یورپی یونین میں وقت کی تبدیلی کا نظام خاتمے کے قریب؟
29 اگست 2018
مغربی یورپ میں ہر سال دو بار یہ بحث شدید ہو جاتی ہے کہ آیا گرمیوں اور سردیوں کے مختلف معیاری اوقات کا نظام درست ہے۔ اب یورپی یونین کے ایک سروے میں اسّی فیصد شہریوں نے تبدیلی وقت کے نظام کے خاتمے کی حمایت کر دی ہے۔
اشتہار
مغربی یورپ میں ہر سال معیاری وقت دو بار تبدیل ہوتا ہے۔ ایک بار مارچ کے اواخر میں جب موسم گرما کا معیاری وقت شروع ہوتا ہے اور دوسری بار اکتوبر کے اواخر میں جب موسم سرما کے معیاری وقت کا آغاز ہوتا ہے۔ یورپی یونین نے اپنے رکن ممالک میں حال ہی میں ایک آن لائن سروے کرایا، جس میں عام شہریوں سے پوچھا گیا تھا کہ وہ یورپ میں گرما اور سرما کے مختلف معیاری اوقات کے بارے میں کیا سوچتے ہیں اور آیا یہ نظام ختم کر دینا چاہیے۔
اس سروے میں 80 فیصد سے زائد رائے دہندگان نے کہا کہ یورپ میں گرمیوں اور سردیوں میں مختلف معیاری اوقات کا نظام ختم کر دینا چاہیے۔ اس سلسلے میں جرمن نشریاتی ادارے اے آر ڈی نے بتایا کہ اس سروے کے غیر اعلان شدہ سرکاری نتائج کے مطابق یورپی شہریوں کی تین چوتھائی سے بھی زیادہ اکثریت اس امر کے خلاف ہے کہ ’ہر سال دو بار وقت کو اِدھر اُدھر کیا جاتا رہے‘۔
جرمن خبر رساں ادارے ڈی پی اے نے بھی باخبر ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ ہر پانچ میں سے چار سے بھی زیادہ یورپی باشندے یونین میں وقت کی تبدیلی کے نظام کے خلاف ہیں۔
اس آئن لائن سروے میں پوری یورپی یونین سے 4.6 ملین شہریوں نے حصہ لیا، جن میں سے تین ملین سے زائد رائے دہندگان کا تعلق جرمنی سے تھا، جو یورپی یونین کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے۔
ڈی پی اے نے لکھا ہے کہ اس سروے کے اتنے واضح نتائج اور موجودہ نظام میں تبدیلی کی عوامی خواہش کے بعد یہ امکان کافی زیادہ ہے کہ برسلز میں یورپی کمیشن کی طرف سے ان نتائج کے پیش نظر جلد ہی ایک فیصلہ کر لیا جائے گا۔ یورپی یونین اب کیا فیصلہ کرتی ہے اور اگر موجودہ ’ٹائم سسٹم‘ میں کوئی تبدیلی کی گئی،تو وہ کیا ہو گی اور اس پر کب سے عمل درآمد کیا جائے گا، یہ بات ممکنہ طور پر اسی ہفتے واضح ہو جائے گی۔
دنیا میں غیر معمولی نظام الاوقات
شمالی کوریا نے اپنا معیاری وقت ایک مرتبہ پھر تبدیل کرتے ہوئے گھڑیوں پر سابقہ ٹائم بحال کر دیا ہے۔ اب دونوں کوریائی ملکوں کا معیاری وقت ایک ہے۔ تاہم ایسا پہلی دفعہ نہیں ہوا ہے۔
سن 1949 میں چین میں اقتدار سنبھالنے والی کمیونسٹ پارٹی نے سارے ملک میں پائے جانے والے مختلف ٹائم زونز کو ختم کرتے ہوئے ایک معیاری وقت نافذ کر دیا تھا۔ بیجنگ عالمی معیاری وقت سے آٹھ گھنٹے آگے ہے۔ اب سارے چین میں یہی نظام رائج ہے۔ ایک ٹائم کے نفاذ کی وجہ سے اس ملک کے مختلف حصوں میں رہنے والے چینی باشندوں کو اپنے جسم کے اندر بھی نئے معیاری وقت کے مطابق تبدیلیاں لانی پڑی تھیں۔
تصویر: Reuters/China Daily
