یورپی یونین میں ’مہاجر کوٹہ سسٹم منصوبہ‘ مشکلات کا شکار
صائمہ حیدر
1 اکتوبر 2016
یورپ میں پناہ گزینوں کی منصفانہ تقسیم ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اتوار دو اکتوبر کو ہنگری میں مجوزہ ایک ریفرنڈم میں اس بات کا قوی امکان ہے کہ عوام یورپی یونین کے مہاجرین کو قبول کرنے کے کوٹے کے منصوبے کی مخالفت کریں گے۔
اشتہار
یورپی یونین نے سن دو ہزار پندرہ میں اٹلی اور یونان سے ایک لاکھ ساٹھ ہزار پناہ گزینوں کو یورپی یونین کے دیگر ممالک میں منتقل کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اس منصوبے کے تحت کہا گیا تھا کہ سیاسی پناہ کی درخواست منظور ہونے کے سب سے زیادہ امکانات رکھنے والے تارکین وطن کو کسی بھی یورپی ملک میں منتقلی کے بعد وہیں رہ کر فیصلے کا انتظار کرنا ہو گا اور کامیابی کی صورت میں اُنہیں اُسی ملک میں مستقل رہائش اختیار کرنے کی بھی اجازت مل جائے گی۔
اس نظام کے تحت ہنگری کے حصے میں ایک ہزار دو سو چورانوے جبکہ سلوواکیہ کے حصے میں نو سو دو مہاجرین آنا تھے۔ تاہم ان دونوں ممالک نے یورپی یونین کے مہاجرین کی منصفانہ تقسیم کی ’لازمی کوٹہ اسکیم‘ کو مسترد کر دیا ہے اور اب اس معاملے کو یورپی کورٹ آف جسٹس میں بھی لے جا رہے ہیں۔
یورپی یونین کے شماریات کے آفس یورو اسٹیٹ کے مطابق یورپی یونین میں گزشتہ پورے سال کے دوران پہلی مرتبہ دائر کی جانے والی سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد ایک اعشاریہ دو پانچ ملین تھی جبکہ اکیس ستمبر سے پہلے بارہ ماہ کے دوران یہ تعداد ایک اعشاریہ چار چار ملین رہی۔
سن دو ہزار پندرہ میں یورپی یونین کے ممالک میں سیاسی پناہ کی پہلی مرتبہ دائر ہونے والی سب سے زیادہ یعنی چار لاکھ اکتالیس ہزار آٹھ سو درخواستیں جرمنی نے وصول کیں۔ اس کے بعد ہنگری کا نمبر ہے، جہاں ایک لاکھ چوہتر ہزار چار سو پینتیس جبکہ تیسرے نمبر پر موجود سویڈن میں ایک لاکھ چھپن ہزار ایک سو دس درخوستیں دائر کی گئیں۔ پناہ گزینوں کی منزل بننے والے ممالک کی اس فہرست میں اگلے دو ممالک آسٹریا اور اٹلی ہیں۔
سن دو ہزار پندرہ میں آسٹریا میں سیاسی پناہ کی دائر شدہ درخوستوں کی تعداد پچاسی ہزار پانچ سو پانچ تھی جبکہ اٹلی میں یہ تعداد تراسی ہزار دو سو پینتالیس تھی۔ اس فہرست میں سب سے آخر میں کروشیا، ایستونیا اور سلووینیا ہیں، جہاں پہلی بار دائر ہونے والی سیاسی پناہ کی درخواستوں کی تعداد بالترتیب ایک سو چالیس، دو سو پچیس اور دو سو ساٹھ رہی۔
ہنگری کی حکومت نے مہاجرین کی منتقلی کے نکتے پر اعتراضات اٹھائے تھے۔ ہنگری کی جانب سے اس منصوبے کی مخالفت بالآخر یہاں ایک ریفرنڈم کے انعقاد کے فیصلے پر منتج ہوئی، جس کے لیے ہنگری کے عوام اتوار دو اکتوبر کو ووٹ ڈالنے والے ہیں۔ تاہم یورپی یونین کے معاہدے کے خلاف ریفرنڈم منعقد کروانے کے فیصلے نے ہنگری کے وزیرِاعظم وکٹر اوربان کی مقبولیت اور ہنگری کے عوام میں مہاجر مخالف جذبات میں اضافہ کیا ہے۔
اوربان کا کہنا ہے کہ ریفرنڈم میں حکومتی موقف کی حمایت کے بعد برسلز کے لیے مشکل ہو جائے گا کہ وہ ہنگری کو طے شُدہ کوٹے کے مطابق تارکین وطن کو قبول کرنے پر مجبور کر سکے۔ خیال رہے کہ ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ دوسری جانب یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کے حالیہ بحران کے نتیجے میں شورش زدہ ملکوں اور خطّوں سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں برابر برابر تقسیم کر دیا جائے۔
اس کے لیے یورپی حکام نے ایک فارمولا بھی تیار کر لیا ہے تاکہ آبادی اور رقبے کے لحاظ سے کسی بھی یورپی ملک پر کوئی اضافی بوجھ نہ پڑے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان ممالک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔
ہنگری کی سرحد پر مہاجرین کی ابتر صورتحال
ہنگری میں مہاجرین سے متعلق ریفرنڈم سے قبل اس ریاست کی سرحد پر جمع سینکڑوں مہاجرین کے مصائب میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ تاہم یہ لوگ انتہائی مشکلات کے باوجود اپنے مہاجرت کے سفر میں شکست تتسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں۔
تصویر: Reuters/L. Balogh
کوئی چارہ گر نہیں
دو اکتوبر بروز اتوار ہنگری میں ایک ریفرنڈم کا انعقاد کیا جا رہا ہے۔ اس ریفرنڈم میں عوام سے پوچھا جائے گا کہ کیا وہ یورپی یونین کے کوٹہ سسٹم کے تحت تارکین وطن کو ہنگری کی پارلیمان کی اجازت کے بغیر ملک میں پناہ دینے کے حق میں ہیں؟ وزیر اعظم وکٹور اوربان کی حکمران فیدس پارٹی کا کہنا ہے کہ اس کے سوال کا منفی میں جواب ہی ہنگری کی آزادی اور سالمیت کے حق میں ہو گا۔
تصویر: DW/D. Cupolo
یورپ داخل ہونے کے لیے نیا دروازہ
اس گیٹ کے ذریعے مہاجرین ہنگری کے علاقے کیلیبیا میں داخل ہوتے ہیں۔ سربیا اور ہنگری کی حکومتوں کے مابین ایک ڈیل کے تحت یومیہ بیس مہاجرین کو ہنگری میں داخل ہونے کی اجازت دی جاتی ہے۔ ان مہاجرین کی سربیا میں رجسٹریشن ہوتی ہے جبکہ ہنگری میں داخل ہونے سے قبل ان کا تفصیلی انٹرویو بھی کیا جاتا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظامی غلطیوں کا احتمال
سربیا سے ہنگری داخل ہونا آسان نہیں۔ اٹھارہ سالہ مصری مہاجر محمد جمال کو اطلاع ملی کہ اس کا اںٹرویو ہونے والا ہے۔ تاہم جب وہ ہنگری پہنچا تو معلوم ہوا کہ یہ انٹرویو اس کا نہیں بلکہ اسی کے ہم نام کسی اور مصری مہاجر کا تھا۔ ہنگری کے حکام کے پاس جمال کا ڈیٹا نہیں کہ آیا وہ سربیا میں داخل ہوا بھی تھا یا نہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
انتظار کی تھکن
انٹرویو کے انتظار میں جمال نے ہنگری کی سرحد سے متصل ایک عارضی کیمپ میں رہائش اختیار کر لی ہے۔ اس کیمپ میں رہنے والے دیگر مہاجرین بھی انٹرویو کے منتظر ہیں۔ وہاں بنیادی سہولیات کا فقدان ہے۔ اس تصویر میں نظر آنے والے بچے ایزدی گھرانوں سے تعلق رکھتے ہیں، جو بے یارومدگار یورپ داخل ہونے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
سرحدوں کی سخت نگرانی
جمال نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ ہنگری داخل ہونے کے لیے کوئی اور راستہ تلاش کر لے گا۔ اس نے کہا کہ اس مقصد کے لیے وہ انسانوں کے اسمگلروں سے بات چیت کر رہا ہے۔ اس کی ایک ایسی ہی کوشش ناکام ہو چکی ہے۔ ہنگری کی سرحد پر محافظ چوکنا ہیں جبکہ ہیلی کاپٹروں سے نگرانی بھی کی جا رہی ہے۔ جمال کے بقول اگر کوئی مہاجر سرحدی محافظوں سے تیز بھاگتا ہے تو اس کے پیچھے سدھائے ہوئے کتے چھوڑ دیے جاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
’یہ جگہ پھر بھی بہتر ہے‘
اربیل میں کار مکینک ولید خالد اپنے بچوں کے ہمراہ ہنگری کی سرحد پر کئی مہینوں سے رہائش پذیر ہے۔ اس کے بچے یہاں کھیلتے رہتے ہیں۔ ولید کا کہنا ہے کہ یہاں کے حالات انتہائی برے ہیں لیکن پھر بھی یہ مقام کئی دیگر علاقوں سے بہتر ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
واپسی کا راستہ نہیں
ہنگری میں کیلیبیا کے مہاجر کیمپ میں رہائش پذیر زیادہ تر مہاجرین کا تعلق مشرق وسطیٰ کے ممالک سے ہے۔ پاکستانی اور افغان مہاجرین ہورگوس نامی ایک دوسرے کیمپ میں سکونت پذیر ہیں۔ خالد کا کہنا ہے کہ وہ کیلیبیا میں رہنے کو ترجیح دیتا ہے کیونکہ دیگر کیمپوں میں اسے کئی مرتبہ لوٹا جا چکا ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
ہنگری کی حکومت کا خوف
ہنگری کی حکومت کا کہنا ہے کہ بڑے پیمانے پر مہاجرین کی آمد سے ملکی ثقافت تباہ ہو جائے گی۔ یورپی یونین کی کوشش ہے کہ مہاجرین کو تمام یورپی ملکوں میں ایک کوٹہ سسٹم کے تحت تقسیم کر دیا جائے۔ تاہم اوربان کا کہنا ہے کہ مہاجرین کو کوٹہ سسٹم کے تحت یورپی ممالک میں پناہ دینے کا فیصلہ دراصل ان کے ملک کی قومی خودمختاری کے خلاف ہے۔