یورپی پارلیمنٹ اور یورپی یونین کے رکن ملکوں کے درمیان 'ڈیجیٹل کووڈ سرٹیفیکیٹ‘ پر اتفاق ہو گیا ہے۔ اس سے سفر کو آسان بنانے اور موسم گرما کے سیاحتی سیزن کو بحال کرنے میں مدد ملے گی۔
اشتہار
یورپی یونین کے قانون ساز اور رکن ممالک جمعرات کو ایک معاہدے پر متفق ہو گئے جس کے تحت یونین کے کسی بھی رکن ملک کے کسی بھی شخص کو کورونا ویکسینشن سرٹیفیکیٹ، کووڈ ٹسٹ کے نتائج یا انفیکشن سے صحت یاب ہونے کا سرٹیفیکیٹ حاصل کرنے کی اجازت ہوگی۔
اس 'ٹریول پاس'یا سرٹیفیکیٹ کی بنیاد پر، جسے یورپی کمیشن نے ”گرین سرٹیفیکٹ" کا نام دیا ہے، کوئی بھی شخص یورپی یونین کے رکن ممالک کے اندر کسی روک ٹوک کے بغیر سفر کر سکے گا۔ اس سے آئندہ موسم گرما کے سیاحتی سیزن میں کافی فائدہ ہوگا اور سیاحوں کو سفر کرنے میں بھی سہولت ہو جائے گی۔
ّّاس پہل کے روح رواں اوریورپی پارلیمان میں سب سے بڑے گروپ یورپیئن پیپلز پارٹی (ای پی پی) بلاک سے وابستہ رکن جیرون لینیئرز نے اسے ایک ”بڑی کامیابی" قرار دیتے ہوئے کہا ”آنے والے چند ہفتوں کے دوران ہمارے پاس ایک متحدہ یورپی ڈیجیٹل کووڈ سرٹیفیکیٹ ہو گا جسے پوری یورپی یونین میں تسلیم کیا جائے گا اور ا س سے ایک دوسرے ملکوں میں سفر کرنے میں کافی سہولت ہو جائے گی۔"
موسم گرما کی چھٹیوں میں سیاحت کا کیا حال ہوگا؟
یورپ میں کورونا کے باعث لاک ڈاؤن نافذ ہے۔ ایسے میں گرمیوں کی چھٹیاں کیسے گزاری جائیں؟ اس پکچر گیلری میں جانیے 2021ء کے موسم گرما کی چھٹیوں کے لیے آپ کے پاس کیا آپشنز ہیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/G. Shkullaku
بکنگ منسوخ کرنے کی سہولت
کورونا ویکسین کی دستیابی عام ہونے تک یہ بات طے ہے کہ پہلے کی طرح سفر نہیں کیا جاسکے گا۔ لیکن گرمیوں کی تعطیلات کے لیے اسپین اور یونان جیسے مقبول ترین یورپی سیاحتی مقامات کی پہلے سے بکنگ جاری ہیں۔ اس کی ایک وجہ ٹریول آپریٹرز کی جانب سے سفری پابندیاں جاری ہونے کی صورت میں لوگوں کو مفت میں بکنگ منسوخ کرنے کی سہولت دینا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/A. Arnold
لمبے سفر سے گُریز
جرمنی کی ٹریول ایسوسی ایشن کے مطابق اس بار میسحی تہوار ایسٹر کی تعطیلات کے دوران سیاحت کے رجحان میں کمی کا امکان ہے۔ تاہم مئی کے اواخر میں موسم گرما کے آغاز سے بکنگز کے رجحان میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لیکن زیادہ تر جرمن سیاح بیرون ملک یا لمبے سفر کی بکنگ کرانے سے ہچکچا رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Zoonar/B. Hoyen
ساحل سمندر
قوی امکان ہے کہ اس سال گرمیوں میں زیادہ تر سیاح ساحل سمندر کا رُخ کریں گے۔ خیال ہے کہ عالمی وبا کے سبب بیچز پر بھی حفاظتی ضوابط کا خاص خیال رکھا جائے گا۔ اس وجہ سے بہت سے افراد ابھی اپنے سفر کے لیے حتمی بُکنگ نہیں کرا رہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Zimmermann
قرنطینہ کے ساتھ سیاحت
بہت سارے لوگوں کے لیے ابھی یہ واضح نہیں کہ آیا اس سال موسم گرما میں بین الاقوامی سفر کرنے کی اجازت ہوگی بھی یا نہیں؟ اور اگر ہوگی تو کن شرائط پر؟ اس کا انحصار مختلف ملک میں کووڈ انیس کے مریضوں کی تعداد پر ہوگا۔ اسی طرح مقامی سطح پر ویکسین کی دستیابی اور سفر سے واپسی پر قرنطینہ سے متعلق قواعد کو بھی مدنظر رکھا جائے گا۔
ایک سروے کے مطابق سفری پابندیوں کے نتیجے میں اس مرتبہ موسم گرما کے دوران سیاحوں کی بڑی تعداد بین الاقوامی سفر کے بجائے اپنے ہی ملک میں سیاحتی مقامات پر تعطیلات گزارنے کو ترجیح دے گی۔ جرمنی میں تعطیلات گزارنے کے لیے تقریباﹰ ساٹھ فیصد گھر پہلے ہی بُک ہوچکے ہیں۔
تصویر: Colourbox
قدرت کے نزدیک
لندن، پیرس، برلن ہو یا نیویارک، دنیا بھر کے سیاح عام طور پر بڑے شہروں کی سیر کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن عالمی وبا کے بعد سن 2020 کے موسم گرما میں پہاڑی اور دیہی علاقہ جات میں سیاحوں کی بڑی دلچسپی دیکھی گئی۔ یورپ میں اس سال موسم گرما میں کوشش کی جا رہی ہے کہ موسم گرما میں سیاحتی مقامات پر سیاحوں کی تعداد محدود رکھی جائے۔
تصویر: NDR
ماحول دوست سیاحت
ہائکنگ، بائکنگ یا پھر کیمپنگ؟ آج کل ماحول سیاحت کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے، پھر چاہے آپ کی منزل کہیں بھی ہو۔ نوجوان سیاحوں کی بڑی تعداد عالیشان اور مہنگے ہوٹلوں میں قیام کے بجائے تعطیلات کے دوران رہائش کے لیے چھوٹے گھر اور کیمپنگ سائٹس کو ترجیح دے رہے ہیں۔
تصویر: DW/E. Gordine
7 تصاویر1 | 7
یہ پاس کیسے کام کرے گا؟
یہ ٹریول پاس ایک کیو آر کوڈ پر مشتمل ہوگا جسے اسمارٹ فون میں ڈاون لوڈ کیا جا سکے گا یا پھر اسے کاغذ پر پرنٹ بھی کرایا جا سکتا ہے۔
اشتہار
اس ٹریول پاس کو منظور کرنے کے ساتھ ہی رکن ممالک اضافی سفری بندشوں مثلاً مزید جانچ یا قرنطینہ کو، الایہ کہ انتہائی ضروری ہو، ختم کرنے پر رضا مند ہو گئے ہیں۔
یورپی یونین کی ہیلتھ کمشنر اسٹیلا کائریا کائیڈس کا کہنا تھا”یہ یورپی یونین میں حتی الامکان محفوظ طورپر آزادانہ نقل وحمل شروع کرنے کی سمت میں ایک اہم قدم ہے۔"
فرانس، مالٹا اور نیدرلینڈ اس اسکیم کو شروع کرنے والے یورپی یونین کے اولین ممالک ہوں گے۔
اس آزمائشی پہل کے تحت اس امر کو یقینی بنایا جائے گا کہ ڈیجیٹل آتھینٹیکیشن کے تمام مراحل اور جو پاس جاری کیے گئے ہیں وہ مختلف ممالک میں ان کے سسٹم پر بھی ٹھیک سے کام کریں۔
خالی شہر، ویران سیاحتی مقامات
کورونا وائرس کی وبا سے کئی ملکوں میں ہُو کا عالم طاری ہے۔ شہروں میں ویرانی چھائی ہے اور لوگ گھروں میں مقید ہو کر رہ گئے ہیں۔ سنسان سیاحتی مقامات کی بھی اپنی ایک کشش ہوتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
مارین پلاٹز، میونخ
جرمن شہر میونخ کے ٹاؤن ہال کے سامنے مارین پلاٹز اجڑا ہوا اوپن ایئر تھیئٹر کا نظارہ پیش کر رہا ہے۔ اِکا دُکا افراد اس مقام پر کھڑے ہو کر ٹاؤن ہال کے واچ ٹاور کو دیکھ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ واچ ٹاور کے گھڑیال کی گھنٹیاں شائقین شوق سے سنا کرتے تھے۔ فی الحال مارین پلاٹز میں پولیس اہلکار ڈیرے ڈالے ہوئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/P. Kneffel