رات کے اُلُو
اسپین کے ڈکٹیٹر فرانسیسکو فرانکو نے سن 1840 میں اپنی غیرجانبداری کا اظہار کرتے ہوئے ملک کے معیاری وقت کو سینٹرل یورپی ٹائم کے برابر کر دیا تھا۔ یہ وقت نازی جرمنی کے مساوی تھا۔ اس باعث اسپین میں سورج جلدی طلوع ہو جاتا ہے اور غروب بھی دیر سے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/UPI
ماضی سے نجات
جزیرہ نما کوریا میں بھی معیاری وقت میں تبدیلی سامنے آئی ہے۔ سن 2015 میں انتہائی کشیدگی کے دور میں شمالی کوریا نے اپنے معیاری وقت کو جنوبی کوریا سے علیحدہ کر دیا تھا۔ شمالی کوریائی حکومت نے وقت کی تبدیلی کو جزیرہ نما کوریا میں جاپانی نوآبادیاتی دور کے وقت کو تبدیل کرتے ہوئے اُس عہد سے چھٹکارہ حاصل کرنا قرار دیا تھا۔ جاپان جزیرہ نما کوریا پر سن 1910 سے 1945 تک حاکم رہا تھا ۔
تصویر: picture-alliance/MAXPPP
مختلف ہونے کا احساس
نیپال بھی وقت کے حوالے سے قدرے غیرمعمولی ہے۔ یہ ملک اپنے ہمسائے بھارت سے پندرہ منٹ آگے ہے اور اس طرے عالمی معیاری وقت سے اس کا فرق پانچ گھنٹے پینتالیس منٹ ہے، جو حیرانی کا باعث ہے۔ نیپالی حکومت نے اپنے معیاری وقت کو بھارت سے پندرہ منٹ آگے کر کے جو فرق پیدا کیا ہے، اُس نے نیپالی عوام کو اپنا علیحدہ وقت رکھنے کا احساس دیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/blickwinkel/F. Neukirchen
بجلی بچاؤ، مستقبل کو بہتر کرو
وینزویلا کے صدر نکولاس مادُورو نے سن 2016 میں اپنے معیاری وقت کو تیس منٹ آگے کر دیا تھا۔ یہ ملک عالمی معیاری وقت سے چار گھنٹے پیچھے ہے۔ اس فیصلے سے مادورو نے اپنے پیشرو ہوگو چاویز کے سن 2007 کے فیصلے کو تبدیل کر دیا۔ مادورو نے يہ قدم بجلی بچانے کے مقصد سے اٹھايا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Gutierrez
ایک طویل جست
وقت کے اعتبار سے سب سے بڑی جست بحر الکاہل کے ملک سموآ نے لگائی۔ سن 2011 میں سموآ نے معیاوی وقت میں ایک پورے دن کا فرق پیدا کر دیا۔ یہ پہلے سڈنی سے 21 گھنٹے پیچھے تھا اور پھر اس کے معیاری وقت کو سڈنی سے 3 گھنٹے آگے کر دیا گیا۔ انیسویں صدی میں سموآ کے بادشاہ نے امریکا سے وابستگی کے تحت معیاری وقت امریکا کے مساوی کر دیا تھا۔ اس تبديلی سے سموآ کے آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے ساتھ تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
6 تصاویر1 | 6
یورپی یونین کے اندرونی حلقوں کے مطابق یورپی معیاری وقت کے تعین اور اس میں تبدیلی کا معاملہ یونین کی کمشنر ویولیٹا بُلٹس کی عمل داری میں آتا ہے۔ کافی زیادہ امکان ہے کہ کمشنر بُلٹس کل جمعرات تیس اگست کو برسلز میں اس بارے میں ایک اعلان کرتے ہوئے اپنی طرف سے تجاویز پیش کر دیں گی۔
