یورپی یونین کی سرحد کے قریب روسی جوہری میزائلوں کی تنصیب
شمشیر حیدر Reuters, ap
7 فروری 2018
روس نے یورپی یونین کی سرحد کے قریب اپنے علاقے ’کالینن گراڈ‘ میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائل نصب کر دیے ہیں۔ بحیرہ بالٹک پر واقع کالینن گراڈ کی سرحدیں پولینڈ اور لیتھوانیا سے ملتی ہیں۔
اشتہار
نیٹو کے رکن یورپی ممالک کی سرحدوں کے قریب کالینین گراڈ نامی روسی صوبے میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں کی تنصیب کی خبروں پر نیٹو کے رکن ممالک کی جانب سے شدید تنقید سامنے آئی ہے۔ تاہم کریملن نے اپنے اس فیصلے کا دفاع کرتے کرتے ہوئے کہا ہے کہ اپنے علاقے میں میزائلوں کی تنصیب روس کا اپنا اختیار ہے۔
کالینن گراڈ کا روس کے مرکزی علاقوں کے ساتھ کوئی براہ راست زمینی رابطہ نہیں ہے بلکہ یہ بالٹک کے علاقے میں موجود ایسا روسی علاقہ ہے جس کی زمینی سرحدیں نیٹو کے رکن ممالک پولینڈ اور لیتھوانیا سے ملتی ہیں۔ اس علاقے میں نصب جوہری صلاحیتوں کے حامل میزائل پولینڈ، لیتھوانیا، لیٹویا اور ایسٹونیا جیسے نیٹو کے رکن ممالک کو نشانہ بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ کالینین گراڈ اور جرمن دارالحکومت برلن کے مابین فاصلہ بھی قریب چھ سو کلو میٹر بنتا ہے۔
کس ملک کے پاس کتنے ایٹم بم؟
دنیا بھر میں اس وقت نو ممالک کے پاس قریب سولہ ہزار تین سو ایٹم بم ہیں۔ جوہری ہتھیاروں میں تخفیف کے مطالبات کے باوجود یہ تعداد کم نہیں ہو رہی۔ دیکھتے ہیں کہ کس ملک کے پاس کتنے جوہری ہتھیار موجود ہیں؟
تصویر: AP
روس
اسٹاک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹیٹیوٹ (سِپری) کے مطابق جوہری ہتھیاروں کی تعداد کے معاملے میں روس سب سے آگے ہے۔ سابق سوویت یونین نے اپنی طرف سے پہلی بار ایٹمی دھماکا سن 1949ء میں کیا تھا۔ سابق سوویت یونین کی جانشین ریاست روس کے پاس اس وقت آٹھ ہزار جوہری ہتھیار موجود ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/N. Kolesnikova
امریکا
سن 1945 میں پہلی بار جوہری تجربے کے کچھ ہی عرصے بعد امریکا نے جاپانی شہروں ہیروشیما اور ناگاساکی پر ایٹمی حملے کیے تھے۔ سِپری کے مطابق امریکا کے پاس آج بھی 7300 ایٹم بم ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/H. Jamali
فرانس
یورپ میں سب سے زیادہ جوہری ہتھیار فرانس کے پاس ہیں۔ ان کی تعداد 300 بتائی جاتی ہے۔ فرانس نے 1960ء میں ایٹم بم بنانے کی ٹیکنالوجی حاصل کی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J.-L. Brunet
چین
ایشیا کی اقتصادی سپر پاور اور دنیا کی سب سے بڑی بری فوج والے ملک چین کی حقیقی فوجی طاقت کے بارے میں بہت واضح معلومات نہیں ہیں۔ اندازہ ہے کہ چین کے پاس 250 ایٹم بم ہیں۔ چین نے سن 1964ء میں اپنا پہلا جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Getty Images
برطانیہ
اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے مستقل رکن برطانیہ نے اپنا پہلا ایٹمی تجربہ سن 1952ء میں کیا تھا۔ امریکا کے قریبی اتحادی ملک برطانیہ کے پاس 225 جوہری ہتھیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kaminski
پاکستان