اسپینش اسٹیپس، روم
تاریخی شہر روم کو آفاقی شہر بھی قرار دیا جاتا ہے۔ اس کا مشہور سیاحتی مقام اسپینش اسٹیپس اور بارکاچا فاؤنٹین بھی آج کل سیاحوں کے بغیر ہیں۔ بارکاچا فوارہ سن 1598 کے سیلاب کی نشانی ہے۔ فوارے کا پانی چل رہا ہے لیکن سیڑھیوں پر سیاح موجود نہیں ہیں۔
تصویر: picture alliance/dpa
لا رمبلا، بارسلونا
ابھی کچھ ہی ہفتوں کی بات ہے کہ ہسپانوی شہر بارسلونا کے مقام لا رمبلا کی تصویر میں بہت سے سیاح نظر آیا کرتے تھے لیکن اب یہ جگہ ویران ہے۔ صرف تھوڑے سے کبوتر مہمانوں کی راہ دیکھتے پھرتے ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا نے لوگوں کو گھروں میں رہنے پر مجبور کر رکھا ہے لیکن یہی وقت کا تقاضا بھی ہے۔ وائرس کی وبا سے اسپین میں پندرہزارسے زائد لوگ دم توڑ چکے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/NurPhoto/X. Bonilla
شانزے لیزے، پیرس
فرانسیسی دارالحکومت پیرس میں شانزے لیزے معروف کاروباری شاہراہ ہے۔ یہ پیرس کی شہ رگ تصور کی جاتی ہے۔ اب اس سڑک پر صرف چند موٹر گاڑیاں ہیں اور آرچ دے ٹری اُمف یا فتح کی محراب ویران دکھائی دیتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Tang Ji
ٹاور برج، لندن
لندن شہر سے گزرتے دریائے ٹیمز پر واقع مشہور پُل معمول کے مقابلے میں بہت پرسکون ہے۔ سیاح موجود نہیں اور دریا میں سے کشتیاں بھی غائب ہیں۔ کورونا وائرس کی وبا سے پُل کے دونوں اطراف لوگ دکھائی نہیں دہتے۔ لوگ احتیاطً گھروں سے باہر نہیں نکل رہے۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot
حاجیہ صوفیہ، استنبول
ترک شہر استنبول کا اہم ترین سیاحتی مرکز حاجیہ صوفیہ اور اس کے سامنے کا کھلا دالان۔ یہ ہمیشہ سیاحوں اور راہ گیروں سے بھرا ہوتا تھا۔ وائرس کی ایسی وبا پھیلی ہے کہ نہ سیاح ہیں اور نہ ہی مقامی باشندے۔ لوگوں کی عدم موجودگی نے منظر بدل دیا ہے۔ ارد گرد کی سبھی عمارتیں اب صاف نظر آتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/Photoshot/Xu Suhui
تورسکایا اسٹریٹ، ماسکو
روسی دارالحکومت ماسکو کی کھلی شاہراہ تورسکایا فوجی پریڈ کے لیے بھی استعمال کی جاتی رہی ہے۔ وائرس کی وبا کے ایام میں اب سن 2020 کے موسم بہار کے شروع ہونے پر اس شاہراہ پر جراثیم کش اسپرے کرنے والے گھومتے پھرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/G. Sysoev
اہرامِ فراعین، الجیزہ قاہرہ
فراعینِ مصر کے مقبرے بھی کورونا وائرس کی وجہ سے سیاحوں کے بغیر ہیں۔ ان کو اب صرف جراثیم کش اسپرے والے باقاعدگی سے دیکھنے جاتے ہیں۔ اہرام مصر یقینی طور پر تاریخ کے ایک مختلف بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔ مصر کو بھی کووڈ انیس کی مہلک وبا کا سامنا ہے۔ اس ملک میں وائرس کی وبا سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد ایک سو سے بڑھ چکی ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Hamdy
خانہ کعبہ، مکہ
