1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
مہاجرتیورپ

یورپی یونین میں مہاجرین کو ملک بدر کرنے کی جلدی کیوں ہے؟

12 دسمبر 2025

نئی اصلاحات کے تحت تارکین وطن کو بیرون ملک 'واپسی کے مراکز' میں بھیجا جا سکتا ہے، تاہم انسانی حقوق کے علم برادر ادارے ان اقدام پر نکتہ چینی کر رہے ہیں۔

سمندر میں پھنسے پناہ گزین
یورپی یونین کے ممالک نے پابندی والے ہجرت سے متعلق ایسے قوانین کو بھی نافذ کیا ہے، جس سے پناہ گزینوں کو تیزی سے حراست میں لینے اور ملک بدر کرنے کو آسان بنایا جا سکے تصویر: Judith_Buethe

اگر آپ واشنگٹن کی تازہ ترین سیکورٹی حکمت عملی کو پڑھیں، تو اس میں تارکین وطن سے متعلق یورپی یونین کی پالیسیوں پر تنقید کی گئی ہے اور وہ یہ دعوی بھی کرتی ہے کہ براعظم کو اپنی "تہذیب کے مٹنے کا سامنا ہے"۔ اسے پڑھ کر آپ کو لگتا ہے کہ یورپی یونین نے اپنی سرحدوں کو کھلا چھوڑ رکھا ہے۔

حالانکہ حقیقت میں یورپی یونین کے اندر بے قاعدہ ہجرت کم ہو رہی ہے اور یورپی یونین کے ممالک نے اب تک کے اپنے سب سے زیادہ پابندی والے ہجرت سے متعلق ایسے قوانین کو بھی نافذ کیا ہے، جس سے پناہ گزینوں کو تیزی سے حراست میں لینے اور پھر انہیں ملک بدر کرنے کو آسان بنایا جا سکے۔

ڈنمارک کے امیگریشن وزیر راسموس اسٹوکلینڈ نے کہا کہ نئی اصلاحات سے یورپی یونین کے "غیر فعال" نظام کو ٹھیک کرنے اور "کنٹرول" کا احساس بحال کرنے میں مدد ملے گی۔

لیکن ایسے اقدام پر انسانی حقوق کے نگراں اداروں کی طرف سے بھی سخت تنقید کی گئی ہے۔ ایمنسٹی نے یورپی یونین پر الزام لگایا ہے کہ وہ بھی "امریکہ میں خوفناک، غیر انسانی اور غیر قانونی طریقے سے بڑے پیمانے پر گرفتاریوں، حراست اور ملک بدری" کی آئینہ دار ہے۔

تارکین وطن کو بیرون ملک قائم حراستی مراکز میں بھیجنا

پیر کے روز یورپی یونین کے داخلہ امور کے وزراء کی حمایت یافتہ اصلاحات کے تحت نام نہاد "واپسی کے مرکز" کے خیال پر بھی مہر لگا دی گئی ہے۔ اس کا مطلب تارکین وطن کو یورپی یونین سے باہر ایسے حراستی مراکز میں رکھنا ہے، جہاں ان کے پناہ کے دعووں پر کارروائی ہونے تک رکنے کو کہا جاتا ہے، تاہم اسے یورپ سے باہر کرنے کو یک طرفہ ٹکٹ کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

یورپی یونین کے داخلہ امور کے وزراء کی حمایت یافتہ اصلاحات کے تحت نام نہاد "واپسی کے مرکز" کے خیال پر بھی مہر لگا دی گئی ہے تصویر: Christine Bayer/DW

ان اصول و ضوابط کو دوبارہ لکھنے کی ضرورت ہے، جس پر ابھی بھی یورپی پارلیمنٹ کے ساتھ گفت و شنید ہونی باقی ہے۔ تاہم اس کی رو سے یورپی یونین کی حکومتوں کو انفرادی طور پر بلاک کی سرحدوں سے باہر کی ریاستوں کے ساتھ معاہدے کرنے اور تارکین وطن کو وہاں بھیجنے کی اجازت ہو گی، چاہے ان کا اس ملک سے کوئی تعلق تک نہ ہو۔

ڈنمارک نے 2021 میں تارکین وطن کو روانڈا واپس بھیجنے کے طریقوں پر غور کرنا شروع کیا تھا، تاہم عملی طور پر اسے آزمانے والا پہلا یورپی یونین کا رکن اٹلی تھا۔ اس نے پچھلے سال اپنے غیر یورپی یونین کے پڑوسی البانیہ میں ایسے مراکز قائم کیے تھے، تاہم روم کے ایسے مرکز کو قانونی طور پر چیلنج کیا گيا، جس کے وجہ سے اس پر ابھی تک عمل نہیں کیا جا سکا۔ 

اٹلی کے وزیر داخلہ نے پیر کے روز کہا کہ وزراء کے درمیان ہونے والے معاہدے سے البانیہ میں قائم کیے گئے مراکز یورپی یونین کی واپسی کے مرکز کی حقیقی پہلی مثال بننے کے لیے تیار ہیں۔

لیکن ہجرت کی پالیسی کی تجزیہ کار ہیلینا ہان نے کہا کہ "فیصلہ ابھی باقی ہے" کہ واپسی کے ایسے مرکز اٹلی کے ماڈل سے مختلف کیسے ہوں گے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ کون سی غیر یورپی یونین ریاستیں یورپ جانے والے تارکین وطن کی میزبانی کے لیے تیار ہوں گی۔

ذمہ داری سے گریز؟

ہیومن رائٹس واچ اور آکسفیم سمیت انسانی حقوق کی تنظیموں نے ماضی میں اس طرح کی پناہ گزینوں کی پراسیسنگ کو آؤٹ سورس کرنے کی کوشش کو "ذمہ داری سے گریز" بتاتے ہوئے یورپی یونین پر تنقید کی۔

گزشتہ برس ایسے درجنوں اداروں نے کہا تھا، "یورپی یونین اپنی ذمہ داریوں کو ان ممالک پر دھکیلنے کی کوشش کر رہی ہے جو پہلے ہی بہت کم وسائل کے ساتھ مہاجرین کی اکثریت کی میزبانی کر رہے ہیں۔"

ان کے بیان میں اس بات پر اصرار کیا گیا کہ تارکین وطن کے حقوق کو برقرار رکھنے کے یورپی یونین کے وعدے "خالی الفاظ" تھے۔

یورپی یونین کی ریاستوں نے ملک بدری کو تیز تر کرنے کے لیے تیار کی گئی نئی تجاویز کی بھی حمایت کی ہے، جس پر پارلیمان کو حتمی فیصلہ کرنا ہےتصویر: Dursun Aydemir/Anadolu Agency/IMAGO

البتہ ڈنمارک نے پیر کو ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے صحافیوں کو بتایا کہ اگر "ہم کسی کو واپسی کے مرکز میں بھیجتے ہیں تو ہم ان کے انسانی حقوق کا احترام کرنے کے ذمہ دار ہوں گے۔"

محفوظ ممالک کے نام سے ملک بدری میں تیزی

یورپی یونین کی ریاستوں نے ملک بدری کو تیز تر کرنے کے لیے تیار کی گئی نئی تجاویز کی بھی حمایت کی ہے، جس میں ایسے تارکین وطن کے لیے سخت سزاؤں کی بات کہی گئی ہے، جو اخراج کے احکامات کو نظر انداز کرتے ہیں۔

وزراء نے "محفوظ" ممالک کی مرکزی فہرست کو بھی منظور کر لیا ہے اور وہ اسے اپنے فیصلوں میں جلدی  کرنے   اور ان لوگوں کو پناہ دینے سے انکار کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں، جن کو پناہ ملنے کا امکان کم ہے۔

مثال کے طور پر گزشتہ سال یورپی یونین میں پناہ حاصل کرنے والے بنگلہ دیشیوں میں سے صرف چار فیصد کو ہی قبول کیا گیا اور برسلز نے بنگلہ دیش کو محفوظ سمجھے جانے والے ممالک کی فہرست میں سرفہرست کر دیا۔ اس فہرست میں شامل دیگر ریاستوں میں بھارت، کولمبیا، مصر، مراکش اور تیونس بھی شامل ہیں۔

وزراء نے اتفاق کیا ہے کہ یورپی یونین کی رکنیت کی امیدوار ریاستیں جیسے مونٹی نیگرو، مالڈووا یا سربیا کو بھی محفوظ تصور کیا جانا چاہیے۔

تارکین وطن کو منتقل کریں ورنہ اس کی قیمت چکائیں

یورپی یونین کی ریاستوں نے ایک ایسے منصوبے کو حتمی شکل دی ہے، جسے تجزیہ کار ہیلینا ہان مزید پابندیوں کے رجحان سے تعبیر کرتی ہیں۔

نام نہاد "یکجہتی پول" کے تحت یہ دیکھا جائے گا کہ یورپ کے شمال اور مشرقی رکن ممالک، جہاں بیشتر پناہ کے متلاشی پہنچتے ہیں، جنوبی ریاستوں سے زیادہ تارکین وطن کو قبول کریں گے یا پھر وہ قبرص، اسپین، اٹلی یا یونان جیسے ممالک کی مدد کے لیے فنڈنگ مہیا کریں گے۔

یورپی یونین کے بیشتر شہری بے قاعدہ امیگریشن کو اپنے اولین خدشات میں سے ایک قرار دیتے ہیںتصویر: Mani Albrecht/U.S. Customs and Border Protection/UPI/Newscom/picture alliance

ہان اسے "رکن ممالک کے درمیان پناہ کے متلاشیوں پر ذمہ داری کے اشتراک کو منظم کرنے اور مربوط کرنے کے طریقہ کار" کے طور پر بیان کرتی ہے  اور وہ سمجھتی ہیں کہ یہ ایک "بڑا قدم" ہے۔

ان کا کہنا ہے، "مناسب طریقے سے یورپ بھر میں پناہ گزینوں کی نقل مکانی، کوٹہ اور تقسیم سے متعلق سوالات ہمیشہ سے رہے ہیں، ۔۔۔۔ ایک اہم سیاسی سوال یہ ہے کہ عام یورپی سیاسی پناہ کے نظام کے نفاذ اور کام کو موثر کیسے بنایا جائے۔"

ووٹرز کے خدشات اور دائیں بازو کا رجحان

یورپی یونین کے شہری اکثر بے قاعدہ امیگریشن کو اپنے اولین خدشات میں سے ایک قرار دیتے ہیں۔ رواں برس کے اوائل کے سروے کے اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ یوکرین میں روس کی جنگ کے بعد یورپی یونین کو درپیش سب سے بڑے چیلنجز کی فہرست میں تارکین وطن دوسرے نمبر ہے۔ یعنی یہ مسئلہ زندگی کے اخراجات، موسمیاتی تبدیلی، اور سیکورٹی اور دفاعی مسائل سے بھی آگے ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی جماعتیں تارکین وطن مخالف ایجنڈے پر توجہ مرکوز  رکھے ہوئے  ہیں اور اس طرح ایسی جماعتیں یورپی یونین کے متعدد ممالک میں مقبولیت حاصل کر رہی ہیں۔

صلاح الدین زین  (روزی برشارڈ)

ادارت: شکور رحیم

جرمنی کی بدلتی ہوئی امیگریشن پالیسی، کئی خاندان بے یقینی کا شکار

03:34

This browser does not support the video element.

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی ٹاپ اسٹوری

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں