یورپی یونین کی تمام رکن ریاستوں میں ڈیٹا پروٹیکشن یا کوائف کے تحفظ کا نیا قانون نافذ کر دیا گیا ہے۔ اس قانون کے تحت شہریوں کے آن لائن کوائف کو تحفظ دیا گیا ہے۔
اشتہار
یورپی یونین کے جنرل ڈیٹا پروٹیکشن ریگولیشن پر یہ کہہ کر تنقید کی جا رہی تھی کہ وہ اسپیم ای میلز اور پیغامات کے سیلاب کو روکنے میں ناکام رہی ہے اور آن لائن کمپنیاں عام صارفین سے پوچھے بغیر ان کا نجی ڈیٹا استعمال کرتی ہیں اور دیگر کمپنیوں کو یہ ڈیٹا فروخت بھی کیا جاتا ہے۔
SMS کی 25 ویں سالگرہ
25 برس قبل آج ہی کے دن یعنی تین دسمبر 1992 کو اولین ایس ایم ایس بھیجا گیا تھا۔ موبائل کمپنیوں نے ایس ایم ایس کے ذریعے اربوں روپے کمائے۔ لاتعداد انٹرنیٹ ایپلیکیشنز کے باوجود مختصر SMS آج بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے۔
تصویر: picture-alliance/Maule/Fotogramma/ROPI
ایس ایم ایس کی دنیا
تین دسمبر 1992ء کو 22 سالہ سافٹ ویئر انجینیئر نائل پاپورتھ نے دنیا کا پہلا ایس ایم ایس پیغام اپنے ساتھی رچرڈ جاروِس کو ارسال کیا تھا۔ نائل پاپورتھ ووڈا فون کے لیے شارٹ میسیج سروس کی تیاری پر کام کر رہے تھے۔
تصویر: DW/Brunsmann
’’میری کرسمس‘‘
25 سال پہلے کے سیل فون بھی ایس ایم ایس بھیج یا وصول نہیں کرسکتے تھے۔ لہٰذا پہلے ایس ایم ایس کو موبائل فون سے نہیں بلکہ کمپیوٹر سے بھیجا گیا تھا۔ ایس ایم ایس سسٹم کے پروٹوٹائپ کا ٹیسٹ کرنے کے لیے ووڈا فون کمپنی کے تکنیکی ماہرین کا پہلا ایم ایم ایس تھا، ’’میری کرسمس‘‘.
تصویر: Fotolia/Pavel Ignatov
160 کریکٹرز کی حد
ایس ایم ایس پوسٹ کارڈ وغیرہ پر پیغامات لکھنے کے لیے 160 حروف یا اس سے بھی کمی جگہ ہوتی تھی اسے باعث ایس ایم ایس کے لیے بھی 160 حروف کی حد مقرر کی گئی تھی۔
تصویر: DW
ٹیلیفون کمپنیوں کی چاندی
1990ء کے وسط میں، ایس ایم ایس تیزی سے مقبول ہوا اور اس کے ساتھ، ٹیلی فون کمپنیوں نے بڑا منافع حاصل کیا۔ 1996ء میں جرمنی میں 10 ملین ایس ایم ایس بھیجے گئے تھے۔ 2012 میں، ان کی تعداد 59 ارب تک پہنچ گئی۔ جرمنی میں، ایس ایم ایس بھیجنے کے 39 سینٹ تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H. Kaiser
اسمارٹ فونز
اسمارٹ فون مارکیٹ میں آنے کے بعد، ایس ایم ایس نے کی مقبولیت میں کمی ہونے لگی۔ ایسا 2009 میں شروع ہوا۔ ٹوئیٹر، فیس بک، زوم، واٹس ایپ جیسے مفت پیغامات بھیجنے والی ایپلیکیشنز زیادہ سے زیادہ مقبول ہو رہی ہیں۔ مگر اس سب کے باجود ایس ایم ایس کا وجود اب بھی قائم ہے۔
تصویر: Fotolia/bloomua
اعتماد کا رابطہ
ایس ایم ایس ابھی بھی جرمنی میں مقبول ہے۔ وفاقی مواصلات ایجنسی کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ 2016ء کے دوران 12.7 بلین ایس ایم ایس پیغامات موبائل فونز سے بھیجے گئے۔ جرمنی میں اب بھی میل باکس کے پیغامات اور آن لائن بینکنگ سے متعلق بہت سے اہم کوڈ ایس ایم ایس کے ذریعہ ہی بھیجے جاتے ہیں۔
یورپ میں نجی کوائف کے تحفظ کے لیے ضوابط پر دو برس قبل اتفاق کیا گیا تھا تاہم مختلف کمپنیاں ان پر عمل درآمد میں سست روی کا شکار تھیں اور اسی لیے اس حوالے سے انہیں وقت دیا گیا تھا، تاہم رواں ہفتے ان ضوابط کے نفاذ کا فیصلہ کر لیا گیا۔
یورپی یونین کے یہ نئے کوائف اس لیے بھی اہم ہیں کہ عالمی سطح پر انہیں ایک طرح سے ’بینچ مارک‘ کے طور پر دیکھا جائے گا اور دیگر ممالک بھی انہی ضوابط کے تحت اپنے اپنے شہریوں کے کوائف کو تحفظ دے پائیں گے۔ فیس بک کے ڈیٹا شیئرنگ اسکینڈل کے تناظر میں یورپی یونین کے اس اقدام کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔
یورپی یونین کی کمشنر برائے انصاف ویرا ژورووا کے مطابق نئے ضوابط سے اب یورپی شہریوں کے پاس اپنے کوائف کے تحفظ کا اختیار آ گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت نجی کوائف کا عالم یہ ہے کہ جیسے ’ایک حمام میں سب برہنہ‘ ہوں۔
اس نئے قانون کے تحت یورپی ضوابط کی خلاف ورزی پر کسی بھی کمپنی کو 20 ملین یورو تک کا جرمانہ کیا جا سکتا ہے یا اس کی عالمی سطح پر آمدنی کا چار فیصد اس سے واپس لیا جا سکتا ہے۔ یورپی یونین کے مطابق یورپ میں قریب پانچ سو ملین افراد آن لائن مارکیٹ کا حصہ ہیں۔
اس نئے قانون کے مطابق ہر آن لائن کمپنی کو کسی بھی صارف کا ڈیٹا حاصل کرنے یا اسے استعمال کرنے کے لیے متعلقہ صارف سے اجازت لینا ہو گی اور صارف کی اجازت کے ساتھ ہی وہ ڈیٹا استعمال یا شیئر کیا جا سکے گا۔
ان نئے ضوابط کے تحت صارفین کو ‘جاننے کا حق‘ بھی تفویض کیا گیا ہے، جس کے تحت وہ معلوم کر سکیں گے کہ ان کے کوائف کہاں اور کن مقاصد کے لیے استعمال ہو رہے ہیں۔ اس طرح ان صارفین کو اپنے کوائف کے تجارتی استعمال کو روکنے کا اختیار بھی حاصل ہو گا۔ اسی طرح ان ضوابط میں ’بھلانے کا حق‘ بھی صارفین کو دیا گیا ہے، جس کے تحت کوئی صارف کسی آن لائن کمپنی سے اپنے کوائف یا دیگر معلومات کو ڈیلیٹ کرنے کے لیے بھی کہہ سکتا ہے۔
آپ آئی فون کے بارے میں کتنا جانتے ہیں؟
2016ء میں پہلی بار آئی فون کی فروخت میں کمی کی خبریں آ رہی ہیں۔ ایپل کی کل کمائی کا 63 فیصد حصہ آئی فون سے آتا ہے۔ آئی فون اپنے لیے مارکیٹ میں ایک خاص مقام بنانے میں کیسے کامیاب ہوا؟
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
جی ہاں، ’جامنی‘
جس وقت آئی فون صرف ڈرائنگ بورڈ پر بنا ایک آئيڈيا تھا، اس کا پروجیکٹ کوڈ ’جامنی‘ تھا۔ ایپل کے ایک سابق مینیجر کے مطابق جامنی کی ٹیم جس جگہ کام کرتی تھی، وہ کسی ہاسٹل کے کمرے سے ملتا جُلتا تھا۔ کمرے میں پیزا کی مہک تھی اور دیواروں پر ایک فائٹ کلب کے پوسٹر۔
تصویر: picture alliance/AP Images/P. Sakuma
کیا وقت ہوا ہے؟
سٹیو جابز پہلا آئی فون 29 جون 2007ء کو صبح 9:42 بجے دنیا کے سامنے لائے۔ تقریب کا وقت اس طرح کا رکھا گیا تھا کہ جب لوگ نئی مصنوعات کی تصاویر دیکھیں تو ڈسپلے پر وہی وقت نظر آ رہا ہو، جو اُس لمحے اصل وقت ہو۔ وقت کی اس پابندی کا خیال کمپنی ہمیشہ رکھتی چلی آئی ہے گو 2010ء میں آئی پیڈ لانچ کرتے وقت ایک منٹ کا فرق آ گیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Mabanglo
اگلی جنریشن کی ٹیکنالوجی