سعودی عرب میں واقع مسلمانوں کا سب سے مقدس ترین مقام خانہ کعبہ بھی زائرین کے بغیر ہے۔ ہر سال لاکھوں افراد اس مقام کی زیارت کے لیے آتے ہیں۔ یہ مقدس مقام بھی دو اپریل سے کرفیو میں ہے۔ اس میں ہر وقت ہزاروں عبادت گزار موجود ہوا کرتے تھے۔ وائرس سے بچاؤ کے محفوظ لباس پہنے افراد اس مقام اور جامع مسجد میں جراثیم کش اسپرے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/AP/A. Nabil
تاج محل، آگرہ
تاریخی اور ثقافتی مقامات میں تاج محل کو منفرد حیثیت حاصل ہے۔ محبت کی یہ یادگار اب دیکھنے والوں کی منتظر ہے۔ کووڈ انیس کی وبا کے پھیلنے کے بعد بھارت کو لاک ڈاؤن کا سامنا ہے۔ تاج محل کو فوجیوں نے اپنے گھیرے میں لے رکھا ہے تا کہ شائقین اس میں داخل ہونے کی کوشش نہ کریں۔ اس مقام کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ گھر میں رہنے میں بہتری ہے۔
تصویر: picture-alliance/AA
ٹائم اسکوائر، نیو یارک سٹی
نیو یارک سٹی کا مرکزی مقام کہلانے والا ٹائم اسکوائر کورونا وائرس کی وبا سے پوری طرح اُجاڑ دکھائی دیتا ہے۔ دوکانیں بند اور شاپنگ مالز خریداروں کو ترس رہے ہیں۔ سڑکیں ویران اور فٹ پاتھ راہگیروں کے بغیر ہیں۔ ہر وقت جاگنے والا شہر اس وقت سویا ہوا ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Sputnik/T. Stolyarova
بوربن اسٹریٹ، نیو اورلیئنز
سیاحوں سے رات گئے تک بھری رہنے والی بوربن اسٹریٹ کو بھی وائرس کی نظر لگ چکی ہے۔ امریکا ریاست لُوئزیانا کا ’بِگ ایزی‘ کہلانے والے اس شہر کی نائٹ لائف بہت مقبول تھی لیکن اب کورونا وائرس کی وبا نے رات بھر جاری رہنے والی سرگرمیوں کو پوری طرح منجمد کر رکھا ہے۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/G. Herbert
برازیل: کوپا کابانا، ریو ڈی جنیرو
برازیلی بندرگاہی اور سیاحتی شہر ریو ڈی جنیرو میں بھی کووڈ انیس کی بیماری نے ہُو کا عالم طاری کر رکھا ہے۔ ایسا لگتا ہے کے شہر پر کسی بھوت نے قبضہ کر لیا ہے۔ اس کا ساحلی علاقہ کوپا کابانا کبھی قہقہوں اور کھیلتی زندگی سے عبارت تھا اب وہاں صرف بحر اوقیانوس کی موجیں ساحل سے ٹکراتی ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AA/F. Teixeira
اوپرا ہاؤس، سڈنی
آسٹریلوی شہر سڈنی کا اوپرا ہاؤس دنیا میں اپنے منفرد طرز تعمیر کی وجہ سے مقبول ہے۔ اس اوپرا ہاؤس کا یہ سب کے لیے پیغام ہے کہ اپنے اپنے گھروں میں مقیم رہیں۔ اوپرا ہاؤس کے دروازے تاحکم ثانی بند کر دیے گئے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Aap/B. De Marchi
عظیم دیوارِ چین
کورونا وائرس کی بیماری نے چین میں جنم لیا تھا۔ وبا کے شدید ترین دور میں سارے چین میں لاک ڈاؤن تھا۔ رواں برس مارچ کے اختتام پر عجوبہٴ روزگار تاریخی دیوارِ چین کو ملکی سیاحوں کے لیے کھولا گیا۔ یہ تصویر دیوار کو کھولنے کے بعد کی ہے جو ساری دنیا کے لیے امید کا پیغام ہے کہ اچھے دن قریب ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Kyodo
15 تصاویر1 | 15
معاہدے پر اختلافات
