1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی یونین کی ایران پر پابندیوں کا پس منظر

24 جنوری 2012

ایران کا متنازعہ جوہری پروگرام ایک طویل عرصے سے مغربی ممالک کے لیے ایک مسئلہ بنا ہوا ہے۔ امریکہ سمیت مغربی ممالک کو یہ خدشات لاحق ہیں کہ تہران حکومت اپنے اس جوہری پروگرام سے ایٹمی ہتھیار حاصل کرنے کی کوشش میں ہے۔

تصویر: DW

اگرچہ ایران ایسے تمام ترالزامات کو ہمیشہ ہی مسترد کرتا آیا ہے لیکن ابھی تک وہ اقوام متحدہ کے جوہری ادارے IAEA کو قائل نہیں کرسکا ہے کہ واقعی طور پر اس کا جوہری پروگرام سول مقاصد کے لیے ہے۔

سن 2002 میں اس وقت کے امریکی صدر جارج بش نے کہا تھا کہ عراق، ایران اور شمالی کوریا کے پاس جوہری ہتھیار عالمی امن کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں۔ تاہم اس وارننگ کے باوجود اُسی برس روس نے ایران کے ایٹمی پروگرام کو وسعت دینے میں اہم مدد فراہم کی۔

جرمن وزیر خارجہ گیڈو ویسٹر ویلےتصویر: picture-alliance/dpa

سن 2003 میں بین الاقوامی ایجنسی برائے جوہری توانائی IAEA کے معائنہ کاروں نے ایران سے ایسے شواہد طلب کیے، جن سے ثابت ہو سکے کہ وہ جوہری ہتھیاروں کے حصول کی کوشش میں نہیں ہے۔ جون 2004ء میں IAEA نے کہا کہ ایران ایسے ثبوت فراہم کرنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ اسی برس تہران حکومت نے یورینیم کی افزدودگی ترک کرنے کا اعلان کرتے ہوئے یورپی یونین کے ساتھ ایک ڈیل کر لی۔

سال دو ہزار پانچ میں ایران میں ہوئے صدراتی انتخابات میں محمود احمدی نژاد نے صدارتی امیدوار اکبر ہاشمی رفسنجانی کو شکست دی اور انتہائی کٹر نظریات کے حامل احمدی نژاد کی حکومت نے اسی برس کے اواخر میں اعلان کیا کہ تہران یورینیم کی افزودگی دوبارہ شروع کر رہا ہے۔ ساتھ ہی یہ بھی کہا گیا کہ یہ عمل پر امن مقاصد کے لیے کیا جا رہا ہے۔

صدر احمدی نژاد کے اقتدار میں آنے کے بعد امریکہ اور یورپی ممالک نے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے بارے میں حقائق جاننے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس دوران مذاکرات کے کئی ادوار ہوئے اور IAEA کے معائنہ کاروں نے ایران کے جوہری پلانٹس کے دورے بھی کیے۔ تاہم بین الاقوامی ایجنسی برائے جوہری توانائی کے خدشات بڑھتے گئے۔ اسی دوران اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے ایران پر مختلف قسم کی پابندیاں بھی عائد کیں تاکہ تہران حکام کو مذاکرات کی میز پر لایا جا سکے لیکن اس کے باوجود کوئی مثبت پیش رفت نہ ہو سکی۔

یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹنتصویر: dapd

اسی دوران ایران کے کئی ایٹمی سائنسدانوں کو قتل بھی کیا گیا۔ تہران حکومت نے ان ہلاکتوں کا ذمہ دار امریکا اور اسرائیل کو قرار دیا۔ یہ امر بھی اہم ہے کہ تہران حکومت اسرائیل کو بطور ایک ریاست تسلیم نہیں کرتی۔ صدر محمود احمدی نژاد متعدد بار ایسے بیانات دے چکے ہیں کہ اسرائیل جلد ہی دنیا کے نقشے سے مٹ جائے گا۔ انہی بیانات اور ایران کے سخت گیر نظریات کے حامل رہنماؤں کو دیکھتے ہوئے اسرائیل کو بھی خطرہ ہے کہ اگر ایران نے ایٹمی ہتھیار حاصل کر لیے تو وہ اسرائیل پر حملہ بھی کر سکتا ہے۔

IAEA کی ایک تازہ رپورٹ کے مطابق ایران نے جوہری ہتھیاروں کے حصول میں اہم پیش رفت کی ہے۔ گزشتہ برس نومبر میں منظر عام پر آنے والی اس رپورٹ کے بعد بالخصوص امریکہ نے ایران پر پابندیوں میں مزید اضافہ کر دیا ہے۔ واشنگٹن حکومت کے بقول ایران کے ساتھ تعمیری مذاکرات کے راستے البتہ کھلے رہیں گے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کی سربراہ کیتھرین ایشٹن نے بھی کہا ہے کہ ایران پر عائد کی جانے والی نئی پابندیوں کا مقصد ایران کو مذاکرات کے لیے راضی کرنا ہے۔

ایران یورپی یونین کی تیل کی بیس فیصد ضروریات پوری کرتا ہے۔ اس میں زیادہ تر تیل یونان، اٹلی اور اسپین کو برآمد کیا جاتا ہے۔ دوسری جانب امریکی صدر باراک اوباما نے ایرانی تیل کی برآمدات روکنے کے یورپی یونین کے فیصلے کو سراہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ تہران حکومت جوہری پروگرام کے حوالے سے مسلسل عالمی قواعد و ضوابط ماننے سے انکار کر رہی ہے۔ اوباما نے کہا کہ یہ نئی پابندیاں ثابت کرتی ہیں کہ ایران کے جوہری پروگرام پر عالمی برادری متحد ہے۔

رپورٹ: عاطف بلوچ

ادارت: شامل شمس

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

مزید آرٹیکل دیکھائیں
ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں