یورپی یونین کا ہنگامی خدمات مرکز کیسے کام کرتا ہے؟
8 اگست 2023
ہلاکت خیز سیلاب، پورے یورپی یونین میں جنگلوں میں لگنے والی آگ اور کووڈ انیس کی عالمی وبا جیسے واقعات اس اتحاد کی بحران سے نمٹنے کی صلاحیتوں کا امتحان لے رہے ہیں۔
برسلز میں واقع یورپی یونین کا ایمرجنسی ریسپانس کوارڈی نیشن مرکز چوبیس گھنٹے مصروف رہتا ہےتصویر: EU
اشتہار
سلووینیا میں ہلاکت خیز سیلاب، اٹلی اور یونان کے جنگلوں میں بھڑکتی ہوئی آگ اور اسپین کی گرمی، یورپی یونین میں یہ شدید گرمی کا موسم رہا ہے۔ ایسے میں برسلز میں واقع یورپی یونین کا ایمرجنسی ریسپانس کوارڈی نیشن مرکز چوبیس گھنٹے مصروف ہے۔ ملکوں کی ہنگامی خدمات کو ایک دوسرے سے منسلک کرنا، ریسکیو ٹیموں اور آلات کی تنصیب کو مربوط کرنا اور ممکنہ اگلی قدرتی آفت کا اندازہ لگانے کی کوشش کرنا، اس کی سرگرمیوں میں شامل ہیں۔
یورپی یونین کرائسس مینجمنٹ کے کمشنر جینز لینارسک نے پیر کے روز اعلان کیا کہ جرمنی اور فرانس تیار شدہ پل، کھدائی کے لیے مشینیں اور انجینئرنگ ٹیمیں سلووینیا بھیج رہے ہیں۔ اس دوران یونان قبرص کو جنگل کی آگ پر قابو پانے میں مدد کے لیے طیارے بھیج رہا ہے۔ گزشتہ ہفتے کے اواخر میں اس نے اعلان کیا تھا کہ نو یورپی ممالک میں آگ کے "انتہائی" خطرے پر نگاہ رکھی جا رہی ہے، پانچ میں سیلاب کے انتباہات جاری کیے گئے ہیں دو ملکوں میں زیادہ درجہ حرارت یا بارش کے حوالے سے ریڈ الرٹ کیا گیا ہے۔
اس طرح کے اقدامات ان دنوں عروج پر ہیں۔ سال 2018 میں یورپی یونین کے ہنگامی امداد کے مرکز کو مدد کے لیے 20 درخواستیں موصول ہوئی تھیں لیکن سن 2022 میں ان کی تعداد کئی گنا بڑھ کر230 سے زیادہ ہوگئیں۔ کووڈ انیس کی عالمی وبا، یوکرین میں جنگ اور جنگلاتی آگ اور سیلاب جیسے قدرتی آفات میں اضافہ اس کا سبب ہیں۔
اطالوی سیاحتی شہر وینس: سیلاب کی لپیٹ میں
اٹلی کا شہر وینس یورپ سمیت دنیا بھر میں سیاحوں کے پسندیدہ مقامات میں شمار ہوتا ہے۔ آج کل اس شہر کو بلند سمندری پانی اور شدید طغیانی کا سامنا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Silvestri
وینس: ایک سو سے زائد جزیروں کا شہر
اطالوی شہر وینس مجموعی طور پر ایک سو اٹھارہ جزیروں پر مشتمل ایک شہر ہے۔ یہ جزیرے نہری نظام سے جڑے ہیں۔ ان نہروں میں چلنے والے گنڈولے (کشتی کے ذریعے نقل و حرکت) مقامی آبادی سے زیادہ سیاحوں کو من پسند ہیں۔
تصویر: DW/Juan Martinez
وینس کی نہروں میں طغیانی
وینس بحیرہ ایڈریاٹک میں واقع ہے۔ اس شہر کی نہروں میں اسی سمندر کا پانی پھرتا ہے۔ مقامی آبادی کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے شہر میں پانی کی سطح غیرمعمولی طور پر بلند ہو گئی ہے۔
تصویر: picture-alliance/M. Chinellato
شدید سیلابی صورت حال
وینس شہر میں گزشتہ پچاس برسوں کے بعد ایسی سیلابی صورت حال پیدا ہوئی ہے۔ گنڈولے فی الحال چلنے بند ہو گئے ہیں۔ لوگ پانی میں سے گزر کر ضروریاتِ زندگی خریدنے پر مجبور ہیں۔ اٹلی کی حکومت نے شہر میں ایمرجنسی کا نفاذ کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Silvestri
اونچی لہریں اور پانی ہی پانی
وینس کی نہروں میں پیدا ہونے والی طغیانی سے انتہائی بلند لہریں بھی اٹھ رہی ہیں۔ کئی لہریں پانچ فٹ تک بھی بلند ہوئی ہیں۔ پانی گھروں، دوکانوں اور مارکیٹوں میں داخل ہو چکا ہے۔ اس صورت حال کے سامنے شہری انتظامیہ ابھی تک بے بس دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: Reuters/M. Silvestri
