یورپی یونین وبائی حالات میں معاشی مشکلات پر توجہ دے
9 اپریل 2020
یوروزون کے وزرائے خزانہ کے اجلاس میں وبائی دور کی اقتصادی مشکلات پر بات چیت تعطل کا شکار ہے۔ اس اجلاس میں کورونا وائرس سے پیدا شدہ معاشی صورت حال کو زیر بحث لایا جا رہا ہے۔
اشتہار
ڈی ڈبلیو کے تجزیہ کار بیرنٹ ریگیرٹ کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کو کورونا وائرس کی وبا میں رکن ریاستوں کی سنگین اقتصادی مشکلات کا احساس کرتے ہوئے ان کی مدد پر سنجیدگی سے غور کرنے کی ضرورت ہے۔ دوسری جانب یوروزون کے انیس ممالک کے وزرائے خزانہ کا اجلاس سولہ گھنٹے جاری رہنے کے بعد تعطل کا شکار ہو گیا۔ یہ مذاکراتی سلسلہ البتہ جاری ہے اور کوشش ہے کہ کسی حل کو تلاش کر لیا جائے۔
اس اجلاس میں وزرائے خزانہ کو کورونا وائرس کی براعظم یورپ میں افزائش کے بعد کے سنگین معاشی و سماجی معاملات کا سامنا ہے۔ اس میں میٹنگ میں یہ بھی زیرِ بحث رہا کہ یورپی اقوام کی وبا سے ڈگمگاتی اقتصادیات کو کیونکر اور کیسے سہارا دیا جائے۔ اس وقت یورپی اقوام کو کورونا وائرس کی بیماری کووڈ انیس کی شدت کا سامنا ہے۔ اس بیماری کے پھیلنے سے ہزاروں انسان ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں زیر علاج ہیں۔ اس بیماری کی شافی دوا یا ویکسین ابھی تک ایجاد نہیں کی جا سکی ہے۔
وزرائے خزانہ کے اجلاس میں اس پر اتفاق نہیں ہو سکا کے مشکلات کی شکار یورپی اقوام کی اقتصادی بحالی کے لیے کیسے اور کون سے اقدامات وقت کی ضرورت ہیں۔ اجلاس میں یوروزون کے نو ممالک اپنے مسائل کے حل کے لیے مالی قرضے لینے کے حق میں تھے۔ چار ممالک نے اس تجویز کی مخالفت کی۔ ان چار ممالک میں جرمنی بھی شامل تھا۔
یہ امر اہم ہے کہ میٹنگ میں پیدا ہونے والا اختلاف رائے اصل میں اصولوں کی بنیاد پر نہیں بلکہ یہ معاملہ اقتصادی بقا کا ہے۔ یہ صورت حال بظاہر کسی یورپی ملک کے لیے ویسی پریشان کن نہیں تھی جیسی چند برس قبل یونان کی پیچیدہ اقتصادی مشکلات کے حل کی بحث کے دوران محسوس کی گئی تھی۔
موجودہ صورت حال کا تعلق اس بات سے ہے کہ کس طرح امیر یورپی ملک کمزور اقتصادیات کے حامل ملکوں کو قرضے فراہم کرنے پر رضامندی کا اظہار کرتے ہیں۔ وبا کے اس دور میں امیر ملکوں کی جانب سے مالی امداد کی بات بظاہر قبل از وقت دکھائی دیتی ہے۔ اس کا تعین کورونا وائرس کی وبا کے ختم ہونے کے بعد ہی کیا جا سکے گا۔
کووڈ انیس کی وبا کے حالیہ ایام میں ایسا دکھائی دیتا ہے کہ یورپی اقوام بشمول اٹلی، اسپین، فرانس، یونان اور جرمنی کو گزشتہ نوے برسوں کے دوران پیدا ہونے والی سب سے شدید کساد بازاری کا سامنا ہونے والا ہے۔ ایسا دکھائی دیتا ہے کہ وائرس کی وبا سی عالمی اقتصادیات کے لڑکھڑانے کے قوی امکانات سامنے آنا شروع ہے گئے ہیں۔
لاک ڈاؤن کو ممکن بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائیاں
کورونا وائرس کی وجہ دنیا بھر کے متعدد ممالک میں لاک ڈاؤن کیا گیا ہے تاکہ اس عالمی وبا کے پھیلاؤ کے عمل میں سستی پیدا کی جا سکے۔ کئی ممالک میں اس لاک ڈاؤن کو یقینی بنانے کے لیے سکیورٹی اہلکاروں کی مدد بھی طلب کرنا پڑی ہے۔
تصویر: DW/T. Shahzad
لاہور، پاکستان
لاک ڈاؤن کے باوجود پاکستان کے متعدد شہروں میں لوگوں کو سڑکوں پر دیکھا جا سکتا ہے۔ لاہور میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگوں کو باہر نہ نکلنے دیا جائے تاہم ان کی یہ کوشش کامیاب ہوتی دکھائی نہیں دے رہی۔
تصویر: DW/T. Shahzad
موغادیشو، صومالیہ
افریقی ملک صومالیہ میں بھی نئے کورونا وائرس کی وجہ سے لاک ڈاؤن نافذ کیا گیا ہے۔ تاہم دارالحکومت موغادیشو میں لوگ معاملے کی نزاکت کو نہیں سمجھ پا رہے۔ اس لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے کئی مقامات پر سکیورٹی اہلکاروں نے شہریوں کو اسلحہ دکھا کر زبردستی گھر روانہ کیا۔
تصویر: Reuters/F. Omar
یروشلم، اسرائیل
اسرائیل میں بھی کورونا وائرس کی وبا کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے۔ تاہم اس یہودی ریاست میں سخت گیر نظریات کے حامل یہودی اس حکومتی پابندی کے خلاف ہیں۔ بالخصوص یروشلم میں ایسے لوگوں کو گھروں سے باہر نکلنے سے روکنے کی خاطر پولیس کو فعال ہونا پڑا ہے۔
