یورپی یونین ویزا فری سفر کے وعدے پر قائم رہے، ترکی
عاطف بلوچ19 اپریل 2016
ترکی نے یورپی یونین کو خبردار کیا ہے کہ وہ اپنے وعدے پر قائم رہے کہ جون تک ترک باشندے بغیر ویزے کے شینگن زون کا سفر کرنے کے قابل ہو جائیں گے۔
اشتہار
ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والی ڈیل کے تحت جہاں یورپی یونین نے ترکی کو چھ بلین یورو کی امداد فراہم کرنے پر رضا مندی ظاہر کی تھی، وہیں یہ بھی کہا گیا تھا کہ یورپی یونین جون تک ترک باشندوں کو بغیر ویزا یونین کے سفر کی سہولیات بھی فراہم کرے گی۔ بیس مارچ کو نافذالعمل ہونے والی اس ڈیل کے تحت ترکی رضا مند ہوا تھا کہ وہ بحیرہ ایجیئن سے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو واپس لے لے گا۔
اسی ڈیل کے تناظر میں ترک وزیر اعظم احمد داؤد اولُو نے خبردار کیا ہے کہ اگر برسلز جون تک اپنے وعدے کو وفا نہیں کرتا، تو یہ ڈیل غیرمؤثر ہو جائے گی، ’’یہ ایک مشترکہ عہد تھا۔ اگر یورپی یونین اس ڈیل کے تحت مطلوبہ اقدامات نہ کر سکی تو یقینی طور پر اسے بھی توقع نہیں کرنا چاہیے کہ ترکی اپنے حصے کے اقدامات پر عمل کرے گا۔‘‘
اسٹراس برگ روانہ ہونے سے قبل انقرہ کے ہوائی اڈے پر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے داؤد اولُو نے مزید کہا کہ اس ڈیل پر مؤثر عملدرآمد کے لیے اطراف کو کیے گئے وعدوں کو وفا کرنا ہو گا۔ قبل ازیں ترک وزیر خارجہ بھی دھمکی دے چکے ہیں کہ اگر یورپی یونین نے اس ڈیل کی شقوں پر عمل نہ کیا تو اس ڈیل کو منسوخ کیا جا سکتا ہے۔
چھ بلین یورو کی ڈیل
یورپ میں مہاجرین کی بڑی تعداد میں آمد کو روکنے کی خاطر یورپی یونین نے ترکی کے ساتھ یہ معاہدہ گزشتہ ماہ کیا تھا۔ اس کے تحت ترکی سے یورپ پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کو زبردستی ترکی واپس روانہ کیا جانا ہے۔ اس ڈیل پر عملدرآمد کے بعد درجنوں مہاجرین کو ترکی واپس روانہ کیا بھی جا چکا ہے۔
تاہم انسانی حقوق کے عالمی اداروں نے اس ڈیل کو کڑی تنقید کا نشانہ بھی بنایا ہے۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ ترکی بھیجے جانے والے مہاجرین کے ساتھ نامناسب سلوک کیا جا سکتا ہے۔ لیکن انقرہ نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ ان بے گھر افراد کو پناہ فراہم کرنے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
یورپی یونین نے مہاجرین کی ترکی واپسی کی اس ڈیل کے بدلے میں ترکی کو چھ بلین یورو کی امداد فراہم کرنے کی یقین دہانی تو کرائی ہی ہے لیکن ساتھ میں دیگر مراعات کی بھی بات کی گئی تھی۔ ان میں 75 ملین نفوس پر مشتمل ملک ترکی کے باشندوں کو یورپی ممالک میں بغیر ویزے کے آزادانہ نقل و حرکت کی سہولت دینے کی شق بھی شامل ہے۔
ترک وزیر اعظم نے البتہ کہا ہے ترک باشندوں کے یورپی ممالک میں آزادانہ سفر کے حوالے سے کچھ پیچیدگیاں ابھی بھی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ انقرہ حکومت نے اس سلسلے میں کچھ مطلوبہ شرائط پوری کرنا ہیں، جو اس ماہ کے اختتام تک ہو جائیں گی۔
یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین کے کچھ رکن ممالک ترک باشندوں کے بغیر ویزا یورپی یونین کا سفر کرنے کے بارے میں تحفظات رکھتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس بحران کے حل کی کوششوں کے سلسلے میں یورپی یونین نے ترکی کے مطالبات کے سامنے گھٹنے ٹیک دیے ہیں۔