وینس میں نظام زندگی مفلوج ہو کر رہ گیا
شدید طغیانی کی وجہ سے تعلیمی اداروں کو بند کرنے کے ساتھ ساتھ عام دفاتر تک لوگوں کا پہنچنا مشکل ہو گیا ہے۔ سیلاب کی وجہ سے سیاحوں کی بھیڑ کے مقامات مثلاً ڈوگیزے محل اور سینٹ مارکس برج بھی پانی کی لپیٹ میں ہیں۔
تصویر: Reuters/M. Silvestri
وینس کے تاریخی ورثے کا نقصان
سیلابی صورت حال کی وجہ سے ابھی تک کوئی جانی نقصان تو نہیں ہوا لیکن مالی نقصان کا اندازہ بہت زیادہ لگایا گیا ہے۔ سیاحتی صنعت مفلوج ہو گئی ہے۔ کاروباری سرگرمیاں معطل ہیں۔ تاریخی ورثہ پانی کی لہروں سے شدید متاثر ہو رہا ہے۔
تصویر: picture-alliance/M. Chinellato
وینس کے شہریوں کی مالی امداد
اطالوی حکومت نے وینس میں سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے اور بحالی کے لیے بائیس ملین ڈالر کے خصوصی امدادی پیکج کی منظوری دی ہے۔ عام شہریوں کو پانچ ہزار یورو کی امداد اور کاروبار میں نقصان اٹھانے والے بیس ہزار یورو تک کا کلیم کر سکیں گے۔
تصویر: picture-alliance/M. Chinellato
وینس کا سیلاب
اطالوی شہر وینس میں سیلاب کی وجہ شمالی اٹلی میں ہونے والی شدید بارشوں کو قرار دیا گیا ہے۔ قبل ازیں ایسا ہی سیلاب سن 1966 میں دیکھا گیا تھا۔ عام لوگوں نے اس پریشان کن صورت حال کو انتہائی تشویشناک قرار دیا ہے۔
تصویر: Reuters/M. Silvestri
8 تصاویر1 | 8
یورپی یونین کا شہری حفاظتی میکانزم کیسے کام کرتا ہے؟
لینارسک یورپی یونین کے شہری حفاظتی میکانزم کے نگراں ہیں۔ اس کرائسس مینجمنٹ کلب کا قیام سن 2001 میں عمل میں آیا تھا۔ اس کا مقصد ممالک کو ہنگامی وسائل جمع کرنے اور قدرتی آفات نیز انسان ساختہ آفات کا مقابلہ کرنے کے لیے ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو بہتر بنانے میں مدد دینا ہے۔
کوئی رکن ملک اگر خود کو ہنگامی صورت حال میں پاتا ہے، وہ بحران سے نمٹنے کے طریقہ کار کو متحرک کرنے کے لیے الرٹ بھیج سکتا ہے۔ وہ اپنی ضرورت کے سامان یا درکار مہارت کی تفصیلات بھی دے سکتا ہے۔ اس کے بعد دیگر ممالک اسے امداد کی پیش کش شروع کر دیتے ہیں اور برسلز میں واقع مرکز اس کے لیے رابطہ کار کے طورپر کام انجام دینے لگتا ہے۔
یورپی یونین کے تمام 27 ممالک کے علاوہ نو قریبی ریاستوں بشمول ترکی، یوکرین اور ناروے بھی اس کلب میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے ہیں، جسے دیگر ملکوں کی مدد کے لیے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔ اس سال کے اوائل میں کینیڈا نے جنگلاتی آگ سے مقابلہ کرنے کے لیے یورپی فائر فائٹروں کو تیار کیا اور گزشتہ سال ہلاکت خیز سیلاب کا سامنا کرنے والے پاکستان میں پانی صاف کرنے والی ٹیموں اور ڈاکٹروں کو بھیجا گیا تھا۔
اشتہار
خیموں سے لے کر جوہری آلودگی کی روک تھام تک
کووڈ انیس کی وبا یورپی یونین کے لیے ایک بڑی تنبیہ تھی۔ حکومتوں نے پایا کہ ان کے پاس وینٹی لیٹرز اور ماسک کی قلت ہے۔ وہ ہنگامی حالت میں بڑے پیمانے پر جانچ کی سہولیات یا ہسپتالوں کے قیام کے لیے تیار نہیں تھے۔ پروازوں اور سرحدوں کی بندش کا مطلب یہ تھا کہ آلات اور ادویات کے حصول کے لیے بالخصوص چین جیسے یورپ کے بہت سے معمول کے چینل بند ہوگئے یا وہ بہت سست ہوگئے۔
دوبارہ ایسے حالات سے بچنے کے لیے برسلز نے سن 2020 میں پورے یورپی یونین کے لیے مزید طبی سامان کا ذخیرہ کرنا شروع کردیا جبکہ پچھلے سال ایک وسیع تر ایمرجنسی ریزرو قائم کیا گیا۔ یورپی یونین نے اب طبی حفاظتی کٹ سے لے کر فوری طورپر تیار کیے جانے والے فیلڈ ہسپتالوں کے لیے ساز وسامان اکٹھا کرلیا ہے۔متعدد مقامات پر ہیلی کاپٹر، آگ بجھانے والے طیارے، خیمے اور توانائی پیدا کرنے کے لیے جنریٹرز موجود ہیں۔
سن 2022میں یوکرین پر روس کے فوجی حملے کے بعد برسلز نے کیمیاوی یا جوہری تباہی کی صورت میں آلودگی کو پاک کرنے والے آلات اور آیوڈین کی گولیوں کا ذخیرہ کرنے کی کوششیں تیز کردی ہیں۔
یورپی یونین جنگلاتی آگ پر قابو پانے کے لیے مزید طیارے خریدنا چاہتی ہےتصویر: Stamos Prousalis/REUTERS
آگ پر قابو پانے والے جہازوں کے منصوبے میں پیش رفت
لیکن ہنگامی حالات سے نمٹنے کے لیے اس ذخیرے کی فہرست طویل اور اسے پورا کرنا مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔ کیونکہ موسمیاتی تبدیلی کا اثر پورے براعظم میں محسوس ہورہا ہے۔ یورپی یونین کے جوائنٹ ریسرچ سینٹر کا کہنا ہے کہ جنگل کی آگ نے اس سال یورپی یونین میں تقریباً دو لاکھ ساٹھ ہزار ہیکٹیئر زمین کو جھلسا دیا ہے اور اس سے بڑے پیمانے پر ماحولیاتی اور معاشی نقصان پہنچا ہے۔
آنے والے سالوں میں خدشہ ہے کہ یہ جنگلاتی آگ یورپی یونین میں مزید تباہی مچا سکتی ہے۔ اس صورت حال کے مدنظر برسلز کا ہنگامی ریسپانس مرکز آگ بجھانے والے بارہ نئے طیارے خریدنے کا منصوبہ بنارہا ہے۔
یورپی کمیشن کی ترجمان میریم گارشیا فیررکا تاہم کہنا ہے کہ یہ اضافی طیارے ابھی دستیاب نہیں ہوں گے۔ "ہمیں اپنے بیڑے کو ترتیب دینے میں وقت لگے گا کیونکہ کچھ خاص قسم کے فائر فائٹنگ طیاروں کی عالمی پیداوار رک گئی ہے۔ مارکیٹ میں ایسے نئے فائرفائٹنگ طیاروں کی پیش کش محدود ہے جو ہمیں درپیش سنگین مسائل سے نمٹنے کے لیے درکار ہیں۔"
گارشیا فیرر کا کہنا ہے کہ موجودہ منصوبوں کے تحت اضافی طیارے سن 2027 تک اپنی سرگرمیاں انجام دینے لگیں گے۔
یورپی یونین نے اب طبی حفاظتی کٹ سے لے کر فوری طورپر تیار کیے جانے والے فیلڈ ہسپتالوں کے لیے ساز وسامان اکٹھا کرلیا ہےتصویر: Reuters/M. Silvestri
ہنگامی تعاون کے حدود
یورپی کمشنر لینارسک پچھلے چند ہفتوں کے دوران ایسے فائر فائٹرز، انجینئروں اور طبی عملے کی تعریف کرتے رہے ہیں جو اپنی سرحدوں سے باہر جاکر ہنگامی صورت حال میں خدمات انجام دیتے ہیں۔ انہوں نے پیر کے روز ایک آن لائن پوسٹ میں لکھا،"یورپی یونین کی یکجہتی کی بہترین مثال۔"
لیکن یہ یکجہتی بہت آگے تک نہیں جاسکتی۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یورپی یونین کا شہری تحفظ کا میکانزم رضاکارانہ ہے۔ یورپی یونین کے اراکین ضرورت مند دوسری ریاستوں کی مدد کرنے کا انتخاب کرسکتے ہیں اور ایسا کرتے بھی ہیں، لیکن وہ ایسا کرنے کے پابند نہیں ہیں۔ یورپی یونین کے پاس قدرتی آفات کے خلاف سرگرم عمل ہونے کے لیے قانونی اختیارات نہیں ہیں اور اسے ہنگامی سازو سامان خریدنے کے لیے رکن ممالک کی طرف سے رضامندی کی ضرورت ہوتی ہے۔
اس ضابطے میں تبدیلی کرنا یورپی یونین کے بنیادی معاہدوں کو ازسرنو لکھنے کے متراف ہوگا اور قومی حکومتیں عام طورپر برسلز کو اضافی اختیارات سونپنے کے خوف سے محتاط رہتی ہیں۔ لینارسک نے گزشتہ برس مشورہ دیا تھا کہ یورپی یونین کو اپنے سیٹ اپ پر نظر ثانی کرنے کی ضرورت ہے۔
لینارسک نے کہا تھا،"ایک طرف ہمارے سامنے یہ معاہدہ ہے، دوسری طرف یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ یورپ کو شہری حفاظت کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے۔"
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