یورپی سربراہ اجلاس سے ایک روز قبل جرمن وفاقی چانسلر انگیلا میرکل نے جرمن پارلیمان میں اپنے خطاب کے دوران خبردار کیا ہے کہ مہاجرین کے بحران سے نبرد آزما ہونے کی یورپی پالیسی غلط سمت اختیار کر سکتی ہے۔
اشتہار
جرمن چانسلر انگیلا میرکل نے مہاجرین کے بحران کے تناظر میں یورپی سطح پر مشترکہ اقدامات کی ضرورت پر زوردیا ہے۔ میرکل نے جرمن پارلیمان میں اپنے ایک پالیسی بیان میں کہا کہ مشترکہ ہدف مہاجرین کی تعداد میں مؤثر طریقے سے کمی کرنا ہے۔
انہوں نے مہاجرین کی صورت حال کو ناقابل برداشت قرار دیتے ہوئے انہیں ہر طرح سے مدد فراہم کرنے پر بھی زور دیا۔ میرکل کا یہ بیان اس دو روزہ یورپی سربراہ کانفرانس سے ایک روز پہلے سامنے آیا ہے، جو کل سے برسلز میں شروع ہو رہی ہے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کی رپورٹوں کے مطابق میرکل کا کہنا تھا کہ یورپی یونین کو پناہ گزینوں کا موجودہ بحران حل کرنے کے لیے تمام ممکن اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ یونین کے رکن ممالک اس بحران سے متاثر نہ ہوں۔
میرکل کا یہ بھی کہنا تھا کہ یورپ آنے والے تارکین وطن کی تعداد کم کرنے کے لیے ان وجوہات کا خاتمہ بھی ضروری ہے جن کی وجہ سے لوگ بھاگنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ جرمن چانسلر کے بقول یورپی یونین کے سربراہ اجلاس کے دوران اس معاملے پر بات چیت کی جائے گی۔
ترکی اور یورپی یونین کے مابین تارکین وطن کو روکنے کے معاہدے کے حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ سمٹ کے دوران اس معاہدے کے بارے میں بھی فیصلہ کیا جائے گا۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ برسلز میں اجلاس کے دوران مہاجرین کی رکن ممالک میں تقسیم کے منصوبے پر بات چیت نہیں کی جائے گی۔ اس حوالے سے ان کا کہنا تھا کہ مہاجرین کی تقسیم کے پہلے سے طے شدہ منصوبے پر ابھی تک عمل درآمد نہیں ہو سکا، اسی وجہ سے اس موضوع پر مزید گفتگو کا فائدہ نہیں ہو گا۔
یورپی یونین کے کل سے شروع ہونے والے دو روزہ سربراہ اجلاس کے دوران تارکین وطن کی یورپ آمد روکنے کے لیے اب تک کیے گئے اقدامات کا بھی جائزہ لیا جائے گا۔
ترکی کی جانب سے تارکین وطن کو روکنے میں ناکامی کی صورت میں پلان بی بھی زیر بحث لایا جائے گا۔ متبادل منصوبے کے تحت یونان کی مقدونیا اور بلغاریہ سے متصل سرحدیں بند کر دی جائیں گی۔ اس منصوبے کو آسٹریا کی حمایت بھی حاصل ہے تاہم یورپی یونین نے خبردار کیا ہے کہ اس صورت میں یونان عملی طور پر شینگن زون سے خارج ہو جائے گا۔
شامی مہاجرین کا ترکی میں نئی زندگی کا آغاز
ترکی کے شہر ازمیر میں امدادی گروپوں اور رضاکارانہ طور پر سرگرم کارکنوں کی مدد سے شامی مہاجرین نے اپنا کاروبارِ زندگی نئے سرے سے شروع کیا ہے۔ ترکی کا یہ بندرگاہی شہر شام کے پچاسی ہزار مہاجرین کا مسکن ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
شامی مہاجرین کی بڑھتی کاروباری سرگرمیاں
