یورپی یونین کی موگیرینی اسٹریٹیجک مکالمت کے لیے پاکستان میں
عبدالستار، اسلام آباد
26 مارچ 2019
پاکستان اور یورپی یونین کے مابین اسٹریٹیجک مکالمت کو خارجہ امور کے کئی ماہرین اسلام آباد کی بڑی سفارتی کامیابی قرار دے رہے ہیں۔ تاہم کچھ تجزیہ نگاروں نے تنبیہ بھی کی ہے کہ ایسی کسی کامیابی کا دعویٰ قبل از وقت ہو گا۔
اشتہار
یورپی یونین کے ایک وفد نے کل پیر پچیس مارچ کو اس بلاک کی خارجہ امور کی سربراہ فیدیریکا موگیرینی کی قیادت میں اسلام آباد میں پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی سے ملاقات کی تھی۔ اسلام آباد میں دفتر خارجہ کے مطابق اس ملاقات میں تجارت، معیشت اور سکیورٹی سمیت کئی امور زیر بحث آئے۔
ماضی میں یورپی یونین اور امریکا دونوں کو ہی پاکستان سے یہ شکایت رہی ہے کہ اسلام آباد افغانستان کے معاملے میں مغربی دنیا سے تعاون نہیں کر رہا اور دہشت گردی کے مسئلے پر بھی دونوں ہی پاکستان کو دوہرے معیار کا حامل ہونے کا طعنہ بھی دیتے تھے۔ اس تنقیدی موقف کو بھارت بھی سیاسی طور پر پاکستان کے خلاف استعمال کرنے کی کوشش کرتا رہا ہے۔
لیکن پاکستان کی طرف سے افغان طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کے عمل میں مدد کو یورپی یونین سمیت تمام بین الاقوامی بلاک اور تنظیمیں مثبت انداز میں دیکھ رہے ہیں۔ اس کا ایک نتیجہ یہ بھی ہے کہ علاقائی سطح پر نئی دہلی کی اسلام آباد کو سفارتی محاذ پر تنہا کر دینے کی کوششیں بھی نا کام ہوتی جا رہی ہیں۔
کتنے پاکستانیوں کو یورپ سے نکال دیا گیا؟
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران کس یورپی ملک نے غیر قانونی طور پر مقیم کتنے پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا اور کتنے پاکستانی شہری اس ملک سے چلے گئے؟ اس بارے میں یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار:
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
برطانیہ
یورپی ملک برطانیہ سے گزشتہ پانچ برسوں کے دوران قریب چالیس ہزار پاکستانی شہری غیر قانونی طور پر مقیم تھے جنہیں انتظامی یا عدالتی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں ستائیس ہزار سے زائد پاکستانی برطانیہ چھوڑ کر واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Kalaene
یونان
یورپی یونین کی بیرونی سرحد پر واقع ملک یونان سے پچھلے پانچ برسوں میں تینتالیس ہزار پاکستانی شہری ایسے تھے جنہیں یونان میں قیام کی قانونی اجازت نہیں تھی اور انہیں ملک چھوڑنے کا حکم دیا گیا تھا۔ اس عرصے میں سولہ ہزار سات سو پاکستانی یونان چھوڑ کر گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/R. Lafabregue
فرانس
فرانس نے جنوری سن 2012 اور دسمبر 2016 کے درمیان غیر قانونی طور پر وہاں موجود ساڑھے گیارہ ہزار پاکستانیوں کو فرانس سے چلے جانے کا حکم دیا۔ اس عرصے میں تاہم 2650 پاکستانی شہری فرانس چھوڑ کر گئے۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Widak
سپین
اسی دورانیے میں اسپین میں حکام یا عدالتوں نے جن پاکستانی باشندوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا ان کی تعداد پونے آٹھ ہزار بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق ان پانچ برسوں میں ساڑھے چھ سو پاکستانی اسپین سے واپس اپنے وطن یا کسی دوسرے غیر یورپی ملک چلے گئے۔
تصویر: dapd
بیلجیئم
بیلجیئم میں حکام نے ان پانچ برسوں میں قریب ساڑھے پانچ ہزار ایسے پاکستانیوں کو اپنی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا، جنہیں بلیجیم میں قانونی طور پر قیام کی اجازت نہیں تھی۔ اس عرصے میں ملک سے چلے جانے والے پاکستانیوں کی تعداد 765 رہی۔
تصویر: Getty Images/AFP/E. Dunand
جرمنی
سن 2012 میں جرمنی میں محض پونے چار سو پاکستانی ایسے تھے جنہیں لازمی طور پر ملک جرمنی سے جانا تھا تاہم سن 2016 میں ایسے افراد کی تعداد چوبیس سو تھی اور ان پانچ برسوں میں مجموعی تعداد پانچ ہزار کے قریب بنتی ہے۔ یورو سٹیٹ کے اعداد و شمار کے مطابق اس دورانیے میں 1050 پاکستانی باشندے عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت جرمنی سے چلے گئے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Thissen
آسٹریا
گزشتہ پانچ برسوں کے دوران آسٹریا سے مجموعی طور پر 3220 پاکستانی باشندوں کو ملکی حدود سے نکل جانے کا حکم دیا گیا تھا اور اس دوران 535 پاکستانی آسٹریا چھوڑ گئے۔
تصویر: Getty Images/AFP/Stringer
ہنگری
ہنگری نے بھی سن 2012 سے لے کر 2016 کے اختتام تک قریب تین ہزار پاکستانیوں کو غیر قانونی طور پر مقیم قرار دے کر ملک چھوڑنے کا حکم دیا، تاہم اس دوران ہنگری کی حدود سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد قریب پندرہ سو رہی۔
تصویر: Jodi Hilton
اٹلی
انہی پانچ برسوں کے دوران اطالوی حکام نے بھی ڈھائی ہزار سے زائد غیر قانونی طور پر وہاں مقیم پاکستانیوں کو ملک چھوڑنے کا حکم دیا۔ یورو سٹیٹ کے مطابق اس عرصے میں اٹلی سے چلے جانے والے پاکستانی شہریوں کی تعداد محض چار سو افراد پر مبنی رہی۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/A. Masiello
یورپ بھر میں مجموعی صورت حال
مجموعی طور پر اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے رکن ممالک میں ایک لاکھ تیس ہزار سے زائد پاکستانی غیر قانونی طور پر مقیم تھے اور انہیں عدالتی یا انتظامی حکم کے تحت ملک چھوڑنے کا حکم دیا تھا۔ مجموعی طور پر 54 ہزار سات سو سے زائد پاکستانی یورپی یونین کے رکن ممالک سے چلے گئے۔
تصویر: picture alliance/dpa/J. Kalaene
10 تصاویر1 | 10
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر شمشاد احمد خان کے خیال میں پاکستان اور یورپی یونین کے مابین اس اسٹریٹیجک ڈائیلاگ سے اسلام آباد کو فائدہ ہوا ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’پہلے امریکا نے پاکستان کے حوالے سے مثبت رویہ اپنایا اور افغانستان میں قیام امن کے لیے کی جانے والی پاکستانی کوششوں کو سراہا۔ چین پہلے ہی سی پیک اور دوسرے امور کے حوالے سے پاکستان کے ساتھ ہے۔ اب یورپی یونین نے بھی اس بات کا اشارہ دے دیا ہے کہ خطے میں پاکستان کی اپنی ہی خاص اہمیت ہے اور اس اہمیت سے انکار نہیں کیا جا سکتا۔‘‘