یورپ میں ہر سال دو باری وقت کی تبدیلی کا نظام کافی عرصے سے متنازعہ ہے اور اسی سلسلے میں اس سال فروری میں یورپی پارلیمان نے بھی یورپی کمیشن سے کہا تھا کہ وہ اس بات کا جائزہ لے کہ اس نظام پر عمل درآمد جاری رکھنے کے فوائد کیا ہیں اور اس میں ممکنہ تبدیلی کے منفی اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ یورپی پارلیمان کے اس مطالبے کے بعد ہی یورپی کمیشن نے اس سروے کا آغاز جولائی میں کیا تھا۔
جرمنی میں توانائی کی بچت کے لیے موسم گرما اور سرما کے مختلف معیاری اوقات کا نظام 1980ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ یونین کی رکن کئی دیگر ریاستوں میں تو یہ نظام 1980ء سے بھی پہلے سے رائج ہے۔ اب تک کے طریقہ کار کے مطابق مغربی یورپ میں ہر سال مارچ کے آخری اتوار کو گھڑیاں ایک گھنٹہ آگے اور اکتوبر کے آخری اتوار کو دوبارہ ایک گھنٹہ پیچھے کر دی جاتی ہیں۔
م م / ع ا / اے آر ڈی، ڈی پی اے
انتہائی دلکش یورپی گھڑیال
کلائی کی گھڑیوں اور اسمارٹ فون کے دور میں عوامی مقامات پر نصب گھڑیالوں کی اہمیت کم ہوتی جا رہی ہے۔ یورپ میں کئی مقامات پر نصب بڑے گھڑیال اتار لیے گئے ہیں لیکن کئی گھڑیال اب بھی اپنی دلکشی کے ساتھ قائم و دائم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
لندن کا بگ بین
لندن کا بِگ بین یورپ کا انتہائی مشہور گھڑیال تصور کیا جاتا ہے۔ یہ جس مینار پر نصب ہے، اُس کا اصل نام ایلزبتھ ٹاور ہے لیکن اِس کی شہرت بگ بین ٹاور کے نام ہی سے ہے۔ اس کو لندن کی آواز یا ’وائس آف لندن‘ بھی کہا جاتا ہے۔ فی الحال مرمت کی وجہ سے بگ بین خاموش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/PA Wire/V. Jones
برلن کا ورلڈ ٹائم کلاک
جرمن دارالحکومت برلن کے الیگزانڈر پلاٹز پر نصب یہ گھڑیال انتہائی منفرد ہے۔ اس کو سن 1969 میں سابقہ مشرقی جرمنی کے صنعتی ڈیزائنر ایرش ژون نے ڈیزائن کیا تھا۔ ابتدا سے ہی یہ سیاحوں اور عام لوگوں کی ملاقات کا ایک مشہور مقام ہے۔ اس کے بلند مقام پر نظام شمسی اور نچلے حصے میں سلنڈروں کے ذریعے زمین کا نظام الاوقات دکھایا گیا ہے۔
یہ قدرے کم شہرت کا حامل گھڑیال ضرور ہے لیکن اپنی ساخت میں انتہائی دلچسپ ہے۔ یہ برلن کے یورپ سینٹر میں نصب ہے۔ تیرہ میٹر بلند یہ کرونو میٹر تقریباﹰ تین منزلوں کے مساوی ہے۔ اس کے شیشے کے بڑے بڑے پیمانوں میں سبز سیال مادہ گھنٹوں اور چھوٹے پیمانوں کا پانی منٹ کے لیے مختص ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner-Pressefoto
پراگ کے ٹاؤن ہال کا گھڑیال
چیک جمہوریہ کے دارالحکومت پراگ کے ٹاؤن ہال پر نصب سن 1410 میں تعمیر ہونے والا فلکیاتی گھڑیال گاتھک طرز تعمیر کا نمونہ ہے۔ یہ دنیا بھر میں اپنی انفرادیت کی وجہ سے ایک مثال ہے۔ روایت ہے کہ اُس وقت کے حاکم نے اس گھڑیال کی تکمیل پر اِس کے بنانے والے کی آنکھیں نکال دی تھیں تا کہ وہ کوئی دوسرا ایسا گھڑیال نہ بنا سکے۔ یہ تزیئن نو کے عمل سے گزر رہا ہے اور اکتوبر سن 2018 میں یہ عمل مکمل ہو جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/chromorange/Bilderbox
زُائیٹلوگے گھڑیال، بیرن