یہ صحیح ہے کہ سب سے پہلا آئی فون 599 ڈالر کا تھا جو کہ تب خاصا مہنگا تھا لیکن ایک فون وہ سب کچھ کر سکتا تھا، جو اس وقت تک مجموعی طور پر 3000 ڈالر کی قیمت والے مختلف آلات مل کر کرتے تھے۔ آئی فون نے سی ڈی پلیئر، کمپیوٹر، فون اور آنسرنگ مشین سب کی ایک ساتھ جگہ لے لی۔
تصویر: colourbox
کیا سکرین پر کریک ہے؟
ہم سب جانتے ہیں کہ جیب سے جلدی میں فون نکالتے ہوئے اکثر فون ہاتھ سے پھسلتا ہے اور زمین پر گر جاتا ہے۔ ایسے میں آئی فون کی سکرین اکثر چٹخ جاتی ہے لیکن اسکائی ڈائیور جیرڈ میکنی نے 2011ء میں اپنا آئی فون 13،500 فٹ کی بلندی سے نیچے گرا دیا۔ اُس کا دعویٰ ہے کہ اتنی بلندی سے نیچے گرنے کے باوجود وہ اپنے اس فون سے کالز کر سکتا تھا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo
آئی فون کا آئیڈیا آئی پیڈ سے آیا
2000ء کے عشرے کے ابتدائی برسوں میں ایپل کمپنی ورچوئل کی بورڈ والے ایک ٹیبلیٹ کمپیوٹر کی تیاری پر کام کر رہی تھی۔ ایک دن ایپل کے ملازمین اپنے موبائل فون کی سست رفتاری پرتنقید کر رہے تھے تو انہیں اچانک یہ خیال آیا کہ جس ٹیکنالوجی کی مدد سے آئی پیڈ بنانے کا سوچا جا رہا ہے، اُسی کو استعمال کرتے ہوئے ایک خاص طرح کا فون بھی تو بنایا جا سکتا ہے۔ اور تب وہ ایک انقلابی نوعیت کا سمارٹ فون بنانے میں جُت گئے۔
تصویر: Getty Images/Feng Li
کروڑوں آئی فون فروخت
ایپل 2007ء سے اب تک تقریباً 90 کروڑ آئی فون فروخت چکا ہے لیکن چین میں اقتصادی بحران کی وجہ سے ایپل نے پہلی بار خبردار کیا ہے کہ اس کی 2016ء کے پہلے کوارٹر کی فروخت 2015ء کے مقابلے میں کم ہو سکتی ہے تاہم لوگوں میں ایپل کا جنون اُسی طرح سے برقرار ہے۔
تصویر: DW/M.Bösch
محبت بھی نفرت بھی
ایک دنیا یہ بات جانتی ہے کہ ایپل اور سام سنگ ایک دوسرے کے حریف ہیں۔ دونوں کمپنیوں کے درمیان پیٹنٹ کے موضوع پر برسوں سے کئی بڑے مقدمے چل رہے ہیں تاہم ایک محاذ پر یہ دونوں ایک دوسرے کے حلیف بھی ہیں کیونکہ اطلاعات کے مطابق سام سنگ ہی وہ چِپ تیار کرتا ہے، جو آئی فون میں استعمال ہوتی ہے۔
تصویر: Fotolia/Edelweiss
7 تصاویر1 | 7
ان ضوابط کے تحت مختلف رکن ریاستوں کو کہا گیا ہے کہ وہ 13 تا 16 برس کی عمروں کے صارفین کے حوالے سے اپنے اپنے طور پر فیصلے کریں کہ کس عمر تک کے نابالغ افراد کے ڈیٹا کے استعمال کے لیے ان کے والدین کی رضامندی حاصل کرنا لازمی ہو گا۔
گزشتہ منگل کو فیس بک کے سربراہ مارک زکربرگ نے یورپی پارلیمان کی ایک سماعت میں بھی شرکت کی تھی، جس میں انہوں نے 87 ملین فیس بک صارفین کے ڈیٹا کے عدم تحفظ کے معاملے پر بات کی تھی۔ تاہم انہوں نے کہا تھا کہ فیس بک کے پاس ایسے شواہد نہیں ہیں کہ یورپی شہریوں کے کوائف کسی کمپنی کو فروخت کیے گئے تھے۔ ان کا کہنا تھا کہ فیس بک یورپی ضوابط کی مکمل طور پر پاس داری کرے گی۔ انہوں نے کیمبرج اَینےلیٹیکا کے معاملے میں یورپی شہریوں کے کوائف کے عدم تحفظ پر ’معذرت‘ بھی کی تھی۔
یورپی یونین کے ان نئے ضوابط پر فیس بک، وٹس ایپ اور ٹوئٹر جیسے بڑے پلیٹ فارمز نے عمل درآمد کا آغاز بھی کر دیا ہے۔