پاکستان کے پاس ایک سو سے ایک سو بیس کے درمیان جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ سن 1998ء میں ایٹم بم تیار کرنے کے بعد سے بھارت اور پاکستان کے درمیان کوئی جنگ نہیں ہوئی۔ پاکستان اور بھارت ماضی میں تین جنگیں لڑ چکے ہیں اور اسلام آباد حکومت کے مطابق اس کا جوہری پروگرام صرف دفاعی مقاصد کے لیے ہے۔ تاہم ماہرین کو خدشہ ہے کہ اگر اب ان ہمسایہ ممالک کے مابین کوئی جنگ ہوئی تو وہ جوہری جنگ میں بھی بدل سکتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP
بھارت
سن 1974ء میں پہلی بار اور 1998ء میں دوسری بار ایٹمی ٹیسٹ کرنے والے ملک بھارت کے پاس نوے سے ایک سو دس تک ایٹم بم موجود ہیں۔ چین اور پاکستان کے ساتھ سرحدی تنازعات کے باوجود بھارت نے وعدہ کیا ہے کہ وہ اپنی طرف سے پہلے کوئی جوہری حملہ نہیں کرے گا۔
تصویر: Reuters
اسرائیل
سن 1948ء سے 1973ء تک تین بار عرب ممالک سے جنگ لڑ چکنے والے ملک اسرائیل کے پاس قریب 80 جوہری ہتھیار موجود ہیں۔ اسرائیلی ایٹمی پروگرام کے بارے میں بہت ہی کم معلومات دستیاب ہیں۔
تصویر: Reuters/B. Ratner
شمالی کوریا
ایک اندازے کے مطابق شمالی کوریا کم از کم بھی چھ جوہری ہتھیاروں کا مالک ہے۔ شمالی کوریا کا اصل تنازعہ جنوبی کوریا سے ہے تاہم اس کے جوہری پروگرام پر مغربی ممالک کو بھی خدشات لاحق ہیں۔ اقوام متحدہ کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں کے باوجود اس کمیونسٹ ریاست نے سن 2006ء میں ایک جوہری تجربہ کیا تھا۔
تصویر: Reuters
9 تصاویر1 | 9
ان میزائلوں کی تنصیب کی تصدیق یورپی ملک لیتھوانیا کے صدر کے علاوہ روس کے ایک سینیئر رکن پارلیمان نے بھی کی ہے تاہم ابھی تک روس کی جانب سے ایسی خبروں کی باقاعدہ تصدیق یا تردید نہیں کی گئی۔
تاہم اس علاقے میں جوہری ہتھیار لے جانے کی صلاحیت رکھنے والے میزائلوں کی تنصیب کی خبروں کے بعد کریملن کے ترجمان دیمیتری پیشکوف نے صحافیوں کو بتایا، ’’روس اپنی سرزمین پر کوئی بھی ہتھیار نصب کرنے کا اختیار رکھتا ہے۔‘‘
نیٹو ممالک کے ردِ عمل کے حوالے سے پیشکوف کا کہنا تھا، ’’روس نے کبھی بھی کسی کو نہیں دھمکایا اور اب بھی ہم ایسا نہیں کر رہے۔ ظاہر ہے ہم اپنے علاقوں میں ہتھیاروں کی تنصیب کا حق رکھتے ہیں لیکن اس عمل سے کسی کو بھی پریشان نہیں ہونا چاہیے۔‘‘
بحیرہ بالٹک کی قریبی ریاستیں تو پہلے ہی روسی میزائلوں کی زد میں ہیں تاہم اب روس کی جانب سے جوہری ہتھیاروں سے حملے کی صلاحیت رکھنے والے اسکندر نامی میزائلوں کی تنصیب ایسے وقت پر کی گئی ہے جب روس کے امریکا اور یورپی یونین سے تعلقات میں تناؤ بڑھ رہا ہے۔
لیتھوانیا کے صدر دالیا گریباؤسکائیتے کا کہنا تھا، ’’اب کی مرتبہ صورت حال اس لیے بھی انتہائی سنجیدہ ہے کیوں کہ کالینن گراڈ میں اسکندر میزائلوں کی تنصیب سے یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے نصف سے زائد کے دارالحکومت ان میزائلوں کی زد میں ہیں۔‘‘
کریملن اس سے پہلے بھی مشرقی یورپی ممالک میں امریکی اینٹی میزائل ڈیفنس سسٹم کی تنصیب کے جواب میں کالینن گراڈ میں میزائلوں کی تنصیب کا عندیہ دے چکا ہے۔ امریکا کا کہنا ہے کہ دفاعی نظام کی تنصیب کا مقصد ایران کی جانب سے کسی ممکنہ میزائل حملے کا تدارک کرنا ہے تاہم روس کا موقف ہے کہ اس دفاعی نظام کی تنصیب روس مخالف اقدامات کا حصہ ہے۔
روس نے حال ہی میں جوہری ہتھیاروں سے متعلق نئی امریکی پالیسی پر شدید تنقید کرتے ہوئے اسے ’اشتعال انگیز‘ اور ’روس مخالف‘ قرار دیا تھا۔ روس نے امریکا کو خبردار بھی کیا تھا کہ وہ اپنا دفاع یقینی بنانے کے لیے تمام تر اقدامات کرے گا۔
ہالینڈ کے فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے گزشتہ دو عشروں کے دوران سرد جنگ کے دور کے بچ جانے والے بنکرز، ٹینکوں، نگرانی اور عسکری تربیت کے مراکز کی بےشمار تصاویر اتاری ہیں۔ ان تصاویر کی نمائش برلن میں جاری ہے۔
تصویر: Martin Roemers
غرق ہونے کے قریب
سرد جنگ کے دور میں تعمیر کیا جانا والا یہ بنکر لیٹویا کے قریب بحیرہ بالٹک میں تعمیر کیا گیا تھا۔ تاہم اب وہ وقت دور نہیں، جب یہ پانی کے نیچے ہو گا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے سے 1989ء میں دیوار برلن کے انہدام تک کا وقت سرد جنگ کا دور کہلاتا ہے۔ اس دوران سابق سوویت یونین اور اس کے حامی کمیونسٹ ممالک کے زیادہ تر مغربی ریاستوں کے ساتھ تعلقات انتہائی کشیدہ تھے۔
تصویر: Martin Roemers
بدترین صورت حال کی تیاری
مشرق اور مغرب، دونوں خطوں میں بنکرز بنائے گئے تھے، میزائل نصب کیے گئے تھے اور نگرانی کے مراکز قائم کیے گئے تھے تاکہ خود کو دشمنوں سے تحفظ فراہم کیا جائے۔ اس تصویر میں موجود یہ ایٹمی بنکر مغربی جرمن فوج نے کسی ممنکہ جوہری جنگ سے بچنے کے لیے لاؤراخ نامی علاقے میں تعمیر کیا تھا۔
تصویر: Martin Roemers
جنگی تربیت
1989ء سے 2009ء تک فوٹوگرافر مارٹن روئمرز نے دس مختلف ممالک میں سرد جنگ کی باقیات کو تلاش کیا۔ اس دوران انہوں نے 73 تصاویر بنائیں، جنہیں چار مارچ سے برلن کے تاریخی میوزیم میں شروع ہونے والی ایک نمائش میں رکھا گیا ہے۔ یہ تصویر سابق سوویت یونین میں ایک فوجی تربیت گاہ کی ہے۔
تصویر: Martin Roemers
نئی سرد جنگ؟
روسی وزیر اعظیم دیمتری میدویدیف نے گزشتہ ماہ میونخ میں سلامتی کے موضوع پر ہونے والی ایک کانفرنس میں ایک ’نئی سرد جنگ‘ کا ذکر کیا تھا۔ تاہم فوٹوگرافر روئمرز کا خیال ہے کہ اس طرح کی کسی دوسری جنگ کا کوئی امکان دکھائی نہیں دیتا۔ تصاویر کے ذریعے جنگ کے دوران تباہ ہونے والی جگہوں اور انسانی المیے کو واضح کرنا ان کا عزم ہے۔
تصویر: Martin Roemers
کئی دہائیوں تک تربیتی مرکز
سابقہ مشرقی جرمن ریاست کا الٹن گرابوو وہ مقام ہے، جہاں سابق سوویت دستوں کو تربیت دی جاتی تھی۔ تاہم اس جگہ کی خاص بات یہ ہے کہ یہاں اس سے قبل جرمن سلطنت سے لے کر نازی دور تک بھی فوجیوں کو عسکری تربیت دی جاتی رہی تھی۔ بظاہر ویران دکھائی دینے والے اس مقام پر آج بھی وفاقی جرمن فوجی مختلف طرح کی تربیتی مشقیں کرتے ہیں۔
تصویر: Martin Roemers
آخر میں روشنی
فوٹوگرافر مارٹن روئمرز کی یہ تصاویر تاریخی نہیں ہیں۔ انہوں نے اس دوران ہر اس جگہ کا دورہ کیا، جہاں سے سرد جنگ کے خاتمے کے بعد فوجیوں کا انخلاء ہوا تھا۔ یہ برطانیہ میں موجود ایک زیر زمین بنکر سے نکلنے کے لیے بنائی گئی ایک سرنگ کی تصویر ہے۔ مارٹن روئمرز کی ان تصاویر کی نمائش رواں برس چودہ اگست تک جاری رہے گی۔