ازمیر کا علاقہ بسمانے، انسانی اسمگلروں کی سرگرمیوں کے لیے مشہور ہے اور یہاں مہاجرین کی ملکیت اسٹورز اور ریستوران کی تعداد شامی مہاجرین کے آنے کے بعد سے دوگنی ہو گئی ہے۔ شامی مہاجرین زیادہ تر کاروبار اپنے ترک دوستوں کے نام پر کر رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بے روزگار اور بے یار و مددگار
مہاجرین کے لیے بلوں کی ادائیگی ایک مسئلہ ہے۔ زیادہ تر بے روزگار افراد کیفے میں بیٹھ کر اپنا وقت گزارتے ہیں۔ ان میں سے بہت سوں کو تو صحت کی بنیادی سہولیات بھی دستیاب نہیں ہیں۔ میڈیکل کی تعلیم حاصل کرنے والی ایک جرمن لڑکی لیا ولمسن ان افراد کو مفت یہ سہولت مہیا کر رہی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محدود جگہ اور مسائل
لیا ولمسن کو اس کام میں ایک مترجم بھی مدد فراہم کر رہا ہے۔ ولمسن بسمانے میں مہاجرین کے گھروں میں جاتی ہے۔ اس تصویر میں وہ دو خواتین سے بات کر رہی ہے ، جن کے بچے نظام تنفس کے مسائل کا سامنا ہے۔ ولمسن کے بقول چھوٹے سے کمروں میں گنجائش سے زیادہ افراد کی موجودگی کی وجہ سے کمروں میں نمی بڑھ جاتی ہے اور جس سے مسائل پیدا ہو رہے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
بچے اور روزگار
اس علاقے میں لائف جیکٹس عام دکانوں پر فروخت ہو رہی ہیں اور بچے بھی یہیں کھیلتے ہیں۔ ازمیر میں موجود مہاجر بچے باقاعدگی سے اسکول نہیں جاتے بلکہ کام کرنے کو ترجیح دیتے ہیں۔ اس طرح وہ کرایہ اور بلوں کی ادائیگیوں میں اپنے گھر والوں کا ہاتھ بٹاتے ہیں۔
تصویر: DW/D. Cupolo
مہاجر کیمپوں کا قیام
ییلسن یانک یونین کے سابقہ ملازم ہیں۔ وہ آج کل ایک ایسی عمارت میں تزئین و آرائش کا کام کر رہے ہیں، جسے مکمل ہونے کے بعد مہاجرین کا ایک مرکز بنا دیا جائے گا۔ ییلسن یانک کے بقول’’ مجھے مہاجرین کی مدد کرنا اچھا لگتا ہے۔‘‘
تصویر: DW/D. Cupolo
خود انحصاری
اطالوی نژاد ایک برطانوی رضاکار کرس ڈولنگ بھی ییلسن یانک کے ساتھ مل کر کام کر رہے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ مہاجرین کی مدد کرنا بہت ضروری ہے۔’’ ہم نہیں چاہتے لوگ صرف امداد پر ہی انحصار کریں۔ ہم انہیں معاشرے میں ضم کرنا چاہتے ہیں تاکہ یہ لوگ کام کر سکیں اور اپنی زندگی کو بہتر بنا سکیں‘‘۔
تصویر: DW/D. Cupolo
جگہ کی کمی
یورپی یونین کے تعاون سے چلنے والی امدادی تنظیم ’میرسی کورپس‘ نے ازمیر میں اپنا ایک دفتر کھولا ہے۔ یہاں پر مستحق مہاجر خاندانوں میں پرچیاں تقسیم کی جاتی ہیں اور انہیں مشاورت فراہم کی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ یہ تنظیم بہت کم کرائے پر گھر بھی فراہم کرتی ہے۔
تصویر: DW/D. Cupolo
اسمگلروں کا اڈہ
امدادی کارکنوں اور تنظیموں کی مشترکہ کوششوں کے باوجود زیادہ تر مہاجرین ازمیر انسانی اسمگلروں کی تلاش میں آتے ہیں۔ انتظامیہ اسمگلروں اور شہریوں کے مابین رابطوں کو روک نہیں پا رہی۔
تصویر: DW/D. Cupolo
محفوظ راستہ
یہ یونانی جزیرہ کی اوس کی تصویر ہے۔ ترک علاقے سیسما سے یہ یونانی ساحل زیادہ دور نہیں ہے۔ یورپ جانے کے خواہشمند مہاجرین زیادہ تر بحیرہ ایجیئن کو یہیں سے پار کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