شمشاد احمد خان کے خیال میں افغانستان کے مسئلے پر پاکستان اور یورپی یونین کے مفادات ایک سے ہوتے جا رہے ہیں اور دونوں ہی اس مسئلے کا پر امن حل چاہتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں اسٹریٹیجک ڈائیلاگ کے بعد اس نوعیت کے معاہدے پانچ برس کے لیے ہوتے تھے، لیکن ’اب یہ معاہدے طویل المدتی ہو سکتے ہیں‘۔
کئی ماہرین کے خیال میں یورپی یونین اس بات کو یقینی بنانا چاہتی ہے کہ افغانستان میں امن مذاکرات کے ساتھ ساتھ وہاں اس بات کی بھی ضمانت دی جا سکے کہ خواتین کے حقوق اور بنیادی انسانی حقوق کی خلاف ورزی نہیں ہوگی اور یہ کہ گزشتہ اٹھارہ برسوں میں وہاں جو اصلاحات متعارف کرائی گئی ہیں، انہیں رائیگاں نہیں جائیں گی۔
پاکستانی طلبہ کا دورہء جرمنی اور یورپ
پاکستان کے مختلف علاقوں سے پوزیشن حاصل کرنے والے 36 طلبہ ان دنوں یورپ کے دورے پر ہیں۔ یہ طلبہ برطانیہ اور سویڈن کے بعد جرمنی پہنچے۔ اس تعلیمی دورہء یورپ کے تمام تر اخراجات حکومت پنجاب برداشت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A. Awan
پوزیشن ہولڈر پاکستانی طلبہ کے لیے اعزاز
پاکستان کے مختلف علاقوں سے پوزیشن حاصل کرنے والے 36 طلبہ ان دنوں یورپ کے دورے پر ہیں۔ یہ طلبہ برطانیہ اور سویڈن کے بعد جرمنی پہنچے۔ اس تعلیمی دورہء یورپ کے تمام تر اخراجات حکومت پنجاب برداشت کر رہی ہے۔
تصویر: DW/A.Ishaq
ذہین اور محنتی طلبہ کی حوصلہ افزائی
پوزیشن ہولڈر طلبہ کو ترقی یافتہ ممالک کے تعلیمی نظام سے واقفیت دلانے اور اعلیٰ تعلیم کے لیے ان ممالک میں داخلے حاصل کرنے سے متعلق مواقع دینے کے لیے پنجاب حکومت کی طرف سے ایسے طلبہ کو بیرون ملک تعلیمی دوروں پر بھیجنے کا سلسلہ 2008ء سے جاری ہے۔
تصویر: DW/A.Ishaq
میرٹ پر منتخب طلباء و طالبات
اس گروپ کے ساتھ حکومت پنجاب کے ڈائریکٹر جنرل پروٹوکول اسجد غنی طاہر کے مطابق یہ ٹیلنٹڈ اسٹوڈنٹس کا گروپ ہے جنہوں نے اپنے بورڈز اور یونیورسٹی میں ٹاپ کیا ہے۔ یہ 36 طلبہ ہیں جو پورے پاکستان سے میرٹ پر اس دورے کے لیے منتخب ہوئے ہیں۔
تصویر: DW/A.Ishaq
دورے کا مقصد یورپی نظام تعلیم سے واقفیت
اس تعلیمی گروپ کی سربراہی گورنمنٹ کالج یونیورسٹی لاہور کے وائس چانسلر پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمان کے مطابق، ’’اس دورے کا مقصد مختلف لیول کے امتحانات میں پوزیشنیں حاصل کرنے والے ان بچوں کو یورپی یونیورسٹیز کا ایکسپوژر دینا ہے تاکہ وہ تعلیمی نظام کو دیکھیں، وہاں مواقع دیکھیں اور وہاں کے اساتذہ سے ملیں، لیبارٹریوں کو دیکھیں اور نوبل انعام یافتگان سے مل سکیں تاکہ ان کا وژن وسیع ہو۔‘‘
تصویر: DW/A.Ishaq
برطانیہ اور سویڈن کے اعلی تعلیمی اداروں کا دورہ
یہ گروپ ایک ماہ کے دورے پر ہے اور جرمنی آنے سے قبل یہ گروپ برطانیہ اور سویڈن کا دورہ کر چکا ہے۔ ان طلبہ نے برطانیہ کی آکسفورڈ، کیمبرج، سرے، ایڈنبرا اور گلاسکو یونیورسٹی کے علاوہ یو سی ایل اور لندن اسکول آف اکنامکس سمیت متعدد معروف یونیورسٹیز کا دورہ کیا جب کہ سویڈن میں اسٹاک ہوم یونیورسٹی، کے ٹی ایچ اور شالمرز یونیورسٹی جیسے معروف تعلیمی اداروں کا دورہ کیا ہے۔
تصویر: DW/A. Awan
دورہ برلن
پاکستانی پوزیشن ہولڈر طلبہ کا یہ گروپ سویڈن سے جرمن دارالحکومت برلن پہنچا جہاں انہوں نے برلن کی ٹیکنیکل یونیورسٹی، فری یونیورسٹی اور پوسٹ ڈیم یونیورسٹی برلن کا دورہ کیا۔ اس گروپ نے برلن میں قائم پاکستانی ایمبیسی کا بھی دورہ کیا۔
تصویر: Embassy of Pakistan
جرمنی میں اعلی تعلیم و تبادلے کے ادارے DAAD کا دورہ
طلبہ کے اس گروپ 25جولائی کو بون یونیورسٹی اور جرمنی میں اعلی تعلیم و تبادلے کے ادارے DAAD کا دورہ کرنے کے لیے بون پہنچا۔ DAAD کے ہیڈکوارٹرز میں ان طلبہ کو جرمنی میں تعلیمی مواقع اور یہاں کے تعلیمی نظام کے بارے میں معلومات کے ساتھ ساتھ یہاں کے لائف اسٹائل اور اسکالر شپس اور فنڈنگ کے مواقعے کے بارے میں تفصیلی معلومات فراہم کی گئیں۔
تصویر: DW/A. Awan
’بہت کچھ سیکھنے کے مواقع‘
اس گروپ میں شریک طلبہ کے مطابق اس دورے میں انہیں بہت کچھ سیکھنے کو مل رہا ہے اور اس سے نہ صرف انہیں یورپی تعلیمی اداروں میں تعلیمی مواقع مل سکتے ہیں بلکہ جو کچھ انہوں نے دیکھا اور سیکھا وہ ایک یادگار تجربہ ہے جو زندگی بھر ان کے کام آئے گا۔
تصویر: DW/A. Awan
اسٹیٹ گیسٹ اور واکنگ ایمبیسڈر
پنجاب حکومت کے ڈی جی پروٹوکول اسجد غنی طاہر کے مطابق، ’’ان طلبہ کو پنجاب حکومت نے اسٹیٹ گیسٹ کا درجہ دیا ہوا ہے۔ 30جون کو لاہور سے جب یہ طلبہ روانہ ہوئے وزیراعلی پنجاب میاں شہباز شریف نے انہیں خود سی آف کیا، انہیں گارڈ آف آنر دیا گیا اور انہیں واکنگ ایمبیسڈر کا درجہ دیا گیا ہے۔‘‘
تصویر: DW/A. Awan
بیرون ملک داخلہ حاصل کرنے والوں کے لیے اسکالر شپ
اسجدغنی کے مطابق گروپ میں شامل یہ طلبہ اگر ان غیر ملکی تعلیمی اداروں میں داخلہ حاصل کرتے ہیں تو ایسی صورت میں پنجاب حکومت ان طلبہ کو اسکالر شپ بھی فراہم کرتی ہے جس کے لیے ایک انڈوومنٹ فنڈ قائم ہے۔
تصویر: DW/A. Awan
یادگاری شیلڈز کا تبادلہ
پاکستانی وفد کے سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محمد خلیق الرحمان نے بون میں DAAD کے ہیڈ آفس کے دورے کے دوران ادارے کو خصوصی یادگاری شیلڈ بھی پیش کی۔
تصویر: DW/A. Awan
11 تصاویر1 | 11
اس بارے میں اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی کے شعبہ بین الاقوامی تعلقات سے وابستہ ڈاکٹر ظفر نواز جسپال کا خیال ہے کہ سر دست تو یورپی یونین طالبان اور امریکا کے درمیان مذاکرات کو کامیاب ہوتا دیکھنا چاہتی ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں اس وقت یورپی یونین انسانی حقوق اور دیگر مسائل پر بات نہیں کرے گی کیونکہ یونین کی کوشش ہے کہ پہلے افغانستان میں امن قائم ہو اور اس کے لیے طالبان اور امریکا کے مابین مذاکرات کامیاب ہوں۔ بظاہر اس کے بعد ہی یورپ انسانی حقوق اور دیگر مسائل پر بات چیت کرے گا۔‘‘
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
پاکستان میں تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کی حکومت اس مکالمت کی کامیابی کو اپنی سفارتی فتح قرار دے رہی ہے اور اس کے خیال میں یورپی وفد کی آمد پاکستان کے اس موقف کی تائید ہے، جس پر وہ کئی برسوں سے قائم ہے۔
