1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’یورپی یونین کی اساس کو برطانیہ سے لاحق خطرہ‘

ریگرٹ بیرنڈ/ ندیم گِل4 نومبر 2014

یہ چائے کی پیالی میں برپا طوفان ہے یا ایک حقیقی مسئلہ؟ برطانیہ کو یورپی یونین کی دیگر ریاستوں کی جانب سے ایمیگریشن کے سوال کا سامنا ہے۔ جرمن چانسلر کے مبینہ بیانات پر مبنی ایک میڈیا رپورٹ نے اس بحث کو اور بھی ہوا دی ہے۔

تصویر: picture-alliance/abaca

برطانیہ میں یورپی یونین سے ممکنہ اخراج کی بحث زور پکڑتی جا رہی ہے۔ برطانی اخبار ’دی گارڈیئن‘ نے پیر کو ایک بیان میں کہا کہ یورپی یونین سے برطانیہ کے ممکنہ اخراج سے متعلق بظاہر جرمن چانسلر انگیلا میرکل کے بیانات اس اخبار کے قارئین کے لیے بہت ہی دلچسپی کی وجہ بنے ہیں۔

اتوار کو ایسی رپورٹیں سامنے آئی تھیں کہ برطانیہ یورپی شہریوں کی ایمیگریشن میں رکاوٹیں کھڑی کرتا ہے تو میرکل یورپی یونین سے اس کے اخراج کو قبول کرنے کے لیے تیار ہیں۔ یہ خبر برطانیہ میں جرمنی کے میگزین ڈیر اشپیگل کی ایک رپورٹ کے بعد پھیلی۔ اس رپورٹ کے مطابق جرمن حکومت کو ایسا لگتا ہے کہ برطانیہ نے یورپی یونین کی جانب سے رکن ریاستوں میں نقل و حرکت کے لیے دی گئی ضمانت کی خلاف ورزی کی تو اسے بلاک سے علیحدہ ہونا پڑے گا۔

ڈیر اسپیگل نے اس رپورٹ میں نامعلوم حکومتی ذرائع کا حوالہ دیا تھا جنہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ انہوں نے یہ باتیں یورپی یونین کے گزشتہ سمٹ کے موقع پر میرکل اور برطانوی وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون کے درمیان بات چیت میں سنی تھیں۔

یو کے آئی پی کو برطانیہ میں مقبولیت حاصل ہو رہی ہےتصویر: Reuters

برلن کی جانب سے کچھ نیا نہیں

میرکل کے ترجمان شٹیفان زائبرٹ نے ڈیر اشپیگل کی رپورٹ سے اتفاق نہیں کیا ہے۔ انہوں نے پیر کو دارالحکومت برلن میں صحافیوں سے بات چیت میں کہا: ’’جرمن حکومت چاہتی ہے کہ برطانیہ یورپی یونین کا سرگرم اور مخلص رکن بنا رہے۔‘‘

تاہم یورپی یونین کے شہریوں کی سفری اور رہائشی آزادیوں پر بات نہیں ہو سکتی۔ میرکل خود بارہا ایسا کہہ چکی ہیں۔ ایسی آزادیوں کے حوالے سے بعض ملکوں کے شہریوں کی جانب سے زیادہ خوشحال ریاستوں کے فلاحی نظام کا ناجائز فائدہ اٹھانے کی بات بھی کی جاتی ہے۔

میرکل اور کیمرون کے درمیان یہ اتفاق بھی سامنے آ چکا ہے کہ فلاحی نظام کا ناجائز استعمال روکنا ہو گا لیکن نقل و حرکت، کام کرنے اور رہائش رکھنے کی آزادی کو نہیں چھیڑا جائے گا۔

کوئی ایمیگرین کوٹہ نہیں؟

یہ پیغام لندن پہنچ چکا ہے۔ سنڈے ٹائمز میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق وزیر اعظم صرف یہ چاہتے ہیں کہ یورپی یونین کے شہری ملک میں داخلے کے بعد تین ماہ تک اپنا خرچہ نہ اٹھا سکیں تو انہیں ملک بدر کر دیا جائے۔ یہ یورپی یونین کے قانون کے مطابق ہے۔ کیمرون نے ایمیگریشن پر پابندی لگانے یا کوٹہ متعارف کروانے کے منصوبوں کو ترک کر دیا ہے۔

