یورپی یونین کی طرز پر’ایشیئن یونین ‘بنانے کا خواب
14 مارچ 2017حکومت پاکستان کے اس اہلکار نے خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ اس سلسلے میں اسلام آباد اجلاس میں تیئس ایشیائی ممالک کے نمائندے شرکت کر رہے ہیں۔ آج منگل 14 مارچ کو سینیٹ کے چیئر مین رضا ربانی نے اس اجلاس سے خطاب کیا۔ اس دوران انہوں نے شرکاء پر زور دیا کہ ایسے اقدامات اٹھائے جائیں، جن کا مقصد یہ یقینی بنانا ہو کہ ایشیا کے مستقبل کا فیصلہ سرمایہ دار مغربی ممالک کے ہاتھوں میں نہ ہو۔
ملکی پارلیمان کے ترجمان رمضان ساجد کے مطابق اس بات چیت کے دوران ہو سکتا ہے کہ ایشیائی پارلیمنٹری اسمبلی بنانے کی بھی تجویز پیش کی جائے۔ اسلام آباد میں ہونے والے اس اجلاس میں بھارت اور افغانستان نے بھی اپنے نمائندے بھیجے ہیں۔ حالانکہ پاکستان کے ساتھ ان دونوں ممالک کے تعلقات آج کل کشیدگی کا شکار ہیں۔
تاہم موجودہ صورتحال میں کئی معاملات ابھی غیر واضح ہیں۔ ان میں سے ایک یہ ہے کہ ممکنہ ’ایشیئن یونین‘ میں ابتدائی طور پر کتنے ممالک کو شامل کیا جائے گا؟ کیونکہ یورپی یونین کے اٹھائیس ارکان ہیں جبکہ یورپی ممالک کی تعداد پچاس سے زائد ہے۔
ایشیائی سطح پر پہلے ہی کئی مختلف قسم کی تنظیمیں بنی ہوئی ہیں۔ ان میں سے ایک آسیان ہے۔ یہ تنظیم دس مکمل اور دو مبصر ارکان پر مشتمل ہے۔ اس کے علاوہ آٹھ رکنی سارک تنظیم ہے جبکہ اسی طرح اقتصادی تعاون تنظیم (ای سی او) ہے، جس میں دس ممالک ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا ایشیئن یونین اسی میں سے کسی تنظیم کو وسعت دے کر بنائی جائے گی یا یہ ان سب سے بالکل الگ تھلگ ہو گی؟
دوسری جانب اگر دیکھا جائے تو یورپی یونین کے تقریباً تمام ہی ارکان کو ترقی یافتہ ممالک شمار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ایشیائی ممالک کی اقتصادی صورتحال ایک دوسرے سے بہت زیادہ مختلف ہے۔ اس براعظم میں ایک جانب سنگاپور ہے، جو اقتصادی طور پر انتہائی مضبوط ہے اور دوسری طرف میانمار جیسے غریب ممالک بھی ہیں۔ اس کے علاوہ ایشیائی ممالک کی روزگار کی منڈی، تعلیم اور اوسط عمرکے شعبوں میں بھی انتہائی فرق پایا جاتا ہے۔
خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق اس کے علاوہ چند ایشیائی ممالک کے مابین شدید قسم کے اختلافات بھی پائے جاتے ہیں۔ انہی تمام امور کو دیکھتے ہوئے ماہرین کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی طرز پر کسی ایشیائی بلاک کی تعمیر کے امکانات معدوم دکھائی دیتے ہیں۔