یورپی یونین میں مکھی کُش ادویات کے استعمال پر پابندی
30 اپریل 2018
یورپی یونین نے تین ایسی کیڑے مار ادویات کے استعمال پر پابندی کی توسیع کر دی ہے، جو شہد کی مکھیوں کے لیے نقصان دہ ہیں۔ اس طرح اب ان ادویات کو یورپ بھر میں کہیں بھی کھلی فضا میں استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
اشتہار
اس حوالے سے ماہرین کے ایک پینل، جس میں یورپی یونین کی تمام 28 رکن ریاستوں کے نمائندے موجود تھے، نے جمعے کے روز تین کیڑے مار ادویات پر پابندی کو توسیع دینے کے حق میں ووٹ دیا۔ ان ادویات کے بارے میں ماہرین نے خبردار کیا تھا کہ یہ شہد کی مکھیوں کی آبادی میں کمی کی وجہ بن رہی ہیں۔
گبینہ جبہ، سوات کی ان دیکھی خوبصورت وادی
سوات کی تحصیل مٹہ سے میں واقع خوبصورت وادی ’’ گبینہ جبہ‘‘ اپنے ہرے بھرے مرغزاروں، گھنے جنگلات، بلند بالا پہاڑوں اور شہد کی وجہ سے شہرت کی حامل ہے۔
تصویر: DW/A.Bache
گبینہ جبہ کے معنی
پشتو زبان میں ’’گبین‘‘ کا مطلب شہد جبکہ ’’جبہ‘‘ دلدل کو کہتے ہیں۔ ایک زمانے میں یہ پورا علاقہ دلدل ہوا کرتا تھا۔ گبینہ جبہ مینگورہ شہر سے تقریباً 45 کلومیٹر کے فاصلے پر سطح سمندر سے گیارہ ہزار فٹ کی بلندی پر واقع ہے۔
تصویر: DW/A.Bache
پہاڑی سلسلہ، الپائن اور گلیشئیر
گبینہ جبہ کے چاروں اطراف برف پوش پہاڑوں کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ یہ پہاڑ سطح سمندر سے سولہ ہزار فٹ بلندی پر واقع ہیں، جنہیں الپائن بھی کہتے ہیں جبکہ ان پہاڑوں میں سوات کے گلیشئر بھی ہے۔ پہاڑوں کا یہ سلسلہ کوہ ہندوکش سے جا ملا ہے جبکہ درال، سیدگئی اور ضلع دیر سے بھی یہ پہاڑ ملے ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/A.Bache
پہاڑوں سے گرتے ہوئے آبشار
گبینہ جبہ میں جگہ جگہ پر برفیلے پہاڑوں کا پانی آبشاروں اور جھرنوں کی شکل میں نیچھے گرتا ہے۔ ان آبشاروں کا نظارہ بہت ہی خوبصورت اور پر سکون ہے۔
تصویر: DW/A.Bache
چرواہوں کا قیام
گبینہ جبہ میں سال کے تین مہینوں جون، جولائی اور اگست میں چرواہے اپنے مویشیوں کے ہمراہ یہاں کا رخ کرتے ہیں اور یہاں پر قیام کرتے ہیں۔ مویشی بھی ان خوبصورت نظاروں میں گم دکھائی دیتے ہیں ۔
تصویر: DW/A.Bache
مقامی سواری
گبینہ جبہ جانے کے لئے فور وہیل گاڑی کا انتظام کیا جاتا ہے تاہم شاہراہ کی خستہ حالی کے باعث اب یا تو پیدل جانا پڑے گا یا وہاں پر موجود خچروں اور گھوڑوں کے ذریعے۔ مقامی لوگ آنے والے سیاحوں کو خچروں اور گھوڑوں کے ذریعے گبینہ جبہ لے جاتے ہیں، جس سے یہاں کے لوگوں کو مالی فائدہ پہنچتا ہے۔
تصویر: DW/A.Bache
سیاحوں کی آمد
اس علاقے کی خوبصورتی دیکھنے اور سکون کے چند لمحے گزارنے سیاح معقول تعداد میں یہاں آتے ہے اور یہاں پر خیمے لگا کر قدرتی نظاروں اور ٹھنڈی ہواؤں سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ پشاور سے آئے ہوئے سیاح اکبر علی کے مطابق گبینہ جبہ دنیا کی خوبصورت وادی ہے۔
تصویر: DW/A.Bache
ہرے بھرے مرغزار اور یخ بستہ موسم
گبینہ جبہ میں حد نگاہ خوبصورت مرغزار موجود ہے جبکہ یہاں کی ٹھنڈی ہوائیں مسحور کن احساس دلاتی ہیں۔ اس علاقے کے بارے میں زیادہ تر لوگ نہیں جانتے جبکہ یہ خوبصورت وادی سوات کی حسین وادیوں میں شمار ہوتی ہے۔
تصویر: DW/A.Bache
جنگل اور قیمتی لکڑی
گبینہ جبہ اور اس سے ملحقہ علاقوں میں کثیر مقدار میں جنگلات ہیں، جنہیں سوات کے گھنے جنگلات میں شمار کیا جاتا ہے۔ شاہ وزیر خان کے مطابق ان جنگلات میں سوات کی قیمتی لکڑی دیودار، منگزئی، اچر، کچر، پیوچ اور کانڑ کے درختوں کی ایک بڑی تعداد شامل ہے۔