ای پی پی نے ایک بیان میں کہا کہ پارلیمان اور رکن ممالک کے درمیان بات چیت کافی پیچیدہ رہی کیونکہ پارلیمنٹ اسے شہریوں کے لیے آسان بنانا چاہتی تھی تاکہ وہ کسی رکاوٹ کے بغیر پھر سے سفر کرسکیں جبکہ رکن ممالک کی حکومتیں اپنے اپنے ضابطوں کو محفوظ رکھنا چاہتی تھیں۔
چونکہ سرحد کا کنٹرول اس ملک کی قومی ذمہ داری ہوتی ہے اس لیے یورپی یونین کے رکن ممالک کو اپنے اس کنٹرول سے دست بردار ہونے میں تردد تھا۔
بعض ملکوں نے طریقہ کار کی درستگی کا معاملہ بھی اٹھایا کیونکہ اس وقت یورپی یونین کے صرف دس فیصد شہریوں کو ہی ویکسین لگا یا گیا ہے۔ حالانکہ اس تعداد میں اب تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے۔
اس منصوبے کے تحت کووڈ ٹیسٹ مفت میں کرانے کی بات بھی کہی گئی ہے۔ یورپی کمیشن نے رکن ممالک پر پڑنے والے مالی بوجھ کو کم کرنے کے لیے ایک سو بائیس ملین ڈالر دینے کا وعدہ کیا ہے۔
'ٹریول پاس‘ سے متعلق جمعرات کو ہونے والے اس معاہدے کو بہر حال یورپی پارلیمان کے عام اجلاس سے منظور کرانا ہو گا۔ یہ اجلاس سات جون کو ہونے والا ہے۔
ج ا/ ص ز (ڈی پی اے، اے پی، روئٹرز، اے ایف پی)
پاکستان کے پُر کشش سیاحتی مقامات
پاکستان کے پُر کشش سیاحتی مقامات
تصویر: DW/Danish Babar
خوش گوار موسم اور فطری حسن
پاکستان کے شمالی علاقے فطری حسن کی وجہ سے سیاحوں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے کافی اونچائی کی وجہ سے ان علاقوں میں گرمیوں کے دوران موسم خوشگوار ہوتا ہے۔ جس کی وجہ سے ملک بھر سے لوگ ان علاقوں کا رخ کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
سیاحت میں اضافہ
ماضی قریب میں ناسازگار حالات، شدت پسندی کے واقعات اور وسائل کی کمی کی وجہ سے بہت کم لوگ ان خوبصورت علاقوں کا رخ کرتے تھے۔ تاہم محکمہ سیاحت خیبر پختونخوا کے مطابق رواں سال لگ بھگ سات لاکھ سیاح ان علاقوں میں آئے۔
تصویر: DW/Danish Babar
دشوار گزار مقامات کے لیے جیپوں کا استعمال
ناران، کاغان، شوگران، کالام اور اپر دیر کے پہاڑی علاقوں تک پہنچنے کے لیے سیاح جیپ اور دیگر فور وہیل گاڑیوں کا استعمال کرتے ہیں، کیونکہ پہاڑی اور خراب سڑکوں کی وجہ سے عام چھوٹی گاڑیوں کی مدد سے ان علاقوں تک کا سفر مشکل ہوسکتا ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
چھٹیوں کے دوران سیاحوں کی تعداد میں اضافہ
پاکستان کے بیشتر علاقوں میں جون، جولائی کے مہینوں میں شدید گرمی پڑتی ہے۔ اس موسم اور خصوصاﹰ مذہبی تہواروں اور قومی چھٹیوں کے دنوں میں ملک بھر سے ہزاروں کی تعداد میں شہری ملک کے شمال میں واقع پر فضا مقامات پر تفریح کے لیے آتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
قدرتی چشمے اور گلیشیئرز
ناران اور کاغان کے سفر کے دوران اکثرمقامات پر راستے میں قدرتی چشمے اور گلیشئرز کا پانی بہتا نظر آتا ہے۔ مقامی دکاندار اس پانی کو مشروبات کو ٹھنڈا کرنے کے بھی استعمال کرتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹراؤٹ مچھلی ایک نعمت
