یورپی یونین کے ساتھ آزادانہ تجارت کا معاہدہ بھارتی معیشت کے لیے خطرہ
16 دسمبر 2011غیر سرکاری تنظیموں کے مطابق اگر دونوں فریقوں کے درمیان معاہدہ کامیابی سے طے پا جاتا ہے تو یہ عالمی تجارتی تنظیم کے قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کے مترادف ہو گا۔ ان کی تحقیقات کے مطابق اس مجوزہ معاہدے سے بھارت کی آبادی کے ایک بڑے حصے کی خوراک کی ضروریات متاثر ہو سکتی ہیں جبکہ ڈیری اور پولٹری کے شعبے پر انحصار کرنے والے افراد بری طرح متاثر ہوں گے۔
مزید یہ کہ آزاد تجارتی معاہدے کی زیرو ٹیرف والی شق پر عملدر آمد بھارت میں ریٹیل کے شعبے کو تباہی سے دوچار کر دے گی اور چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے افراد بڑی کارپوریٹ کمپنیوں کے مقابلے میں عدم تحفظ کا شکار ہو جائیں گے۔
بھارت اور یورپی یونین کے درمیان 2007ء سے اس حوالے سے مذاکرات جاری ہیں اور آئندہ برس تک معاہدہ طے پا جانا متوقع ہے۔
معروف بین الاقوامی سماجی ادارے تھرڈ ورلڈ تنظیم کے سینئر مبصر رانجھا سین گپتا نے خبر رساں ادارے آئی پی ایس کو بتایا کہ یورپی یونین بھارت پر زور دے رہی ہے کہ زرعی اور صنعتی مصنوعات سمیت دیگر کم از کم 92 فیصد برآمدات پر ٹیرف ختم کر دیا جائے۔ ان کا کہنا تھا کہ بھارت کی 60 فیصد بین الاقوامی تجارت یورپی یونین کے ساتھ ہوتی ہے اور اگر اس پر عملدر آمد کیا گیا تو اس سے اب تک محفوظ ترین تصور کیا جانے والا زرعی شعبہ بری طرح متاثر ہو گا۔ سین گپتا کا مزید کہنا تھا کہ اسی طرح ڈیری اور پولٹری کے شعبوں سے بھی بڑی تعداد میں چھوٹے کاشتکاروں کا روزگار وابستہ ہے۔
ماہرین اس مجوزہ معاہدے کے ریٹیل کے شعبے پر پڑنے والے اثرات پر بھی تشویش کا اظہار کر رہے ہیں۔ بھارت میں زرعی شعبے کے بعد لوگوں کے لیے روزگار کی فراہمی کا دوسرا بڑا ذریعہ ریٹیل کا شعبہ ہے۔ اس شعبے میں چھوٹے دکاندار پہلے ہی سے منافع میں کمی کی شکایت کرتے نظر آتے ہیں۔ بھارت میں مقامی بڑے اسٹورز کی آمد کے بعد چھوٹے پیمانے پر کاروبار کرنے والے قریب 15 فیصد افراد کو منافع میں کمی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ اس طرح ان بڑے اسٹورز کے نزدیکی علاقوں میں سالانہ 4.2 فیصد افراد کو کاروبار کی بندش کا سامنا ہے۔
بھارت کے مقامی اسٹورز کسی بھی اعتبار سے عالمی بڑے اسٹورز کا مقابلہ نہیں کر سکتے۔ عالمی شہرت کے حامل ادارے کورفو نے بھارت میں سرمایہ کاری کی اجازت ملنے کے بعد اٹھارہ لاکھ افراد کو روزگار کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے تاہم غیر سرکاری اداروں کی تحقیق کے مطابق ایف ٹی اے کے اثرات کے مقابلے میں یہ اعداد و شمار غیر حقیقی لگتے ہیں۔
رپورٹ: شاہد افراز خان
ادارت: حماد کیانی