تصویر: Reuters/R. Zvulun
برائٹن، برطانیہ
برطانیہ بھی کورونا وائرس سے شدید متاثر ہو رہا ہے، یہاں تک کے اس ملک کے وزیر اعظم بورس جانسن بھی اس وبا کا نشانہ بن چکے ہیں۔ برطانیہ میں لاک ڈاؤن کيا گیا ہے لیکن کچھ لوگ اس پابندی پر عمل درآمد کرتے نظر نہیں آ رہے۔ تاہم پولیس کی کوشش ہے کہ بغیر ضرورت باہر نکلنے والے لوگوں کو واپس ان کے گھر روانہ کر دیا جائے۔
تصویر: Reuters/P. Cziborra
گوئٹے مالا شہر، گوئٹے مالا
گوئٹے مالا کے دارالحکومت میں لوگ کرفیو کی خلاف ورزی کرتے ہوئے سڑکوں پر نکلنے سے نہیں کترا رہے۔ گوئٹے مالا شہر کی پولیس نے متعدد لوگوں کو گرفتار بھی کر لیا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Echeverria
لاس اینجلس، امریکا
امریکا بھی کورونا وائرس کے آگے بے بس نظر آ رہا ہے۔ تاہم لاک ڈاؤن کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکلنے سے گریز نہیں کر رہے۔ لاس اینجلس میں پولیس گشت کر رہی ہے اور لوگوں کو گھروں میں رہنے کی تاکید کی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters/K. Grillot
چنئی، بھارت
بھارت میں بھی لاک ڈاؤن کیا گیا ہے لیکن کئی دیگر شہروں کی طرح چنئی میں لوگ گھروں سے باہر نکلنے سے باز نہیں آ رہے۔ اس شہر میں پولیس اہلکاروں نے لاک ڈاؤن کی خلاف وزری کرنے والوں پر تشدد بھی کیا۔
تصویر: Reuters/P. Ravikumar
کھٹمنڈو، نیپال
نیپال میں بھی لوگ حکومت کی طرف سے جاری کردہ حفاظتی اقدامات پر عمل کرتے نظر نہیں آ رہے۔ کھٹمنڈو میں پولیس اہلکاروں کی کوشش ہے کہ لوگ نہ تو گھروں سے نکليں اور نہ ہی اجتماعات کی شکل میں اکٹھے ہوں۔
تصویر: Reuters/N. Chitrakar
احمد آباد، بھارت
بھارتی شہر احمد آباد میں لاک ڈاؤن کو مؤثر بنانے کے لیے خصوصی پولیس کے دستے تعینات کر دیے گئے ہیں۔ یہ اہلکار سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور خلاف ورزی کرنے والوں کے خلاف قانونی کارروائی کرتے ہیں۔
تصویر: Reuters/A. Dave
ماسکو، روس
روسی دارالحکومت ماسکو میں بھی جزوی لاک ڈاؤن کیا جا چکا ہے تاکہ نئے کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے میں مدد مل سکے۔ تاہم اس شہر میں بھی کئی لوگ اس لاک ڈاؤن کی خلاف ورزی کرتے دیکھے گئے ہیں۔ ریڈ اسکوائر پر دو افراد کو پولیس کی پوچھ گچھ کا سامنا بھی کرنا پڑا۔
تصویر: Reuters/M. Shemetov
بنکاک، تھائی لینڈ
تھائی لینڈ میں بھی لاک ڈاؤن کر دیا گیا ہے، جہاں گھروں سے باہر نکلنے والے افراد کو پولیس کے سامنے بیان دینا پڑتا ہے کہ ایسی کیا وجہ بنی کہ انہیں گھروں سے نکلنا پڑا۔ ضروری کام کے علاوہ بنکاک کی سڑکوں پر نکلنا قانونی طور پر بند کر دیا گیا ہے۔
تصویر: Reuters/J. Silva
ریو ڈی جینرو، برازیل
کورونا وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کی خاطر برازیل میں بھی پابندیاں عائد کی جا چکی ہیں لیکن موسم گرما کے آغاز پر مشہور سیاحتی شہر ریو ڈی جینرو کے ساحلوں پر کچھ لوگ دھوپ سینکنے کی خاطر نکلتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو وہاں تعینات پولیس اہلکاروں کے سامنے جواب دینا پڑتا ہے۔
تصویر: Reuters/L. Landau
کیپ ٹاؤن، جنوبی افریقہ
جنوبی افریقہ میں بھی حکومت نے سختی سے کہا ہے کہ لوگ بلا ضرورت گھروں سے نہ نکلیں۔ اس صورت میں انہیں خصوصی سکیورٹی اہلکاروں کی کارروائی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ کیپ ٹاؤن میں پولیس اور فوج دونوں ہی لاک ڈاؤن کو موثر بنانے کی کوشش میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Hutchings
ڈھاکا، بنگلہ دیش
جنوبی ایشیائی ملک بنگلہ دیش میں بھی سخت پابندیوں کے باوجود لوگ سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ تاہم اگر ان کا ٹکراؤ پوليس سے ہو جائے تو انہیں وہیں سزا دی جاتی ہے۔ تاہم انسانی حقوق کے کارکن اس طرح کی سزاؤں کو سخت تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