شمالی علاقوں کے دریاؤں میں موجود ٹراؤٹ مچھلی سیاحوں اور مقامی مچھیروں دونوں کے لیے کسی نعمت سے کم نہیں۔ عبداللہ کے مطابق تیز بہنے والے ٹھنڈے پانی میں ٹراؤٹ کا شکار کسی خطرے سے خالی نہیں۔ سیاحوں کو یہ مچھلی دو سے ڈھائی ہزار روپے فی کلو فروخت کی جاتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
لذیز ٹراؤٹ مچھلی
ٹراؤٹ کی افزائش کے لیے انتہائی ٹھنڈا پانی بہت ضروری ہوتا ہے۔ ناران میں گلیشئرز کا پانی ان کے افزائش نسل کے لیے کافی موزوں ہے لہٰذا مقامی لوگوں نے ٹراؤٹ کے فارمز بھی بنا رکھے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹینٹ ویلیجز
ناران اور کاغان میں انتظامیہ نے رش کے دنوں میں سیاحوں کی رہائش کا مسئلہ حل کرنے کے لیے ٹینٹ ویلیجز یا خیمہ بستیاں بھی قائم کی ہیں جہاں مناسب قیمت میں سیاحوں کو قیام کے لیے اچھی جگہ مل جاتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
’سیاحت تازہ دم کر دیتی ہے‘
سیالکوٹ کے رہائشی محمد عاصم پورے خاندان کے ساتھ چھٹیاں منانے وادی کاغان آئے۔ ان کے بقول، ’’یہ ایک پرسکون جگہ ہے۔ تازہ دم ہونے کے لیے ان علاقوں کی سیر بہت ضروری ہے۔‘‘
تصویر: DW/Danish Babar
وادی کاغان کا علاقہ شوگران
وادی کاغان کے علاقہ شوگران میں پھیلے سر سبز گھاس کے لان (چمن) سیاحوں کی دلچسپی کا مرکز ہیں۔ سطح سمندر سے قریب 2362میٹر کی بلندی پر واقع یہ وادی دلفریب نظاروں کی وجہ سے سیاحوں کو اپنی طرف مائل کرتی ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
جھیل سیف الملوک اور پریوں کی داستانیں
وادی کاغان کے شمالی حصے میں واقع جھیل سیف الملوک کسی عجوبے سے کم نہیں۔ سردیوں میں اس جھیل کا پانی مکمل طور پر جم جاتا ہے۔ پریوں کی داستانوں کی وجہ سے مشہور یہ جھیل سطح سمندر سے تقریباﹰ 3240 میٹر کی بلندی پر واقع ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
آنسو جھیل تک سفر گھوڑے یا خچر کے ذریعے ہی ممکن
سالہاسال برف جمی رہنے کی وجہ سے ناران کے اکثر علاقوں میں لوگ گھوڑوں یا پھر خچروں کے ذریعے سفر کرتے ہیں۔ سیاحوں کے لیے سیف الملوک جھیل سے آنسو جھیل تک کا گھوڑوں پر چار سے پانچ گھنٹے کا سفر کافی پرلطف ہوتا ہے۔
تصویر: DW/Danish Babar
آبشاروں کا سحر
شمالی علاقوں میں جہاں دریاؤں کا شور لوگوں کو اپنی طرف کھینچ لاتا ہے تو دوسری جانب بلندوبالا پہاڑوں سے گرتیں قدرتی آبشاریں بھی سیاحوں کے لیے کسی سحرسے کم نہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
برفباری کے سبب ناقابل رسائی
پاکستان کے شمال علاقوں میں اکثر سیاحتی مقامات سردیوں میں شدید برف باری کی وجہ سے قریب آٹھ ماہ تک نقل حرکت کے قابل نہیں رہتے۔ اور اسی باعث سردیوں میں سیاحوں کی تعداد بہت کم ہو جاتی ۔ مقامی لوگ سردیوں کے دوران عارضی دکانوں کو بند کر دیتے ہیں۔
تصویر: DW/Danish Babar
ٹورازم کے فروغ کے لیے فنڈز مختص
خیبرپختونخوا میں ٹورازم کے فروع اور ملکی اور بین الاقوامی سیاحوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے صوبائی حکومت نے ناران، کاغان، شوگران اور صوبے کے دیگر سیاحتی مقامات کی ترقی اور خوبصورتی کے لیے خاطرخوا فنڈز مختص کیے ہیں۔