یورپی یونین میں ہر سال 22 ملین انسانوں پر جسمانی حملے
19 فروری 2021
یورپی یونین کے رکن ممالک میں ہر سال بائیس ملین انسانوں پر جسمانی حملے کیے جاتے ہیں اور ایک سو دس ملین انسانوں کو ہراساں کیا جاتا ہے۔ یہ بات پوری یونین میں کرائے گئے اپنی نوعیت کے اولین سروے کے نتیجے میں سامنے آئی۔
تصویر: Imago Images/Panthermedia/A. Guillem
اشتہار
اپنی نوعیت کے اس پہلے اور تاریخی سروے کا اہتمام یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی (FRA) کی طرف سے کیا گیا اور اس کے نتائج آج جمعہ انیس فروری کو ایک رپورٹ کی صورت میں شائع کیے گئے۔ 2019ء میں مکمل کیے گئے اس سروے کے دوران اس پورے بلاک میں 32 ہزار شہریوں سے ان کی رائے معلوم کی گئی۔
پتا یہ چلا کہ رکن ممالک میں جرائم سے متعلق قومی سطح پر تیار کردہ سرکاری اعداد و شمار تو کئی طرح کے جرائم کی اصل شرح کی عکاسی ہی نہیں کرتے۔ سروے میں حصہ لینے والے شہریوں میں سے نو فیصد نے بتایا کہ انہیں پچھلے پانچ سال کے دوران جسمانی تشدد کا سامنا رہا تھا۔
چھ فیصد رائے دہندگان ایسے تھے، جنہوں نے کہا کہ انہیں اس سروے سے ایک سال پہلے یعنی 2018ء میں جسمانی تشدد کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ایک اور اہم بات یہ بھی پتا چلی کہ ایسے واقعات میں متاثرہ یورپی شہریوں کی ایک تہائی سے بھی کم تعداد نے حکام کو اس کی اطلاع دی۔
یورپی یونین کی بنیادی حقوق کی ایجنسی کے جرائم سے متعلقہ اعدا و شمار کے ماہر اور اس مطالعاتی رپورٹ کے مصنف سامی نیوالا نے جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کو اس حوالے سے بتایا، ''اگر یورپی یونین میں جسمانی تشدد اور عام شہریوں کے ہراساں کیے جانے کی بات کی جائے، تو اس مطالعاتی جائزے کے نتائج آنکھیں کھول دینے والے ہیں۔‘‘
یورپی یونین کی ایجنسی ایف آر اے کے صدر دفاتر آسٹریا کے شہر ویانا میں ہیں۔ اس ادارے نے اپنی رپورٹ کے اجراء کے ساتھ یونین کے رکن ممالک سے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ وہ خاص طور پر اپنے ہاں ان سماجی گروپوں پر زیادہ توجہ دیں، جن کے ارکان کے خلاف جسمانی تشدد اور ہراساں کیے جانے کے واقعات کی اوسط شرح کافی زیادہ ہے۔
ایسے یورپی باشندوں میں نوجوان بھی شامل ہیں، کسی نا کسی قسم کی جسمانی معذوری کا شکار افراد بھی، نسلی اقلیتوں کے ارکان بھی اور ہم جنس پرست اور ٹرانس جینڈر شہریوں پر مشتمل ایل جی بی ٹی برادری کے افراد بھی۔
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين غلامی پر مجبور ہيں اور کئی صورتوں ميں خواتين کا استحصال جاری ہے۔ جبری مشقت، کم عمری ميں شادی، جنسی ہراسگی اور ديگر کئی جرائم سے سب سے زيادہ متاثرہ عورتيں ہی ہيں۔
تصویر: dapd
جدید غلامی کيا ہے؟
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق موجودہ دور ميں غلامی ايسی صورت حال کو کہا جاتا ہے، جس ميں کسی کی ذاتی آزادی کو ختم کيا جائے اور جہاں کسی کے مالی فائدے کے ليے کسی دوسرے شخص کا استعمال کيا جائے۔
تصویر: Louisa Gouliamaki/AFP/Getty Images
تشدد، جبر، جنسی ہراسگی: جدید غلامی کے انداز
اس وقت دنيا بھر ميں انتيس ملين خواتين مختلف صورتوں ميں غلامی کر رہی ہيں۔ 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کی رپورٹ کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت، قرض کے بدلے کام، جبری شاديوں اور ديگر صورتوں ميں وسيع پيمانے پر عورتوں کا استحصال جاری ہے۔
تصویر: Getty Images/Afp/C. Archambault
جنسی استحصال آج بھی ايک بڑا مسئلہ
غير سرکاری تنظيم 'واک فری‘ کے مطابق موجودہ دور میں جنسی استحصال کے متاثرين ميں خواتين کا تناسب ننانوے فيصد ہے۔
تصویر: Sazzad Hossain/DW
جبری مشقت: مردوں کے مقابلے ميں عورتيں زيادہ متاثر
