم ہو گیا ہے اور انہیں روزانہ ڈھیروں دعائیں ملتی ہیں۔ یہ طلبا گزشتہ پندرہ دنوں سے لوگوں کو کھانا پہنچا رہی ہیں۔
تصویر: privat
کورونا ریکورڈ واریئرز
یہ فیس بک پیج کورونا وائرس کے مریضوں کو پلازما عطیہ فراہم کرنے والے افراد سے ملاتا ہے۔ اس فیس بک پیج کے ذریعے اب تک ساڑھے چار سو مریضوں کو پلازما مل چکا ہے۔
تصویر: Facebook/Z. Riaz
مفت طبی مشورے
اس فیس بک پیج کا آغاز کورونا وائرس کے پاکستان میں ابتدائی دنوں میں ہوا۔ اس پیج کے تین لاکھ سے زائد میمبر ہیں۔ اس فیس بک پیج پر نہ صرف پلازما عطیہ کرنے میں مدد کی جاتی ہے بلکہ ڈاکڑ خود طبی مشورے فراہم کرتے ہیں۔
تصویر: Privat
مالاکنڈ کے نوجوان سماجی کارکن
مالاکنڈ کے نوجوان سماجی کارکن عزیر محمد خان نے اپنے علاقے میں دیگر ساتھیوں کے ہمراہ کورونا وائرس سے متعلق آگاہی مہم کا آغاز کیا۔ لاک ڈاؤن سے متاثرہ خاندانوں کو راشن بھی فراہم کیا اور چندہ کر کے طبی ماہرین کو میڈیکل سازو سامان بھی فراہم کیا۔
تصویر: E. Baig
چترال کے متاثرہ افراد کی مدد
عزیر محمد خان اپنے ساتھیوں کے ساتھ خیبر پختونخواہ اور چترال میں متاثرہ افراد کی مدد کر رہے ہیں۔ عزیر کا کہنا ہے کہ انہوں نے مساجد میں صابن فراہم کیے تاکہ وہاں جانے والے صابن ضرور استعمال کریں۔
تصویر: E. Baig
آکسیمیٹر کا عطیہ
کورونا ریکورڈ وارئیرز گروپ کا کہنا ہے کہ انہیں کئی پاکستانی شہریوں اور کمپنیوں کی جانب سے مفت آکسیمیٹر کا عطیہ دیا گیا۔
تصویر: Zoraiz Riaz
وٹامنز کا عطیہ
معیز اویس ایک دوا ساز کمپنی کے مالک ہے۔ انہوں نے ہزاروں روپے کی مالیت کی دوائیاں اور وٹامنز کا عطیہ دیا۔
تصویر: Hyan Pharma
10 تصاویر1 | 10
اس مطالعہ کا مقصد گزشتہ برس یورپی یونین میں ہونے والی تمام ہلاکتوں کی درست تعداد اور ان کی وجوہات کا تعین کرنا تھا۔ اس مطالعہ میں سن دو ہزار سولہ تا انیس میں ہونی والی اموات کا موازنہ سن دو ہزار بیس سے کرنا مقصود تھا۔
اس مطالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ کورونا کی پہلی لہر کے عروج پر پہنچنے کی وجہ سے اپریل میں زیادہ اموات ہوئیں۔ نتائج جاننے کے لیے اس ماہ کا موازنہ سن دو ہزار سولہ تا انیس کے اسی ماہ یعنی اپریل سے کیا گیا تھا۔
نومبر میں اموات
ان اعدادوشمار کے مطابق سن دو ہزار بیس کے اپریل کے بعد سب سے زیادہ ہلاکتیں نومبر میں ہوئیں۔ اس ماہ بالخصوص پولینڈ، سلووینیہ اور بیلجیم سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک تھے۔
ان ممالک میں سن دو ہزار سولہ تا انیس کے نومبر کے مقابلے میں سن دو ہزار بیس کے نومبر میں نوّے فیصد زیادہ اموات ہوئیں۔
اسی دورانیے کے اعدادوشمار کے تجزیے سے علم ہوا کہ اس دوران آسٹریا اور اٹلی میں بھی پچاس فیصد زیادہ اموات ہوئیں۔
یورو اسٹیٹ نے بتایا ہے کہ یہ نہیں کہا جا سکتا کہ ان تمام ہلاکتوں کی وجہ کورونا تھی کیونکہ اس دوران مرنے والے تمام افراد کا ڈیٹا جمع کیا گیا ہے اور ان کی موت کی وجہ کچھ اور بھی ہو سکتی ہے۔
ع ب / ع ا / خبر رساں ادارے
جرمنی میں کورونا سے اموات: میت سوزی کے مراکز بھی مشکل میں