’یورپی یونین کو عالمی سیاست میں کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے‘
9 نومبر 2019
یورپی کمیشن کی اگلی خاتون صدر نے کہا ہے کہ یورپی یونین کو عالمی سیاست میں کردار ادا کرنے کو نظرانداز نہیں کرنا چاہیے۔ یورپی کمیشن کی اگلی صدر جرمنی کی سابق وزیردفاع اروزلا فان ڈیئر لائن ہیں۔
اشتہار
اروزلا فان ڈیئر لائن نے جرمن دارالحکومت برلن میں یورپی پالیسی کے موضوع پر تقریر کرتے ہوئے کہا کہ یورپ کو بھی اب طاقت کی زبان سیکھنے کی ضرورت ہے۔ جمعہ آٹھ نومبر کو تقریر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ یورپی یونین کو عالمی سیاست میں بھی فعال کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے۔
سابق جرمن وزیردفاع نے یہ بھی کہا کہ وہ قوت بڑھانے کی ضرورت ہے، جس کی وجہ سے سکیورٹی پالیسیوں کے تناظر میں دوسروں پر انحصار کرتے رہے ہیں۔ فان ڈیئر لائن کے مطابق یورپی مفادات کو مدِنظر رکھتے ہوئے اب یونین کو اپنی موجودہ قوت کو اپنے اہداف کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہیے۔
برلن میں تقریر کرتے ہوئے یورپی کمیشن کی اگلی صدر نے کہا کہ یورپی یونین کے پارٹنر ممالک کو بھی اس بلاک کی مضبوط پوزیشن کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہو گا۔ انہوں نے مزید واضح کیا کہ قدرے ہلکی طاقت کے استعمال کی سابقہ اسٹرٹیجی موجودہ دور میں قابل استعمال نہیں رہا ہے۔
اس تقریر میں فان ڈیئر لائن نے یورپ اور مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے کردار پر بھی اظہار خیال۔ نیٹو پر فرانسیسی صدر ایمانوئل ماکروں کی تنقید کے تناظر میں کہا کہ تمام تر مشکل حالات کے باوجود اس فوجی عسکری اتحاد نے آزادی کے تحفظ کو ایک محفوظ چھتری فراہم کی ہے۔
اپنی تقریر میں فان ڈیئر لائن نے بریگزٹ پر بھی اظہار خیال کیا۔ انہوں نے کہا کہ ایک جانب تو برطانیہ کا یورپی یونین سے انخلا صدمے کا باعث تھا تو دوسری جانب اس عمل سے بلاک کو قریب کرنے میں بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔ انہوں نے بریگزٹ کی پیچیدگیوں کے تناظر میں کہا اس کی وجہ سے یونین کو قوت حاصل ہوئی ہے۔
اروزلا فان ڈیئر لائن کے عالمی سیاست میں ممکنہ یورپی کردار کے یہ کلمات دیوار برلن کے گرائے جانے کے تیس برس مکمل ہونے پر سامنے آئے ہیں۔ ان کلمات سے ایک روز قبل یعنی سات نومبر بروز جمعرات کو موجودہ وزیر دفاع آنے گریٹ کرامپ کارین باؤر نے بھی عالمی سیاست میں جرمنی کو بھرپور کردار کرنے کو اہم قرار دیا ہے۔
ربیکا اشٹاؤڈن میئر (عابد حسین)
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