انٹرنيشنل ليبر آرگنائزيشن اور بين الاقوامی ادارہ برائے ہجرت (IOM) کے تعاون سے اکھٹے کيے جانے والے 'واک فری‘ نامی غير سرکاری تنظيم کے اعداد کے مطابق دنيا بھر ميں جبری مشقت کے متاثرين ميں عورتوں کا تناسب چون فيصد ہے۔
تصویر: DW/S. Tanha
جبری شادیاں، لڑکيوں کے ليے بڑا مسئلہ
رپورٹ کے مطابق قرض کے بدلے یا جبری شاديوں کے متاثرين ميں خواتین کا تناسب چوراسی فيصد ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Bouys
نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے مہم
'واک فری‘ اور اقوام متحدہ کا 'ايوری وومين، ايوری چائلڈ‘ نامی پروگرام نئے دور ميں غلامی کے خاتمے کے ليے ہے۔ اس مہم کے ذريعے جبری يا کم عمری ميں شادی کے رواج کو ختم کرنے کی کوشش کی جائے گی، جو اب بھی 136 ممالک ميں قانوناً جائز ہے۔ يہ مہم کفالہ جيسے نظام کے خاتمے کی کوشش کرے گی، جس ميں ايک ملازم کو مالک سے جوڑ ديتا ہے۔
تصویر: dapd
6 تصاویر1 | 6
خواتین زیادہ متاثر
اس سروے کے نتائج کے مطابق جسمانی تشدد اور ہراسیت کے شکار یورپی شہریوں میں صنف کی بنیاد پر بھی واضح تفریق دیکھنے میں آئی۔ مثلا خواتین کو مردوں کے مقابلے میں جسمانی اور جنسی تشدد اور جنسی ہراسیت کے واقعات کا زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔
ایف آر اے کے طے کردہ معیارات کے مطابق ہراسیت کی تعریف یہ ہے کہ کسی شخص کو ذاتی طور پر یا آن لائن رابطوں کے دوران دھمکیاں دی جائیں یا اس کی تذلیل کی جائے۔
ایک اور فرق یہ بھی دیکھنے میں آیا کہ یونین کے رکن مغربی یورپی ممالک میں جسمانی تشدد اور ہراسیت کی شرح مشرقی یورپی ممالک کے مقابلے میں زیادہ ہے۔
یہ زیادہ شرح خاص طور پر فرانس، جرمنی اور نیدرلینڈز میں دیکھی گئی۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ مشرقی یورپی ممالک عموماﹰ تھوڑی آبادی والی ریاستیں ہیں جبکہ مغربی یورپ میں جرمنی اور فرانس جیسے ممالک یونین کے سب سے زیادہ آبادی والے ممالک ہیں۔
م م / ع ت (ڈی پی اے، اے ایف پی)
گزشتہ برس جرمنی میں کس نوعیت کے کتنے جرائم ہوئے؟
جرمنی میں جرائم سے متعلق تازہ اعداد و شمار کے مطابق سن 2017 میں ملک میں رونما ہونے والے جرائم کی شرح اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں قریب دس فیصد کم رہی۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
2017ء میں مجموعی طور پر 5.76 ملین جرائم ریکارڈ کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 9.6 فیصد کم ہیں۔
تصویر: Imago/photothek/T. Imo
ان میں سے ایک تہائی جرائم چوری چکاری کی واردتوں کے تھے، یہ تعداد بھی سن 2016 کے مقابلے میں بارہ فیصد کم ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/H.-C. Dittrich
دوکانوں میں چوریوں کے ساڑھے تین لاکھ واقعات ریکارڈ کیے گئے جب کہ جیب کاٹے جانے کے ایک لاکھ ستائیس ہزار واقعات رپورٹ ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/F. Rumpenhorst
گزشتہ برس ملک میں تینتیس ہزار سے زائد کاریں اور تین لاکھ سائیکلیں چوری ہوئیں۔
تصویر: Colourbox/Andrey Armyagov
گزشتہ برس قتل کے 785 واقعات رجسٹر کیے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں 3.2 فیصد زیادہ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Tnn
منشیات سے متعلقہ جرائم میں نو فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا، ایسے تین لاکھ تیس ہزار جرائم رجسٹر کیے گئے۔
تصویر: Reuters
چائلڈ پورن گرافی کے واقعات میں 14.5 فیصد اضافہ ہوا، ایسے ساڑھے چھ ہزار مقدمات درج ہوئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Nissen
سات لاکھ چھتیس ہزار جرائم میں غیر ملکی ملوث پائے گئے جو کہ سن 2016 کے مقابلے میں تئیس فیصد کم ہے۔