پی ٹی آئی کے سینیئر رہنما اسحاق خاکوانی نے ان مذاکرات کے بارے میں ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آئے ہیں کہ افغانستان کا حل سیاسی مذاکرات ہی میں ہے۔ آج یورپی یونین سمیت دنیا کے کئی ادارے اس بات کو تسلیم کر رہے ہیں۔ میرے خیال میں اس دورے سے پاکستان کو سفارتی محاذ پر کامیابی حاصل ہوئی ہے ۔ ہم عالمی طور پر تنہا ہو جانے سے بچ گئے ہیں اور جو ممالک ہمیں تنہا کرنے کی کوشش کر رہے تھے، انہیں منہ کی کھانا پڑی ہے۔‘‘
خاکوانی کا کہنا تھا کہ اس دورے نے یہ بھی ثابت کیا ہے کہ یورپی یونین افغانستان کے حوالے سے پاکستان کے مثبت رویے کی معترف ہے، ’’امریکی تنقید کے باوجود یورپی یونین کے ایسے کسی اعلیٰ وفد کا پاکستان آنا ہمارے لیے بہت مثبت ہے۔ اس سے پاکستان کو نہ صرف اسٹریٹیجک محاذ پر کامیابی ملی ہے بلکہ یورپی وفد کے آنے سے ہماری معیشت اور تجارت کو بھی فائدہ ہو گا۔ آنے والے وقتوں میں ہماری یورپ کے ساتھ تجارت مزید بڑھے گی۔‘‘
تاہم کچھ ناقدین کے خیال میں دہشت گردی اور عسکریت پسندی پر دنیا کو جو تشویش ہے، اسلام آباد کو اس دورے کو اسی تناظرمیں دیکھنا چاہیے۔ پشاور یونیورسٹی کے ایریا اسٹڈی سینٹر کے سابق ڈائریکٹر پروفیسر ڈاکٹر سرفراز خان کے خیال میں پاکستان کو شادیانے بجانے کے بجائے یورپی یونین کی اصل پریشانی دور کرنا چاہیے۔
انہوں نے کہا، ’’یورپی یونین اور مغربی دنیا دہشت گردی اور عسکریت پسندی کے حوالے سے پریشان ہیں اور اس حوالے سے پاکستان سے مدد چاہتے ہیں۔ امریکا کی طرح یورپی یونین کا بھی عالمی مالیاتی اداروں پر بہت اثر و رسوخ ہے۔ یورپی یونین کا وفد یہ دیکھنے آیا ہے کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خلاف کیا اقدامات کیے ہیں۔ کالعدم تنظیموں کے خلاف کیا کارروائی کی گئی ہے۔ سرحد پار حملوں کو روکنے کے لیے کیا کچھ کیا ہے۔ اگر یہ وفد پاکستان کی کارکردگی سے مطمئن نہ ہوا، تو اسلام آباد کے لیے شدید مالی اور سیاسی مشکلات کھڑی ہو سکتی ہیں کیونکہ اس وفد کی رپورٹ کا اثر ایف اے ٹی ایف کے آئندہ اجلاس پر بھی پڑ سکتا ہے اور پاکستان کے آئی ایم ایف کے ساتھ مذاکرات پر بھی۔ لہٰذا ہمیں اس دورے کو بہت سنجیدگی سے لینا چاہیے اور عسکریت پسندی کے حوالے سے مغربی دنیا کی شکایات کا ازالہ کرنا چاہیے۔‘‘
ملالہ کی جدوجہد: نوبل انعام اور دیگر اعزازات
تعلیم کے حق کے لیے جدوجہد کرنے والی پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی اور بھارتی سماجی کارکن کیلاش ستیارتھی نے مشترکہ طور پر نوبل امن انعام وصول کر لیا ہے۔ ملالہ اس سے قبل بھی متعدد بین الاقوامی اعزازات وصول کر چکی ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
نوبل امن انعام اور بہترین لمحات
پاکستان کی ملالہ یوسف زئی اور بھارت کے کیلاش ستیارتھی کو دس دسمبر کو ناروے کے دارالحکومت اوسلو میں مشترکہ طور پر نوبل امن انعام دے دیا گیا۔ اس سے قبل ملالہ اور ستیارتھی نے کہا تھا کہ وہ دونوں پاک بھارت تعلقات میں بہتری کے خواہاں ہیں۔
تصویر: Reuters/S. Plunkett
کم عمر ترین نوبل انعام یافتہ شخصیت
نوبل انعام کی تاریخ میں سترہ سالہ ملالہ یوسف زئی یہ اعزاز حاصل کرنے والی سب سے کم عمر شخصیت بن گئی ہیں۔ نوبل انعامات دینے کا سلسلہ 1901ء میں شروع ہوا تھا۔ ملالہ کو گزشتہ برس بھی اس انعام کے لیے نامزد کیا گیا تھا مگر انہیں اس اعزاز کا حقدار اس سال ٹھہرایا گیا۔ نوبل کمیٹی کے مطابق ملالہ اور ستیارتھی کو یہ انعام بچوں اور نوجوانوں کے حقوق کے لیے آواز بلند کرنے پر دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/epa/C. Poppe