یورپی کمیشن کے سابق کمشنر یوزے مانوئیل باروسو نے گزشتہ جمعے کو برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی سے بات چیت میں کہا تھا کہ جہاں تک کمیشن کا تعلق ہے تو یورپی یونین کے شہریوں کو ایمیگریشن کوٹے کا حق نہیں ہوگا۔

رومانیہ اور بلغاریہ کے تارکینِ وطن

باروسو کا کہنا ہے کہ برطانوی شہری بھی یورپی یونین کی جانب سے دی گئی آزادیوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں۔ انہوں نے مثال دیتے ہوئے کہا کہ برطانوی حکومت اسپین اور جبرالٹر کے درمیان اپنے شہریوں کے بلارکاوٹ سفر پر بات کر سکتی ہے۔

قومی اعدادوشمار کے مطابق اپریل 2013ء سے مارچ 2014ء تک پانچ لاکھ ساٹھ ہزار افراد برطانیہ پہنچے۔ ان میں سے پانچ فیصد یورپی یونین کی پسماندہ ریاستوں رومانیہ اور بلغاریہ سے تھے۔

برطانوی غیرسرکاری تنظیم مائیگریشن واچ کے مطابق تراسی ہزار افراد برطانیہ سے یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں منتقل ہوئے جن میں غیربرطانوی بھی شامل تھے۔

یورپی یونین اپنے شہریوں کو رکن ریاستوں میں نقل و حرکت سمیت متعدد آزادیاں دیتی ہےتصویر: picture-alliance/dpa

کیمرون کی پریشانی

کیمرون کچھ عرصے سے اپنے ملک میں یورپی اتحاد کے مخالف ووٹروں کو جیتنے کی کوشش میں رہے ہیں۔ یورپ مخالف یونائیٹڈ کنگڈم پارٹی (یو کے آئی پی) نے مئی کے یورپی انتخابات میں کیمرون کے قدامت پسندوں کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ وزیر اعظم نے وعدہ کیا تھا کہ وہ اقتدار کو برسلز سے لندن واپس لائیں گے اور ایمیگریشن پر پابندی عائد کریں گے۔

برطانیہ میں آئندہ برس عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں جس کے بعد کیمرون یورپی یونین میں برطانیہ کی حیثیت پر بات چیت کرنا چاہتے ہیں۔ وہ2017ء میں برطانیہ میں ایک ریفرنڈم بھی کروانا چاہتے ہیں جس کا مقصد یہ طے کرنا ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت رکھی جائے یا نہ۔

یوکے آئی پی کے سربراہ نائجیل فیراج اس پر خوش دکھائی دیتے ہیں۔ انہوں نے ایک انٹرویو میں کہا ہے کہ وزیر اعظم کے سارے وعدے الجھے ہوئے ہیں۔ یورپی یونین کے قانون کو اپنی مرضی کے مطابق نہیں ڈھالا جا سکتا۔

ان کا کہنا ہے: ’’یا تو ہمیں یورپی یونین میں لوگوں کی آزادانہ نقل و حرکت کے ساتھ رہنا ہوگا، یا، اگر ہم اپنا سرحدی کنٹرول واپس چاہتے ہیں تو پھر ہمیں یورپی یونین کو چھوڑنا پڑے گا۔‘‘

انہوں نے اپنی پارٹی کی ویب سائٹ پر ایک بیان میں یہ بھی کہا ہے کہ اس خدشے کے پیشِ نظر کے برطانیہ یورپی یونین سے علیحدہ ہو سکتا ہے، جرمنی سمیت شمالی یورپی ملکوں کے بہت سے رہنما برطانیہ کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے لیے تیار ہیں۔

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں
ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں