1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

یورپی ممالک ذہنی مریضوں کے علاج کی فراہمی میں ناکام

14 مارچ 2021

طویل انتظار، بہت زیادہ فیس اور بیوروکریسی: یورپی یونین کے رکن کئی ممالک میں صحت عامہ کے شعبے میں نفسیاتی علاج کی سہولیات ان لوگوں کے لیے ناکافی یا پھر ناقابل رسائی ہیں، جنہیں ان کی زیادہ ضرورت ہوتی ہے۔

Symbolfoto Junge von Mutter gefangen gehalten
تصویر: Blend Images/Bildagentur-online/picture-alliance

  یورپی یونین کے ممالک میں ہر 25 میں سے ایک شخص کے ڈپریشن کے عارضے میں مبتلا ہونے کی تشخیص ہوئی ہے۔ ہر 20 شہریوں میں سے ایک کو ذہنی الجھنوں یا اضطرابی کیفیت کا سامنا ہے۔ اس کے باوجود ان ممالک کے ہیلتھ کیئر سسٹم اس قسم کے ذہنی عارضوں کا مؤثرعلاج فراہم کرنے سے قاصر ہیں۔ اس بارے میں یورپی ڈیٹا جرنلزم نیٹ ورک اور ایک ہسپانوی نیوز ایجنسی نے اعداد و شمار کے ساتھ تجزیاتی مواد شائع کیا ہے۔

چارٹ

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ یورپی یونین میں شامل ممالک کے تمام ایسے افراد جو ذہنی صحت کے مسائل سے دو چار ہیں اور جنہیں علاج کی ضرورت ہے، انہیں علاج میسر نہیں بلکہ اکثر کا معائنہ نہیں ہوا اور ان کے مرض کی تشخیص تک نہیں ہوئی۔ یورپی کمیشن کی مالی اعانت سے تیار کردہ 2017 کی ایک رپورٹ سے انکشاف ہوا کہ گرچہ یورپی ممالک میں ذہنی علاج کی سہولیات موجود ہیں، تاہم شدید ڈپریشن کے قریب 56 فیصد مریضوں کو علاج کی سہولیات فراہم نہیں کی جاتیں۔

اطالوی جزیرے پر زخموں پر مرہم رکھنے والا ’مہاجر ڈاکٹر‘

یورپی یونین کے پرانے رکن ممالک اور اس اتحاد میں شامل ہونے والے نئے یورپی ممالک کے مابین  ایک بہت بڑا فرق بھی موجود ہے۔ مثال کے طور پر پولینڈ اور رومانیہ میں ڈپریشن اور اضطراب جیسے ذہنی عارضے میں مبتلا مریضوں کی تعداد دیگر رکن ممالک کے مقابلے میں سب سے کم ہے۔

یورپی نوجوانوں میں ذہنی امراض تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔تصویر: picture-alliance/ImageBROKER/S. Arendt

 

اہم ترین مسائل

'مینٹل ہیلتھ یورپ‘ نامی ایک غیر سرکاری تنظیم، جو یورپی یونین کی تنظیموں کو ہیلتھ پالیسی کے معاملات میں مشورے دیتی ہے، کی ترجمان مارسن روڈنسکا اس بارے میں کہتی ہیں، ''یہاں تین اہم ترین مسائل پائے جاتے ہیں، بدنامی کا ڈر، انتظار کے اوقات اور فیس۔‘‘ اس امر کی تصدیق یورپی کمیشن کی 2017 ء کی رپورٹ سے بھی ہوئی۔

رومانیہ میں ایک ماہر نفسیات سے مشاورت کرنے والی خاتون ماریا کہتی ہیں، ''کسی ماہر نفسیات کے پاس جانا اور اس سے مشاورت کے عمل کو بدنامی کے خوف اور شرم کا باعث سمجھا جاتا ہے۔‘‘ وہ کہتی ہیں کہ اس بارے میں کوئی کھل کر بات نہیں کرتا۔ کوئی بھی خود پر'خبطی یا پاگل‘ ہونے کا لیبل نہیں لگوانا چاہتا۔

سرطان کا جدید علاج بھی نہیں اور پیسے بھی زیادہ

تاہم 2016 ء میں کیے گئے ایک جائزے کے مطابق اگر لوگ بدنامی کے خوف پر قابو پا بھی لیں، تب بھی ذہنی علاج میں شہریوں کو رکاوٹوں کا سامنا ہو سکتا ہے۔ اس حوالے سے ایسے شواہد ملے ہیں جن سے پتا چلا ہے کہ عالمی سطح پر تو تحفط صحت عامہ کی سہولت مہیا کرنے اور زیادہ فی کس آمدنی والے ممالک میں بھی شہریوں کی ذہنی صحت کے تحفظ کے نظام تک رسائی غیر اطمینان بخش ہو سکتی ہے۔

کھلے دروازے بمقابلہ پوشیدہ انتظار

برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی کی طرف سے کرائی جانے والی چھان بین سے بھی پتا چلا ہے کہ برطانیہ میں بھی شہریوں کو ذہنی علاج کی سہولیات کے ضمن میں اسی طرح کی پریشانیوں کا سامنا ہے۔ ماہرین کے ساتھ محض پہلی ملاقات کی فیس بھی مریض خود ادا کرتا ہے، جو بعد ازاں ہیلتھ کیئر سروسز مریض کو لوٹا دیتی ہیں۔ ماہر نفسیات کے ساتھ دوسری اور مستقبل کی مزید ملاقاتوں کے لیے  اپائنٹمنٹ چھ ہفتوں سے پہلے نہیں ملتی۔

علیل ملکی معیشت کے سامنے زندگی ہارتے ہوئے یونانی

ذہنی مرض کا بروقت علاج نہ ہو تو لوگ خود کشیوں پر اتر آتے ہیں۔تصویر: Imago-Images/Westend61/J. Tepass

اس کے برعکس یورپی ملک اٹلی کے شمال مشرقی شہر میں 'اوپن ڈور پالیسی‘ کے تحت ہر کسی کے لیے 24 گھنٹے بغیر کسی اپائنٹمنٹ کے علاج کے لیے کلینک کھلے رہتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ کہ وہاں ہسپتال میں داخلے کی شرح میں واضح کمی، مریضوں کو علاج کے لیے ماہرین سے ملنے کے طویل انتظار میں بھی واضح کمی اور سب سے بڑھ کر یہ کہ وہاں خود کشیوں کی شرح میں بھی بہت کمی ہوئی ہے۔

بہت دیر سے ملنے والا حل

تھیراپی سرکاری طور پر مفت میسر ہونے کے باوجود اس تک رسائی ممکن نہیں۔ یورپی یونین کے کم از کم سات رکن ممالک میں ماہرین نفسیات سے ملاقات کے لیے مریضوں کو کم از کم بھی ایک ماہ تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔

جرمنی جیسے ملک میں جہاں ہیلتھ کیئر ورکرز یا صحت کی نگہداشت کرنے والے عملے کے اراکین اور مریضوں کی تعداد کا تناسب بہترین ہے، یہاں بھی مریضوں کو چار سے پانچ ماہ تک کا انتظار کرنا ہی پڑتا ہے۔

فابیان شمٹ (ک م / م م)

اس موضوع سے متعلق مزید سیکشن پر جائیں

اس موضوع سے متعلق مزید

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں