یورپی یونین کا نیا مرکزی ادارہ، نام مردم بیزار سوچ کا عکاس؟
11 ستمبر 2019
یورپی کمیشن کی نئی صدر کی طرف سے ایک نئے یورپی ادارے کے قیام پر ان دنوں پوری یونین میں کافی تنقید کی جا رہی ہے۔ ’یورپی طرز زندگی کے تحفظ کا دفتر‘ نامی اس ادارے کے قیام کو مردم بیزار سوچ کا مظہر قرار دیا جا رہا ہے۔
اشتہار
یورپی کمیشن کی جرمنی سے تعلق رکھنے والی نئی اور پہلی خاتون صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین ان دنوں یونین کے اس انتظامی بازو کے ارکان کے طور پر یورپی کمشنروں کے ناموں اور ان کے فرائض کو حتمی شکل دے رہی ہیں۔ انہوں نے اس یورپی بلاک میں مرکزی سطح پر ایک ایسے نئے دفتر کے قیام کا فیصلہ بھی کیا ہے، جس کا نام 'یورپی طرز زندگی کے تحفظ کا دفتر‘ ہو گا۔
لیکن ناقدین کا دعویٰ ہے کہ اس نئے ادارے کے قیام کے فیصلے کے ساتھ برسلز میں یورپی کمیشن نے ایک ایسا پیغام دیا ہے، جو مردم بیزاری کی سوچ کا عکاس قرار دیا جا سکتا ہے۔
اس فیصلے پر برسلز میں یورپی یونین کے رکن ممالک کے نمائندوں کے علاوہ پوری 28 رکنی یونین میں بھی تنقید کی جا رہی ہے۔ اُرزُولا فان ڈئر لاین کی طرف سے قائم کیے گئے اس نئے یورپی عہدے پر آج بدھ گیارہ ستمبر کو برسلز میں کئی یورپی غیر حکومتی تنظیموں کی طرف سے شدید تنقید کرتے ہوئے کہا گیا کہ یہ یورپی کمیشن کی طرف دیا جانے والا ایک 'پریشان کن پیغام‘ ہے۔ اس کے علاوہ یورپی پارلیمان کے کئی ارکان نے اسے 'قابل مذمت‘ بھی قرار دیا ہے۔
فان ڈئر لاین مستقبل میں اپنی قیادت میں کام کرنے والے یورپی کمیشن کی جس طرح تشکیل کر رہی ہیں، اس میں انہوں نے کئی یورپی عہدوں کو نئے نام بھی دیے ہیں۔ اس قدام کا مقصد ان یورپی عہدوں کو کم رسمی اور ناموں کے حوالے سے ان کے مقاصد کے قریب تر بنانا بتایا گیا ہے۔
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: EZB
8 تصاویر1 | 8
اس دوران ایک ایسے شعبے کو، جو اب تک 'ترک وطن، داخلہ امور اور شہریت‘ کا شعبہ کہلاتا تھا، اس کا نام بدل کر 'یورپی طرز زندگی کے تحفظ‘ کے دفتر کا نام دے دیا گیا ہے۔
اس فیصلے پر خود برسلز میں بھی کافی زیادہ تنقید اس لیے کی گئی کہ ناقدین کے مطابق بظاہر 'فاشسٹ سنائی دینے والا‘ یہ نام یورپی سیاسی اخلاقیات سے ہم آہنگ نہیں ہے۔
'غلط سمت کی طرف اشارہ‘
اس بارے میں یورپی پارلیمان کی ہالینڈ سے تعلق رکھنے والی ایک ترقی پسند خاتون رکن سوفی اِنٹ وَیلڈ نے کہا، ''ایسے کسی نئے دفتر کے قیام کا فیصلہ یورپی عوام میں بہت بڑی تعداد میں بے ضابطہ ترک وطن کی صورت میں یورپ آنے والے تارکین وطن کے باعث پیدا ہونے والے خدشات کے تدارک کی ایک کوشش تو ہے مگر یہ نام (یورپی طرز زندگی کے تحفظ کا دفتر) واضح طور پر غلط سمت میں جا رہا ہے اور اسی لیے قابل مذمت ہے۔‘‘
اسی طرح جرمنی سے تعلق رکھنے والی یورپی پارلیمان کی خاتون رکن اسکا گَیلر، جو یورپی پارلیمان میں ماحول پسندوں کے حزب کی سربراہ بھی ہیں، کہتی ہیں، ''اس نام کے ذریعے یہ اشارہ دیا گیا ہے کہ مہاجرین اور تارکین وطن کی حمایت اور یورپی اقدار آپس میں متصادم ہیں۔‘‘