گھڑی سازی کے دیس سوئٹزرلینڈ کے موجودہ دارالحکومت اور خوبصورت شہر بیرن میں سن 1530 میں زائیٹلوگے گھڑیال کی تعمیر مکمل کی گئی تھی۔ سیاح ہر گھنٹے پر گھڑیال کے ہندسوں کی جگہ بنی اشکال کا تماشہ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/A. Filippov
اسٹراس برگ کا فلکیاتی گھڑیال
اسٹراس برگ کے کیتیھڈرل کے اندر نصب یہ گھڑیال سوئس گھڑی سازوں کی محنتِ شاقہ کا عکاس ہے۔ اس گھڑیال میں ہندسوں کی شکل میں انسانی زندگی کے ادوار کو دکھایا گیا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Arco Images GmbH/G. Lenz
دنیا کا سب سے بڑا ’کُکو گھڑیال‘
جنوبی جرمنی میں واقع مشہور بلیک فارسٹ کے شہر ٹرائی بیرگ میں یہ گھڑیال قریبی جنگلات کا نشان خیال کیا جاتا ہے۔ اس کو دنیا کا سب سے بڑا ’کُکُو کلاک‘ قرار دیا گیا ہے اس گھڑیال کا وزن چھ ٹن ہے۔ ہر گھنٹے اور نصف گھنٹے پر لکڑی کا بنا ہوا ساڑھے چار میٹر کی جسامت کا کُکُو گھڑیال کی کھڑی سے نمودار ہو کر وقت کا اعلان کرتا ہے۔
تصویر: Stadtverwaltung Triberg
میونخ کا گھڑیال
یہ گھڑیال جرمن شہر میونخ کے سٹی ہال کی عمارت کے باہر نصب ہے۔ یہ گھڑیال جدید دور کی توانائی سولر انرجی سے چلتا ہے اور تاریخی اہمیت کا حامل ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Warmuth
ویانا کا ’اینکر کلاک‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا کا اینکر گھڑیال بہت مشہور ہے۔ یہ اینکر ہوف بلڈنگ اور ہوہے مارکٹ کے حصوں کو جوڑنے والے پل پر نصب ہے۔ اس کے ڈیزائنر فرانز ماٹش تھے۔ اس گھڑیال کے ہر گھنٹے پر مشہور شخصیات کے مجسمے نمودار ہوتے ہیں۔
آسٹریا کے شہر گراتز کی ایک وجہٴ شہرت یہ کلاک ٹاور بھی ہے۔ یہ گھڑیال شلوس برگ میں نصب ہے اور دور سے دکھائی دیتا ہے۔ ابتداء میں اس میں صرف ایک سوئی نصب کی گئی تھی اور منٹ کی سوئی بعد میں لگائی گئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Votava
وینس کا فلکیاتی گھڑیال
اٹلی کے شہر وینس میں سینٹ مارکس اسکوائر میں یہ گھڑیال نصب ہے جو صرف وقت ہی نہیں دکھاتا بلکہ علم البروج کا بھی عکاس ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ سورج اور چاند کی سمتوں کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ سن 1998 تک اس گھڑیال کا نگران اپنے خاندان کے ہمراہ اس ٹاور کے اندر ہی رہتا تھا۔ سن 2006 سے اس کی نگرانی ڈیجیٹل کر دی گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Engelhardt
بُلوآ کا ’جادو گھر‘
فرانسیسی شہر بلوآ کا یہ گھڑیال حقیقی معنوں میں گھڑیال نہیں ہے۔ اس کئی ڈریگنز کے سروں سے وقت کو ظاہر کیا گیا ہے۔ ہر نصف گھنٹے پر یہ ڈریگنز اپنے اپنے ہندسوں کے مقام سے باہر نکل کر خوفناک حرکات کا مظہر ہوتے ہیں۔ یہ کلاک بلوآ میں واقع جادو کے عجائب گھر کے ماتھے پر نصب ہے۔ جدید دور کے مشہور جادو گر رابرٹ ہودن اسی شہر میں پیدا ہوئے تھے۔