فرانس کے سیاست دان صحت اور سماجی فلاح و بہود کی فنڈنگ کے لیے مالیاتی لین دین میں ٹیکس عائد کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس سے قبل بھی اس طرح کا مطالبہ ہوتا رہا ہے تاہم اس پر آج تک کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
تصویر: Francisco Seco/AP/picture alliance
اشتہار
یورپی یونین کی پارلیمان میں فرانس کے رکن پیرے لیروتو نے محکمہ صحت اور سماجی فلاح و بہود کے معاملات کے لیے بہتر اور زیادہ رقم مختص کرنے کے مقصد سے بدھ کے روز سے بھوک ہڑتال شروع کی ہے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے اے ایف پی سے بات چیت میں کہا، ''میں بغیر کھائے پیئے دن اور رات پارلیمان کے اندر ہی گزاروں گا۔''
اپنی ایک ٹویٹ میں فرانسیسی سیاست داں نے کہا کہ وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور فرانس کے صدر ایمانوئل میکروں پر دباؤ ڈالنے کی کوشش کر رہے ہیں اور، ''ان کا مقصد مرنا نہیں بلکہ لاکھوں لوگوں کو موت سے بچانا ہے۔''
انہوں نے اپنی ٹویٹ میں ماحولیات اور روزگار سے متعلق 'کلائمیٹ اینڈ جابز' ویب سائٹ کا ایک لنک بھی شیئر کیا ہے۔ اس میں مالیاتی لین دین سے متعلق اضافی ٹیکس نافذ کرنے کی بات کہی گئی ہے تاکہ یورپی یونین اس اضافی آمدن کی مدد سے ماحولیات کے تحفظ اور صحت سے متعلق اپنے تمام اہداف کو پایہ تکمیل تک پہنچا سکے۔
یورپی یونین کے رکن ممالک کا ’گولڈن پاسپورٹ‘
01:57
This browser does not support the video element.
یورپی یونین کی پارلیمان میں فرانس کے رکن پیرے لیروتو 'نیو ڈیل' نامی سیاسی جماعت کے سربراہ بھی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ '' یہ سننا کسی فحش بات سے کم نہیں کہ صحت، آب و ہوا اور روزگار کے لیے پیسہ نہیں ہے جبکہ مالیاتی منڈیوں نے اس سے پہلے کبھی بھی اتنا اچھا کام بھی نہیں کیا۔''
ان کا کہنا ہے کہ اگر مالیاتی لین دین سے متعلق یہ مجوزہ اضافی ٹیکس عائد کر دیا جائے تو کورونا وائرس کی وبا کے دوران معاشی مندی سے ابھرنے کے لیے اربوں ڈالر کا جو قرض لیا گیا ہے اس کی ادائیگی میں بھی آسانی ہوگی۔
یورپی یونین میں شامل ممالک کی حکومتوں کے سربراہان نے مالی لین دین سے متعلق اسی طرح کے ایک اضافی ٹیکس پر پہلے بھی اتفاق کیا تھا تاہم اس کا نفاذ کب سے کیا جائیگا اس پر کوئی فیصلہ نہیں ہوا تھا۔ اس طرح کے اضافی ٹیکس سے متعلق گزشتہ کئی برسوں سے رکن ممالک میں بات چیت بھی جاری ہے تاہم اب تک اس سمت میں کوئی واضح پیش رفت نہیں ہوسکی ہے۔
ص ز/ ج ا (ایایف پی، ڈی پی اے)
یورپی یونین میں کونسا ملک کب شامل ہوا؟
سن 1957ء میں مغربی یورپ کے صرف چھ ممالک یورپی یونین میں شامل تھے۔ اس کے بعد مزید 22 ممالک اس بلاک میں شامل ہوئے۔ ڈی ڈبلیو کی طرف سے یورپی یونین کے ماضی اور حال پر ایک نظر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Diezins
سن1957ء: نئے یورپ کی بنیاد
جرمنی، فرانس، اٹلی، بیلجیم، ہالینڈ اور لکسمبرگ نے پچیس مارچ 1957ء کو یورپی یونین کی بنیاد رکھتے ہوئے روم معاہدے پر دستخط کیے۔ یورپین اکنامک کمیونٹی ( ای سی سی) نے اندرونی اور بیرونی تجارت کو وسعت دینے کا عہد کیا۔ اس وقت ای سی سی اور یورپ کی دو دیگر تنظیموں کے اتحاد کو یورپین کمیونیٹیز (ای سی) کا نام دیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/AP Images
