1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی نازی کیمپ سے تشبیہ، متنازعہ کارٹون پر ہنگامہ

17 دسمبر 2019

اس کارٹون میں یورپی یونین کو بدنام زمانہ نازی اذیت رساں کیمپ کے طور پر جبکہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو ایک فرار قیدی دکھایا گیا ہے۔

UK Wahlen 2019 | Boris Johnson
تصویر: picture-alliance/PA Wire/S. Rousseau

روم میں ایک کارٹونسٹ کے حالیہ منظر عام پر آنے والے کارٹون نے ایک تنازعے کو جنم دیا ہے۔ اس کارٹون میں یورپی یونین کو بدنام زمانہ نازی اذیت رساں کیمپ کے طور پر جبکہ برطانوی وزیر اعظم بورس جانسن کو ایک فرار قیدی دکھایا گیا ہے۔ اس کارٹون کو اطالوی کارٹونسٹ ماریو امپروتا نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر شئیر کیا۔
ہفتے کے روز بورس جانسن کی برطانوی الیکشن میں اکثریت حاصل  کرنے کے بعد ماریو امپروتا نے اپنے ٹوئٹر اکاونٹ پر یہ کارٹون پوسٹ کیا۔

کارٹون میں بورس جانسن کو ہاتھ میں برطانوی پرچم لہراتے ہوئے حراستی کیمپ سے فرار ہوتے دکھایا گیا ہے۔ جبکہ پرچم پر درج ہے ’’یورپی یونین‘‘۔ اطالوی کارٹونسٹ کے اپنے آرٹ کے ذریعے یورپی یونین اور حراستی کیمپ کے مابین موازنہ کرنے کے اس عمل سے روم کے یہودی سیاستدانوں میں غم و غصے کی لہر دوڑ گئی ہے۔ اسکے چند فولورز نے لکھا کہ یہ الفاظ انسانی نفرت کی علامت بن گئے ہیں۔ آؤشوئٹس کے متاثرین کے لیے یہ تکلیف دہ ہے کہ اس  علامت کو شرمناک طریقے سے استعمال کیا جائے۔

تصویر: Getty Images/AFP/A. Solaro


یاد رہے کہ مذکورہ کارٹونسٹ اٹلی میں تعلیم کے لیے چلنے والی ایک مہم کے موجد بھی ہیں اور اس وجہ سے وہ اچھی شہرت کے حامل رہے ہیں۔ اس مہم میں انہوں نے روم کی میئر ورجینیا راگی کو ایک ہیرو کے طور پر دکھایا ہے۔ دریں اثناء روم کی خاتون میئر نے کارٹونسٹ کے مذکورہ کارٹون سے فاصلہ اختیار کرتے ہوئے اس معاملے سے خود کو علیحدہ رکھنے کا فیصلہ کیا۔

روم میں اس متنازعہ کارٹون پر بڑھتی ہوئی تنقید کے سبب کارٹونسٹ ماریو امپروتا نے اس میں ردو بدل کرکے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا۔ انہوں نے اپنے کارٹون میں آؤشوئٹس کے نازی حراستی کیمپ کی جگہ ٹائلٹ بنادیا اور اس امر کا اقرار کیا کہ ’’نازی حراستی کیمپ‘‘ کی ’’یورپی یونین‘‘ سے مطابقت ظاہر کرنا درست عمل نہیں تھا۔
ع ش / ک م (ap)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں