گزشتہ دو برسوں میں پانچ ہزار تین سو افراد بحیرہ روم کے رستے لیبیا سے اٹلی پہنچنے کی کوشش کے دوران ہلاک ہوچکے ہیں۔ پچاس سے زائد بین الاقوامی تنظیموں نے یورپی یونین کو اس ’سانحہ میں شریک مجرم‘ قرار دیا ہے۔
اشتہار
اوکسفام سمیت 53 بین الاقوامی تنظیموں کی جانب سے جمعہ یکم فروری کو یورپی یونین کے نام بھیجے گئے ایک خط میں یونین میں شامل ممالک کے حکمرانوں سے پناہ گزینوں کی بازیابی کی حمایت کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ ان بین الاقوامی تنظیموں نے خط میں یورپی یونین کے رکن ممالک کے حکمرانوں سے درخواست کی گئی ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی لیبیا واپسی کو روکنے میں کردار ادا کریں کیونکہ لیبیا میں ان پناہ گزینوں کے حقوق کی شدید خلاف ورزی ہو رہی ہے۔
واضح رہے کہ سن 2017 میں یورپی یونین کی حمایت سے اٹلی اور لیبیا کے درمیان ایک معاہدے پر دستخط ہوئے تھے ۔ اس معاہدے کا مقصد شمالی افریقہ سے اٹلی کا رخ کرنے والے پناہ گزینوں کو لیبیا کے ساحلوں پر روکنا تھا۔ بعد ازاں روم حکومت اور یورپی یونین کے رکن ممالک اور لیبین کوسٹ گارڈ کے تعاون سے ایک لائحہ عمل طے پایا تھا جس کے تحت یورپ آنے کا ارادہ رکھنے والے تارکین وطن کو طرابلس میں ہی روک لیا جانا تھا۔
تاہم اس معاہدے کے برعکس گزشتہ دو برس کے دوران یورپ کی طرف مہاجرت کی غرض سے بڑھنے کی کوشش کرنے والے پانچ ہزار تین سو تارکین وطن ہلاک ہوگئے، جن میں خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ یہ تنظیمیں ان واقعات کو 'سانحہ' قرار دے رہی ہیں۔ ان تنظیموں کے بقول یورپی یونین اس 'سانحے کے ذمہ دار عناصرمیں شامل ہے‘ کیونکہ بحیرہ روم میں تارکین وطن کی زندگوں کو خطرات لاحق ہیں، اس کے باوجود ان پناہ گزینوں کو لیبیا واپس بھیجا جارہا ہے۔
علاوہ ازیں غیر سرکاری تنظیموں نے لیبیا میں زیر حراست پناہ گزینوں کے ساتھ ناروا سلوک کو روکنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ اوکسفام فرانس کی ایک امدادی مہم کے سربراہ جون سیریزو نے تنظیموں کے بیان میں کہا کہ متعدد تارکین وطن افراد کوغلام بنا لیا جاتا ہے یا پھر انہیں مسلحہ گروہوں کے ہاتھوں فروخت کر دیا جاتا ہےاور اس پر ستم یہ کہ انہیں فروخت کرنے سے قبل تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ دریں اثناء ان تنظیموں نے پناہ گزینوں کو لیبیا واپس بھیجے جانے کے سلسلے کو روکنے اور بحیرہ روم میں لاپتہ افراد کی تلاش اور بازیابی کو یقینی بنانے کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
ع آ / ک م (AFP)
مہاجرین کے لیے دریائے مارتسا کی ہلاکت خیز سرحد
ترکی اور یونان کے راستے میں ہلاک ہوجانے والے پناہ گزینوں کی لاشیں اور ساز و سامان کس کے سُپرد کیے جاتے ہیں؟ یہ پتا لگانے کے لیے ماریانا کاراکولاکی نے یونان کے شہر الیکساندرو پولی کے ایک مردہ خانے کا دورہ کیا۔
تصویر: Reuters/A. Konstantinidis
خطرناک کراسنگ
یونان اور ترکی کے درمیان واقع دریائے مارتسا کو’ایوروس‘ کے نام سے بھی جانا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں میں اس دریا کے ساتھ جڑی سرحد بہت مقبول ہے۔ یورپی حدود میں داخل ہونے کی کوشش میں یہاں برسوں سے ہزاروں لوگ اپنی جانیں ضائع کر چکے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
مردہ خانہ
مارتسا دریا کو پار کرنے کی کوشش میں رواں برس انتیس پناہ گزینوں کی لاشیں بازیاب کی گئیں۔ فی الوقت مردہ خانے میں پندرہ میتیں جمع ہیں، جن میں ایک پندرہ سالہ لڑکے کی لاش بھی شامل ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
بین الاقوامی مدد
دریائے مارتسا میں ہلاک ہونے والے پناہ گزینوں کی تعداد میں اضافے کے باعث امدادی تنظیم ریڈ کراس کی بین الاقوامی کمیٹی نے الیکساندرو پولی کے اس مردہ خانہ میں ایک سرد خانے کا بندوبست کر رکھا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ہلاک ہونے والوں کی تلاش
مچھیریوں اور دیگر حفاظتی اہلکاروں کو اکثر دریا کے پاس نعشیں ملتی ہیں۔ پولیس جائے وقوعہ پر ابتدائی کارروائی مکمل کرنے کے بعد نعشیں مردہ خانے منتقل کر دیتی ہے۔ پاولوس پاولیڈس نعش کے ساتھ ملے سامان، جسم پر نقش نشانات اور ڈی این اے کے ذریعے شناخت کرتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
اموات کی وجہ
اموات کی تفتیش کرنے والے پاولوس پاولیڈس کے مطابق ستر فیصد پناہ گزین دریا میں ڈوب جاتے ہیں، جس کی وجہ سے ان کے جسم کا درجہ حرارت نارمل سے کم ہو جاتا ہے۔ حال ہی میں ٹرین اور روڈ حادثوں کی وجہ سے بھی اموات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
نجی ساز و سامان
پاولیڈس نعش کے قریب ملنے والے سامان کو احتیاط سے پلاسٹک بیگ میں محفوظ کرتے ہیں تاکہ اس کی مدد سے پناہ گزینوں کی میت کی شناخت کی جا سکے۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
کٹھن مگر ایک اہم ذمہ داری
ان تمام چیزوں کی نشاندہی ایک درد ناک عمل ہے۔ پاولیڈس نے بتایا ’نعش کے ساتھ اکثر وہ سامان ملتا ہ، جو پانی سے خراب نہ ہو چکا ہو۔‘
تصویر: DW/M.Karakoulaki
گمشدہ انگوٹھیاں
عموماﹰ پناہ گزینوں کے ساتھ انگوٹھیاں، گلے کی چین یا پھر دیگر دھات سے بنی اشیاء ملتی ہیں تاہم کپڑے اور دستاویزات پانی میں بھیگ جاتے ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
موت اور عقیدہ
مارتسا دریا میں ہلاک ہونے والے پناہ گزینوں سے اکثر مذہبی نشانیاں بھی ملتی ہیں۔ جب کسی میت کی شناخت ہوجاتی ہے تو تمام چیزیں ان کے لواحقین کے حوالے کر دی جاتی ہیں۔
تصویر: DW/M.Karakoulaki
ابدی امن
میت کی تدفین کا انتظام یونانی حکام کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ مسلمان پناہ گزینوں کو قریبی گاؤں سیداری میں دفن کیا جاتا ہے جبکہ مسیحی پناہ گزینوں کی یونان کے قصبے اوریستیادا میں تدفین کی جاتی ہے۔