سن 1973ء: برطانیہ، آئرلینڈ اور ڈنمارک
برطانیہ شروع میں تو یورپی یونین کا حصہ بننے سے گریز کرتا رہا لیکن ساٹھ کی دہائی میں اس نے اپنے ارادے تبدیل کرنا شروع کر دیے تھے۔ فرانس کی شدید مخالفت کی وجہ سے شمولیت کے لیے اس کی پہلی دو کوششیں ناکام رہی تھیں۔ لیکن 1973ء میں برطانیہ کے ساتھ ساتھ آئرلینڈ اور ڈنمارک بھی اس بلاک کا حصہ بن گئے۔ تاہم برطانوی عوام نے اس کی منظوری 1975ء میں ایک ریفرنڈم کے ذریعے دی۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/M. Lipchitz
سن1981ء: یونان
چھ سالہ مذاکرات کے بعد یونان ای سی کا دسواں رکن ملک بن گیا۔ سن 1974ء میں فوجی ڈکٹیٹر شپ کے خاتمے کے بعد ہی یونان نے اس بلاک میں شمولیت کی درخواست دے دی تھی۔ یونان کی اس یونین میں شمولیت متنازعہ تھی کیوں کہ یہ ملک غریب تھا اور باقی ملکوں کو اس حوالے سے تحفظات تھے۔
تصویر: Getty Images/C. Furlong
سن 1986ء: اسپین اور پرتگال
یونان کے پانچ برس بعد اسپین اور پرتگال بھی یونین میں شامل ہو گئے۔ ان کی حالت بھی یونان کی طرح ہی تھی اور یہ بھی جمہوریت کے دور میں نئے نئے داخل ہوئے تھے۔ اسپین میں جمہوری تبدیلی سابق ڈکٹیٹر فرنسیسکو فرانکو کی 1975ء میں وفات کے بعد آئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/G. Silva
سن 1995ء: آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ
سن انیس سو بانوے میں ای سی بلاک کے رکن ممالک نے ایک نئے معاہدے پر دستخط کیے اور موجودہ دور کی یورپی یونین (ای یو) کی شکل سامنے آئی۔ اس کے بعد سب سے پہلے اس تنظیم میں آسٹریا، سویڈن اور فن لینڈ شامل ہوئے۔ یہ تمام رکن ممالک سرد جنگ کے دوران سرکاری طور پر غیرجانبدار تھے اور نیٹو کے رکن بھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/L. Bry
سن2004ء: 10 مشرقی یورپی ممالک
یہ یورپی یونین میں سب سے بڑی وسعت تھی۔ ایک ساتھ دس ممالک یورپی یونین کا حصہ بنے۔ ان ممالک میں چیک ریپبلک، ایسٹونیا، قبرص، لیٹویا، لیتھوانیا، ہنگری، مالٹا، پولینڈ، سلوواکیا اور سلووینیا شامل تھے۔ دو عشرے قبل کمیونزم کے زوال کے بعد ان تمام ممالک کے لیے جمہوریت نئی تھی۔
تصویر: picture-alliance/dpa
سن 2007ء: رومانیہ اور بلغاریہ
رومانیہ اور بلغاریہ نے یورپی یونین میں شمولیت کا منصوبہ سن دو ہزار چار میں بنایا تھا۔ لیکن عدالتی اور سیاسی اصلاحات میں تاخیر کی وجہ سے انہیں اس بلاک میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔ ان دونوں ملکوں کو غریب اور بدعنوان ترین قرار دیا جاتا تھا لیکن بعد ازاں اصلاحات کے بعد انہیں بھی یورپی یونین میں شامل کر لیا گیا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/V. Donev
سن 2013ء: کروشیا
یورپی یونین کو آخری وسعت کروشیا کو اس بلاک میں شامل کرتے ہوئے دی گئی۔ سلووینیا کے بعد یہ دوسرا چھوٹا ترین ملک تھا، جو نوے کی دہائی میں یوگوسلاویا کی خونریز جنگ کے بعد یورپی یونین کا حصہ بنا۔ مونٹی نیگرو اور سربیا بھی یوگوسلاویا کا حصہ تھے اور یہ بھی یونین میں شمولیت کے لیے مذاکرات کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اسی طرح مقدونیا اور البانیا کی قسمت کا فیصلہ بھی جلد ہی کیا جائے گا۔