ملالہ کے لیے سخاروف انعام
سولہ سالہ پاکستانی طالبہ ملالہ یوسف زئی کو بدھ بیس نومبر کو شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان نے انسانی حقوق کے سخاروف انعام سے نوازا۔ اُسے یہ انعام لڑکیوں کی تعلیم کے لیے اُس کی اُس جرأت مندانہ جدوجہد کے اعتراف میں دیا گیا ہے، جس کے لیے اُس کی جان بھی داؤ پر لگ گئی تھی۔ 9 اکتوبر 2012ء کو طالبان نے وادیء سوات میں ملالہ کو گولی مار کر شدید زخمی کر دیا تھا۔
تصویر: Reuters
ملالہ یورپی پارلیمان میں
ملالہ یوسف زئی بیس نومبر بدھ کے روز شٹراس برگ میں یورپی پارلیمان کے اسپیکر مارٹن شُلز کے ہاتھوں انسانی حقوق کا انعام ’سخاروف پرائز‘ وصول کر رہی ہے۔ نوبل امن انعام یافتہ روسی منحرف آندرے سخاروف سے موسوم پچاس ہزار یورو مالیت کا یہ انعام یورپی یونین کا اہم ترین اعزاز گردانا جاتا ہے۔
تصویر: Reuters
اعلیٰ قدر و قیمت کا حامل انعام
یورپی پارلیمان سن 1988ء سے سخاروف پرائز دیتی چلی آ رہی ہے۔ یہ انعام ان شخصیات کو دیا جاتا ہے، جنہوں نے انسانی حقوق، اقلیتوں کے تحفظ، بین الاقوامی قانون کی پاسداری اور فکری آزادی کے لیے جدوجہد کی ہو۔ اب تک یہ انعام جنوبی افریقہ کے نیلسن منڈیلا اور میانمار کی آنگ سان سُوچی جیسی شخصیات کے حصے میں آ چکا ہے۔
تصویر: Reuters
عزم و حوصلے کی علامت
ملالہ کے برمنگھم میں کئی آپریشنز ہوئے۔ ہسپتال سے فارغ ہونے کے بعد وہ اسی برطانوی شہر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ قیام پذیر ہے۔ طالبان کی فائرنگ بھی لڑکیوں کے لیے تعلیم کے حق کے سلسلے میں ملالہ کی جدوجہد کو ختم نہیں کر سکی۔ ملالہ کی بڑھتی مقبولیت اور شہرت اُس کے پیغام کو اور زیادہ نمایاں کرتی چلی جا رہی ہے۔
تصویر: Reuters
ایک لڑکی پوری دنیا کے سامنے
اپنی 16 ویں سالگرہ پر ملالہ نے نیویارک میں اقوام متحدہ کے اجلاس سے خطاب کیا۔ اپنی کتاب ’آئی ایم ملالہ‘ میں وہ لکھتی ہے:’’اقوام متحدہ کے بڑے ہال میں کھڑے ہونا اور تقریر کرنا ایک ہراساں کر دینے والا تجربہ تھا لیکن میں جانتی تھی کہ مجھے کیا کہنا ہے۔ میرے سامنے صرف چار سو لوگ بیٹھے تھے لیکن جب میں نے ان کی طرف دیکھا تو یہ تصور کیا کہ میرے سامنے پوری دنیا کے کئی ملین انسان موجود ہیں۔‘‘
تصویر: picture-alliance/dpa
جدوجہد کا اعتراف انعام کی صورت میں
سخاروف پرائز اُن بہت سے اعزازات میں سے تازہ ترین ہے، جن سے ملالہ کو گزرے مہینوں میں نوازا گیا ہے۔ ابھی اکتوبر کے اوائل میں اس لڑکی کو حقوقِ انسانی کے لیے سرگرم برطانوی تنظیم "RAW in War" کا آنا پولٹ کوفسکایا انعام دیا گیا تھا۔ ایمنسٹی انٹرنیشنل نے اُسے ’ضمیر کی پیامبر‘ کا خطاب دیا۔
تصویر: Reuters
مستقبل کے بڑے منصوبے
ملالہ کی خواہش ہے کہ وہ ایک روز واپس اپنے وطن پاکستان جائے۔ پاکستان میں ملالہ سیاست میں جانا چاہتی ہے اور ہو سکے تو وزیر اعظم بننا چاہتی ہے۔ اپنی اس خواہش کا اظہار ملالہ نےاپنے ایک انٹرویو کے دوران کیا ہے۔