یورپی یونین کا سربراہی اجلاس: مصری بحران سر فہرست
4 فروری 2011دوسری جانب برطانوی وزیرِ اعظم ڈیوڈ کیمرون کا کہنا تھا، ’اگر ہم نے آج قاہرہ کی سڑکوں پہ ریاست کی جانب سے تشدّد دیکھا، یا پھر حکومت کی جانب سے بھرتی کیے گئے غنڈوں کی جانب سے مظاہرین کے خلاف کارروائی دیکھی، تو مصر اور اس کی حکومت دنیا اور برطانیہ کے سامنے اپنی رہی سہی ساکھ بھی کھو بیٹھے گی‘۔
جمعرات کے روز جرمنی، برطانیہ، فرانس، اٹلی اور اسپین کی طرف سے جاری کردہ ایک مشترکہ بیان میں مصری صدر حسنی مبارک پر زور دیا گیا تھا کہ وہ انتقال اقتدار کا عمل فوری طور پر شروع کریں۔
یورپی سربراہانِ مملکت و حکومت پر مصر میں جاری سیاسی کشیدگی کے حوالے سے کوئی ٹھوس حکمت عملی طے نہ کرنے پر بعض حلقے سخت تنقید کر رہے ہیں۔ ان حلقوں کا موقف ہے کہ یورپی رہنما کئی روز سے جاری اس بحران پر کوئی واضح موقف اختیار کرنے میں ناکام رہے ہیں اور مشرق وسطیٰ میں آمر حکمرانوں کے حوالے سے ان کا رویہ نسبتاً نرم دکھائی دیتا ہے۔
اجلاس سے قبل مبصرین اس بات کا خدشہ ظاہر کر رہے تھے کہ اس ایک روزہ اجلاس میں یورپی یونین کے ستائیس سربراہان مملکت و حکومت شاید کوئی واضح موقف اختیار نہ کر پائیں۔ یورپی سفارت کاروں کا یہ موقف رہا ہے کہ مصر میں حالات اتنی تیزی سے تبدیل ہو رہے ہیں کہ اس بارے میں کوئی حتمی موقف اختیار نہیں کیا جا سکتا۔
یورپی سیاسی تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ کے باعث یورپی رہنماؤں کے لیے مشرق وسطیٰ میں سیکولر حکمرانوں کی حمایت سے ہاتھ اٹھانا ایک کٹھن عمل ہوگا۔
دوسری جانب یورپی رہنماؤں کا یہ موقف بھی سامنے آ چکا ہے کہ مصر میں جاری سیاسی بحران مصر کا اندرونی معاملہ ہے اور اس حوالے سے یورپ کی بے جا مداخلت بھی درست نہیں ہے۔ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ ستائیس رکنی یورپی یونین کا اس بارے میں کوئی متفقہ موقف اختیار کرنا اتنا آسان کام نہیں ہے۔
تاہم یورپی یونین مصر میں انتقال اقتدار کو ممکن بنانے کے لیے صدر حسنی مبارک پر دباؤ ضرور ڈال سکتی ہے۔ مبصرین کے مطابق اس حوالے سے یونین مصری حکومت کی مالی امداد روک سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین صرف امداد کی مد میں ہی مصر کو سن 2011 اور 2013 کے درمیانی عرصے میں قریب 450 ملین یورو دینے کا وعدہ کر چکی ہے۔ بہرحال بعض تجزیہ نگاروں کا یہ بھی موقف ہے کہ مصر پر مالی پابندیاں شاید کارآمد ثابت نہ ہوں اور ہو سکتا ہے کہ وہ صورت حال کو مزید خراب کر دیں۔
اس حوالے سے لکسمبرگ کے وزیر خارجہ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ یورپ کہ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ مصری عوام جمہوریت اور حقِ خود ارادی کے خواہاں ہیں۔
رپورٹ: شامل شمس ادارت: مقبول ملک