قبرض میں گیس کی غیرقانونی تلاش کے لیے ڈِرل اور شام میں عسکری آپریشن کی وجہ سے یورپی یونین نے ترکی کو دی جانے والی امدادی رقوم میں کٹوتی کر دی ہے۔
اشتہار
جرمن میڈیا نے ایک سرکاری خط کے متن کے حوالے سے بتایا ہے کہ ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے جاری مذاکراتی عمل کے دوران انقرہ کو دی جانے والی امداد میں 75 فیصد کمی کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یورپی یونین کے خارجہ امور کے کمشنر جوزف بورَل کی طرف سے یہ خط یورپی پارلیمان کو ارسال کیا گیا ہے۔
یورپی یونین کی طرف سے ترکی کو یہ امدادی رقوم وہاں جمہوری اقدار کے فروغ اور قانون کا بول بالا کرنے کی خاطر فراہم کی جا رہی تھی۔ ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت سے قبل انقرہ حکومت نے کچھ شرائط پوری کرنا ہیں اور یہ رقوم اسی تناظر میں خرچ کرنا مقصود تھا۔
برسلز نے البتہ ترکی کو فراہم کی جانے والی ایسی فنڈنگ کو نہیں روکا، جس سے جمہوری فروغ کے منصوبہ جات چلائے جا رہے ہیں۔
یورپی یونین کی طرف سے اس سال اب ترکی کو 168 ملین یورو فراہم کیے جائیں گے، جس میں سے ڈیڑھ سو ملین یورو جمہوری نظام کی مضبوطی اور قانونی تقاضوں کو یقینی بنانے کے لیے خرچ کی جائے گی۔
جوزف بورَل نے اس فیصلے کا دفاع کرتے ہوئے کہا ہے کہ ترکی طرف سے شام میں فوجی کارروائی اور قبرص میں گیس کی تلاش کے لیے ڈرلنگ کے ردعمل کے طور پر ایسا کیا گیا ہے۔
تعطل شدہ مذاکرات
ترکی اور یورپی یونین کے مابین طے پانے والی مہاجرین کی ڈیل کو حتمی شکل دیتے ہوئے سن دو ہزار سولہ میں برسلز نے انقرہ کو یقین دہانی کرائی تھی کہ ترکی کے یورپی یونین میں شمولیت کے لیے جاری تعطل شدہ مذاکرات میں تیزی لائے جائے گی۔
تاہم ترکی میں صدر رجب طیب ایردوآن کی حکومت کے اقدامات کی وجہ سے یہ مذاکراتی عمل ابھی تک تعطل کا شکار ہے۔
بتایا گیا ہے کہ ترکی کے لیے فنڈز کی اس کٹوتی کی وجہ سے انقرہ کو مہاجرین کی ڈیل کے سلسلے میں دی جانے والی 3.5 بلین یورو کی امداد پر کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ اس ڈیل کے تحت ترکی نے یقینی بنانا ہے کہ بذریعہ ترکی مہاجرین یورپ نہ پہنچ سکیں۔
یہ امر اہم ہے کہ یورپی یونین نے ترکی کو خبردار کیا تھا کہ وہ قبرص کے ساحلی علاقوں میں گیس کی تلاش کے لیے غیرقانونی ڈرلنگ نہ کرے۔ تاہم انقرہ حکومت کا کہنا ہے کہ گیس کی تلاش میں ترک زیر انتظام قبرص کی علاقائی حدود کی خلاف ورزی نہیں کی جا رہی ہے۔
ترک لیرا کا بحران ہے کیا؟
ترک کرنسی کی قدر میں کمی ترکی کو قرضوں اور مالی ادائیگیوں کے بحران کی جانب لے جا رہی ہے۔ اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ ترک کرنسی اپنے ان بحرانی حالات تک کیسے پہنچی۔
تصویر: picture-alliance/A.Gocher
ایک واضح تصویر
ترکی میں کرنسی کے بحران کے بعد اقتصادی کرب کی کیفیت پیدا ہے۔ ترک لیرا رواں برس کے آغاز سے اب تک اپنی قدر پینتالیس فیصد گنوا چکی ہے۔ اس کرنسی کے بحران سے دنیا کی اٹھارہویں بڑی اقتصادیات مالی بحران کی دہلیز پر ہے اور یہ نزاعی صورت حال دوسری ابھرتی اقتصادیات اور یورپ تک پھیل سکتی ہے۔
تصویر: Getty Images/C. Mc Grath
خسارا پورا کرنے کے لیے سرمایے کی ضرورت
ترکی کو روایتی طور پر روزمرہ کے اخراجات کے تناظر میں خسارے کا سامنا ہے۔ برآمدات و درآمدات کے درمیان پیدا مالی تفریق کو ختم کرنے کے لیے بیرونی قرضوں کا سہارا لیا جاتا رہا ہے۔ سن 2008 میں امریکا اور یورپ میں پائے جانے والے مالی بحران کے بعد سرمایہ کاروں کو بھاری منافع کے لیے ترکی جیسے ممالک کی ضرورت تھی۔
تصویر: AP
ادھاری شرح پیداوار