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔
تصویر: picture-alliance/D. Puklavec
8 تصاویر1 | 8
دوسری طرف انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ایمنسٹی انٹرنیشنل کے یورپی یونین کے اداروں سے متعلقہ دفتر کی سربراہ اِیو گَیڈی نے کہا ہے، ''اس نئے دفتر کے سربراہ کا عہدہ ہو گا، یورپی طرز زندگی کے تحفظ سے متعلقہ امور کے نگران کمشنر اور یوں ترک وطن کو سلامتی کے خدشات سے جوڑ دینے سے ایک بہت پریشان کن پیغام دیے جانے کا خطرہ بہت زیادہ ہو جائے گا۔‘‘
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zuchowicz
9 تصاویر1 | 9
فان ڈیر لاین کی طرف سے فیصلے کا دفاع
یورپی کمیشن کی نئی صدر اُرزُولا فان ڈئر لاین نے یہ نیا عہدہ مارگاریٹیس شیناس کو دینے کا فیصلہ کیا ہے، جو یونان سے تعقل رکھنے والے یورپی پارلیمان کے ایک سابق رکن ہیں اور ماضی میں یورپی کمیشن کے لیے طویل عرصے تک کام کرنے والے ایک انتظامی اہلکار بھی۔
انہوں نے اس عہدے پر اپنی تعیناتی کے بعد اپنے مقاصد کی وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ ان کا کام یورپی شہریوں کا بہتر تحفظ کرتے ہوئے اور یورپی سرحدوں کی زیادہ مؤثر نگرانی کرتے ہوئے سیاسی پناہ کے یورپی نظام کو جدید تر بنانا ہو گا۔‘‘
شیناس نے مزید کہا، ''ہم یورپی باشندوں کی صلاحیتوں میں اضافے کے لیے زیادہ سرمایہ کاری کریں گے، اپنی نوجوان نسل کے لیے روش تر مستقبل کے لیے کوشاں ہوں گے اور ہم چاہتے ہیں کہ اگلے پانچ سال کے دوران یورپی باشندوں کی زیادہ سے زیادہ حفاظت بھی کی جائے اور انہیں مزید بااختیار بھی بنایا جائے۔‘‘
اس بارے میں فان ڈیر لاین نے اپنے فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس نئے یورپی دفتر کے قیام کا فیصلہ اور اس کا نام تو ان کے اس اسٹریٹیجی پلان میں بھی شامل تھے، جو اس سال جولائی میں ہی جاری کر دیا گیا تھا۔ انہوں نے کہا کہ اس دفتر کا کام دہشت گردی کے خلاف جنگ بھی ہو گا اور جمہوریت سمیت یورپی اقدار کا تحفظ بھی۔
الزبتھ شوماخر (م م / ع ا)
عام مصنوعات میں چھپے خطرات
یورپی کمیشن نے صارفین کے تحفظ سے متعلق اپنی سالانہ رپورٹ میں خبردار کیا ہے کہ کھلونے ہوں، ملبوسات یا پھر میک اَپ کا سامان، بازار میں ناقص اور خطرناک مصنوعات کی تعداد بڑھتی جا رہی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں زیادہ خطرناک مصنوعات کا سراغ
انتباہی نظام ریپیکس (Rapex) یعنی ریپڈ الرٹ سسٹم فار ڈینجرس نان فوڈ کنزیومر پراڈکٹس کی مدد سے یورپی یونین کے تمام رکن ممالک آپس میں یورپی منڈی میں خطرناک مصنوعات سے متعلق معلومات کا تبادلہ کرتے ہیں۔ 2014ء میں کنٹرولرز نے یورپی یونین کے اٹھائیس رکن ملکوں کے ساتھ ساتھ ناروے، آئس لینڈ اور لیخٹن اشٹائن میں 2435 مصنوعات کی فروخت پر پابندی لگائی، یہ تعداد اُس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں 71 زیادہ تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
نیا ریکارڈ
بہت سی مصنوعات میں ایسے خطرات چھپے ہوتے ہیں، جن کی صارفین کو خبر تک نہیں ہوتی۔ یورپی کمیشن ہر سال اپنی ایک رپورٹ جاری کرتا ہے تاکہ یورپی صارفین کو صحت کے لیے مضر مصنوعات سے خبردار کیا جا سکے۔ یہاں ہم آپ کو محض چند ایک چیدہ چیدہ مثالیں دے رہے ہیں۔
تصویر: AFP/Getty Images/E. Dunand
بچوں کے لیے خاص طور پر خطرات
گڑیائیں، جو آگ پکڑ سکتی ہیں، ٹیڈی بیئر، جن میں استعمال کیے گئے مادے کینسر کا باعث بن سکتے ہیں اور چھوٹے چھوٹے حصوں پر مشتمل کھلونے، جو بچوں کے لیے خاص طور پر خطرناک ثابت ہو سکتے ہیں۔ کئی کھلونے ایسے ہوتے ہیں کہ جن سے بچوں کا دم گھٹنے کا خطرہ ہوتا ہے اور کئی کے ٹکڑے ایسے تیز دھار ہوتے ہیں کہ بچے زخمی ہو سکتے ہیں۔ 2014ء میں بازار سے ہٹا لی گئی مصنوعات میں سب سے زیادہ یعنی اٹھائیس فیصد کھلونے تھے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جسم کے لیے نقصان دہ ملبوسات
غیر محفوظ مصنوعات کے اعتبار سے 23 فیصد کے ساتھ دوسرے نمبر پر مختلف طرح کے ملبوسات اور جوتے وغیرہ رہے۔ بہت سے ملبوسات میں ایسے ضرر رساں کیمیائی مادے استعمال کیے گئے ہوتے ہیں کہ جن سے انسانی جلد کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔ سب سے زیادہ خطرناک مادے جوتوں اور چمڑے سے بنی اشیاء میں پائے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
انتہائی خطرناک
2014ء میں جن مصنوعات کو غیر محفوظ قرار دیتے ہوئے بازار سے ہٹانے کا حکم دیا گیا، اُن کی نو فیصد تعداد گھریلو استعمال کی عام چیزوں پر مشتمل تھی۔ گرم ہونے والی مصنوعات میں اگر ناقص مادے استعمال کیے گئے ہوں تو اُنہیں آگ بھی لگ سکتی ہے۔ برقی آلات میں ناقص تاروں کے استعمال سے بجلی کا جھٹکا لگ سکتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa
ضرر رساں درآمدات
گزشتہ برسوں کی طرح اس سال بھی سب سے زیادہ خطرناک مصنوعات چین سے درآمد کی گئی تھیں۔ غیر محفوظ مصنوعات کی تقریباً دو تہائی تعداد کا تعلق چین سے بتایا گیا ہے تاہم اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ چین یورپ کو مصنوعات برآمد کرنے والے بڑے ممالک میں بھی شامل ہے۔ غیر محفوظ مصنوعات کی چَودہ فیصد تعداد یورپ میں تیار ہوئی تھی، زیادہ تر جرمنی، اٹلی، برطانیہ اور فرانس میں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ کے لیے جلد خبردار کرنے والا نظام
یورپ بھر میں غیر محفوظ مصنوعات سے خبردار کرنے والا نظام ریپیکس 2003ء میں متعارف کروایا گیا تھا اور تب سے اب تک اُنیس ہزار تریانوے مصنوعات کا پتہ چلا کر اُن پر پابندی لگائی جا چکی ہے۔ صارفین کے تحفظ سے متعلق یورپی کمشنر ویرا یُورووا کہتی ہیں کہ یہ نظام صارفین کے تحفظ کے حوالے سے بہت مؤثر ثابت ہوا ہے۔