یورپی کمیشن کی جانب سے جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے، ’’رکن ریاستوں کے نمائندوں نے یورپی کمیشن کے اس منصوبے کو منظور کر لیا ہے، جس کے تحت تین کیڑے مار کیمیائی مادوں کے استعمال پر پابندی برقرار رکھی جائے گی۔ سائنسی تحقیق نے بتایا ہے کہ کھلی فضا میں ان کا استعمال شہد کی مکھیوں کو نقصان پہنچانے کا سبب بن رہا ہے۔‘‘
اس بین کے مطابق جرمن کمپنی بائر کی تیار کردہ امیڈالوپریڈ، بائر جاپانی کمپنی ٹیکڈا کیمیکل انڈسٹریز کی کلوتھیانیڈِن اور سوئس کمپنی سینگینٹا کی تھیامیتھوکسم کو یورپ بھر میں کسی بھی کھلے مقام پر استعمال نہیں کیا جا سکے گا۔
پابندی سے متعلق یورپی یونین کے بیان کے مطابق، ’’کھلی فضا میں ان ادویات کے استعمال پر مکمل پابندی ہو گی، جب کہ یہ ادویات صرف اور صرف مستقبل میں گرین ہاؤس ماحول کی حامل بند جگہوں پر تجرباتی مقاصد کے لیے استعمال ہو پائیں گی، جہاں شہد کی مکھیوں کا احتمال نہ ہو۔‘‘
مائیکرو چِپس والی شہد کی مکھیاں
آسٹریلوی ماہرین نے 10 ہزار شہد کی مکھیوں پر مائیکرو چِپس لگائی ہیں۔ اس کا مقصد دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی تیزی سے کم ہوتی آبادی کی وجہ جاننا ہے۔
تصویر: CSIRO
بھاری بھرکم چپ؟
اس کی شہد کی مکھی کی پشت پر موجود اس چپ کا سائز 2.5 ملی میٹر ہے تاہم اس کا وزن محض 5.4 ملی گرام ہے۔ بظاہر یہ چپ بہت بڑی نظر آتی ہے تاہم آسٹریلوی تحقیقی ادارے CSIRO کے ماہر گیری فِٹ کے مطابق اس چپ کا وزن قریب اس ایک پولن کے ہی قریب ہے جو یہ مکھیاں جمع کرتی ہیں۔
تصویر: CSIRO
ننھی مکھی کی کمر پر سامان
آسٹریلوی ریاست تسمانیہ میں قریب 10 ہزار یورپی شہد کی مکھیوں میں یہ RFID سینسر چپس لگائی گئی ہیں۔ ان چپس کو باندھنے کے لیے ماہرین کو ان مکھیوں کو تھوڑی دیر کے لیے بے ہوش کرنا پڑا۔ برازیل میں بھی ایسا ہی ایک تجربہ چل رہا ہے۔
تصویر: CSIRO
مقصد شہد کی مکھیوں کا معمول جاننا
مکھیوں پر لگی چپس کے علاوہ ان کے چھتوں میں بھی ریسیورز لگائے گئے ہیں۔ اس کا مقصد ان مکھیوں کے ماحول میں پرواز کے دوران اور چھتے میں گزارے جانے والے وقت کے دوران ان کے معمولات جاننا ہے کہ وہ کچھ کھا رہی ہیں، پولن جمع کر رہی ہیں یا کچھ اور۔
تصویر: CSIRO
بنیادی مسئلہ
اس تحقیق اور دنیا بھر میں اس طرح کی دیگر تحقیق کی بدولت سائنسدان یہ جان سکیں گے کہ شہد کی مکھیوں کی بڑی تعداد میں ہلاکت کی وجوہات کیا ہیں تاکہ ان کا خاتمہ کیا جا سکے۔ گیری فِٹ کے مطابق ان کے طریقہ کار سے یہ فوری طور پر جانا جا سکتا ہے کہ مکھیاں مختلف چیزوں پر کیسا ردعمل دکھاتی ہیں۔
تصویر: CSIRO
زندگی کو لاحق خطرات
حالیہ برسوں کے دوران دنیا بھر میں شہد کی مکھیوں کی کالونیاں بہت تیزی سے ختم ہوئی ہیں۔ ماہرین کے مطابق اس کی ایک وجہ ’واروا مائٹس‘ نامی ننھی جوؤں کےعلاوہ فصلوں پر چھڑکی جانے والی کیمیائی ادویات بھی ہیں۔ خیال رہے کہ شہد کی مکھیاں پھولوں کے 70 فیصد پودوں کی پولینیشن کرتی ہیں۔ مکھیوں کے خاتمے سے خوراک کا بحران بھی پیدا ہو سکتا ہے۔
تصویر: CSIRO
5 تصاویر1 | 5
یہ تینوں ادویات ایسے پیسٹیسائٹس ہیں، جو نیکوٹین سے متعلق کیمیائی مواد سے بنتی ہیں اور گزشتہ بیس برسوں سے زراعت کے شعبے میں استعمال ہو رہی ہیں۔ دیگر ادویات چھڑکاؤ کے بعد پودے کی جڑ کی جانب چکی جاتی ہیں تاہم یہ تینوں کیمیائی مادے پودے میں جذب ہو جاتی ہیں اور حملہ آور جراثیم کو ہلاک کر دیتے ہیں، تاہم ان کا شہد کی مکھیوں سمیت حشرات پر بھی نہایت مضر ہوتا ہے۔
رواں برسی فروری میں یورپی ادارہ برائے فوڈ سیفٹی نے کہا تھا کہ ان ادویات کا استعمال شہد کی مکھیوں کے لیے ’سنجیدہ نوعیت کے خطرات‘ کا حامل ہے۔