بین الاقوامی سرمایے کی قوت پر ترکی کے مالی خسارے کو کم کرنے کے علاوہ بھاری حکومتی اخراجات کو جاری رکھنے اور اداروں کو مالی رقوم کی فراہمی کی گئی۔ قرضوں پر انحصار کرتی شرح پیداوار نے ترک اقتصادیات کو قوت فراہم کی اور حکومت کی مقبولیت میں اضافے کے لیے بڑے تعمیراتی منصوبوں کو فروغ دیا گیا۔ کسی بھی مقام پر اس تیز عمل کو قدرے کم رفتار دینے کی ہمت حکومتی ایوانوں سے سامنے نہیں آئی۔
تصویر: Getty Images/AFP/O. Kose
ابھرتی اقتصادیات کے تشخص میں کمی
سرمایہ کاروں نے حالیہ کچھ عرصے سے بتدریج ابھرتی اقتصادیات کے حامل ملکوں میں سے اپنے سرمایے کو نکالنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ امریکی اقتصادیات میں زورآور ترقی کے بعد امریکا کے مرکزی بینک نے شرح سود میں اضافہ اور آسان مالیاتی پالیسیوں کو ترک کرنا شروع کر دیا۔ اس بنیادی فیصلے سے امریکی ڈالر کی قدر بلند ہوئی اور دوسری جانب ترک لیرا کی قدر گر گئی، اس نے ترک معاشی افزائشی عمل کو بھی روک دیا۔
تصویر: Getty Images/S. Platt
ایردوآن پر عوامی اعتماد میں کمی
ابھرتی اقتصادیات میں ترک کرنسی لیرا کی قدر میں کمی انتہائی زیادہ ہونے پر عالمی معاشی منظر پر نمایاں بھی ہے۔ اس کی بنیادی وجہ سرمایہ کاروں کا ایردوآن حکومت میں اقتصادی بدنظمی خیال کی گئی ہے۔ ایسا کہا جا رہا ہے کہ ایردوآن اقتصادی پالیسیوں میں جدت پر یقین نہیں رکھتے۔
تصویر: Getty Images/AFP/B. Kilic
ٹرمپ کے ٹویٹ نے ہلچل پیدا کر دی
دس اگست کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ترک فولاد اور ایلومینیم پر درآمدی محصولات میں اضافہ کر دیا۔ بظاہر یہ محصولات کم نوعیت کے ہیں لیکن کے اثرات کا حجم بہت وسیع ہے یعنی ایک ارب ڈالر کے قریب ہے۔ اس فیصلے نے ترک اقتصادیات میں دراڑیں ڈال دیں۔ اس کے بعد ٹرمپ نے ٹویٹ کیا کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں ترک لیرا اپنی حیثیت کھو رہا ہے۔
تصویر: Twitter/Trump
دوستی سے دشمنی
امریکی پادری اینڈریو برونسن کی گرفتاری اور جیل میں مقید رکھنے نے ترک امریکی تعلقات کو شدید انداز میں متاثر کیا۔ مغربی دفاعی اتحاد نیٹو کے اتحادیوں کے درمیان اختلاف کی ایک اور وجہ شامی کردوں کی امریکی حمایت بھی ہے۔ دیگر نزاعی معاملات میں انقرہ حکومت کی روس سے میزائل نظام کی خرید اور امریکا کا جلاوطن مبلغ فتح اللہ گولن کو ترکی کے حوالے نہ کرنا بھی اہم ہیں۔
تصویر: Reuters/K. Lemarque
فرد واحد کی حکمرانی
ترک کرنسی لیرا کی قدر میں رواں برس جون کے بعد تیس فیصد کی کمی اور بازارِ حصص میں مالی بحران پیدا ہوا۔ اسی ماہِ جون میں رجب طیب ایردوآن نے مئی کے انتخابات کے بعد انتہائی قوت اور اختیارات کے حامل صدر کا منصب سنبھالا۔ اس مطلق العنانیت نے ترکی کو اپنے یورپی اتحادیوں سے دور کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
تصویر: picture alliance/AP Photo/E. Gurel
ترک صدر کا داماد: البیراک
جون میں منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد رجب طیب ایردوآن نے وزارت مالیات کسی ٹیکنو کریٹ کو دینے کے بجائے اپنے داماد بیرات البیراک کوسونپ دی۔ ترک وزارت مالیات کے دائرہٴ کار و اختیارات میں بھی ایردوآن کے حکم پر اضافہ کیا گیا۔ اس فیصلے نے بھی ترک مرکزی بینک کی آزادی کو محدود کر دیا۔
تصویر: picture-alliance/M. Alkac
’اقتصادی جنگ‘
ترک صدر ایردوآن کے اعتماد میں ملکی کرنسی لیرا کی قدر میں شدید کمی پر بھی کوئی اثر نہیں ہوا۔ انہوں نے اپنی تقاریر میں ترکی کو کمزور کرنے کے اقدامات کو ’اقتصادی جنگ‘ سے تعبیر کیا۔ انٹرنینشل مانیٹری فنڈ سے مدد طلب کرنے یا شرح سود میں اضافہ کرنے جیسے اقدامات کی جگہ وہ زوردار تقاریر پر تکیہ کیے ہوئے ہیں۔