1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
تنازعاتیورپ

یورپی یونین:اسرائیل کے ساتھ مذاکرات معطل کرنے کی تجویز مسترد

19 نومبر 2024

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے خارجہ پالیسی کے سربراہ کی اسرائیل کے ساتھ سفارتی مذاکرات معطل کرنے کی تجویز کو مسترد کر دیا۔ یوزیپ بوریل اپنے عہدہ صدارت کے آخری سال میں اسرائیل پر مسلسل اور کھل کر تنقید کر رہے ہیں۔

اسرائیل کے ساتھ یورپی یونین کے تعلقات نے بلاک کو تقسیم کر دیا ہے کچھ ارکان اس کے  پرعزم حامی رہ گئے ہیں جبکہ دیگر نے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید کی ہے
اسرائیل کے ساتھ یورپی یونین کے تعلقات نے بلاک کو تقسیم کر دیا ہے کچھ ارکان اس کے پرعزم حامی رہ گئے ہیں جبکہ دیگر نے غزہ اور لبنان میں اسرائیلی کارروائیوں پر تنقید کی ہےتصویر: Roberto Pfeil/dpa/picture alliance

یورپی یونین کے وزرائے خارجہ نے پیر کو برسلز میں ملاقات کی لیکن انہوں نے خارجہ پالیسی کے سربراہ یوزیپ بوریل کی اسرائیل کے ساتھ بلاک کے سفارتی مذاکرات کو روکنے کی تجویزکی حمایت نہیں کی۔

میٹنگ سے پہلے بوریل نے کہا تھا کہ اس طرح کے اقدام کا مقصد اسرائیلی حکومت پر دباؤ ڈالنا ہے کیونکہ اس نے غزہ کی پٹی میں جنگ میں بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کی متعدد درخواستوں کو نظر انداز کر دیا۔

یورپی یونین وزرائے خارجہ کی اسرائیل سے سیاسی مذاکرات معطل کرنے کی تجویز

گزشتہ ایک سال کے دوران یورپی رہنماؤں کے معیارات کے مطابق اسرائیل پر غیر معمولی طور پر سخت الفاظ میں اکثر تنقید کرنے کے بعد، ہسپانوی سیاست دان بوریل نے اجلاس سے پہلے صحافیوں کو بتایا کہ ان کے پاس غزہ کی صورت حال کے لیے "مزید الفاظ نہیں" ہیں۔

انہوں نے کہا کہ "غزہ میں تقریباً 44,000 افراد مارے گئے ہیں، پورا علاقہ تباہ ہو رہا ہے، اور مارے جانے والے 70 فیصد لوگ خواتین یا بچے ہیں۔"

یورپی یونین کی غزہ میں جنگ بندی کی کوششیں تیز تر

اس تجویز کو بوریل کے عہدہ سے سبکدوش ہونے سے پہلے ان کی آخری بڑی کوشش کے طور پر دیکھا جا رہا تھا۔ اور یہ بات تقریباﹰ طے تھی کہ اس تجویز کو وزراء خارجہ کی طرف سے قبول کیے جانے کا امکان نہیں ہے، کیونکہ اس کے لیے تمام 27 رکن ممالک کی جانب سے متفقہ منظوری کی ضرورت تھی۔

گذشتہ ایک سال کے دوران حماس کے خلاف اسرائیلی حملوں میں غزہ میں ہزاروں شہری ہلاک اور بہت زیادہ تباہی ہوئی ہےتصویر: -/AFP

تجویز کی مخالفت

ہالینڈ کے وزیر خارجہ کیسپر ویلڈکیمپ اس تجویز سے اختلاف کرنے والوں میں شامل تھے، انہوں نے کہا کہ مشرق وسطیٰ میں وسیع تر کشیدگی کے درمیان یورپی یونین کو اسرائیل کے ساتھ بات چیت جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

جرمنی نے بھی اپنی مخالفت پہلے ہی درج کر دی تھی، جبکہ ہنگری، آسٹریا اور جمہوریہ چیک سبھی اس اقدام کی م‍خالفت کرنے والوں میں شامل تھے۔

اسرائیل کے ساتھ یورپی یونین کا سیاسی مکالمہ یورپی یونین اسرائیل ایسوسی ایشن کے معاہدے کے تحت آتا ہے، جو فریقین کے مابین شراکت داری کو مستحکم کرنے کے لیے باقاعدہ رابطہ اور بات چیت کا موقع فراہم کرتا ہے۔

تاہم، اس معاہدے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ فریقین کے درمیان تعلقات انسانی حقوق اور جمہوری اصولوں کے احترام پر مبنی ہیں، جن کے بارے میں بوریل کا کہنا ہے کہ اسرائیل نے ان کی پابندی نہیں کی ہے۔

اسپین اور آئرلینڈ نے بھی تجویز دی تھی کہ اسرائیل کے ساتھ معاہدے پر نظرثانی کی جائے۔

لیکن یورپی یونین کے سفارت کاروں نے اس بات پر بھی زور دیا تھا کہ ادارہ جاتی سیاسی بات چیت کو معطل کرنے کا مطلب معاہدے یا ایسوسی ایشن کونسل کو معطل کرنا نہیں ہے، جو دونوں فریقوں کے درمیان تعلقات کی ذمہ دار ہے۔

بوریل تجویز کو قبول کیے جانے کا امکان نہیں تھا کیونکہ اس کے لیے تمام 27 رکن ممالک کی جانب سے متفقہ منظوری کی ضرورت تھیتصویر: Alexandros Michailidis/European Union

درآمدات پر پابندی کی تجویز

بوریل مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں اسرائیلی بستیوں میں تیار ہونے والی مصنوعات کی درآمد پر پابندی بھی متعارف کروانا چاہتے تھے۔

یہ بستیاں بین الاقوامی قوانین کے تحت غیر قانونی ہیں۔

وزراء نے پیر کے اجلاس کے دوران روس کو یوکرین کی جنگ میں استعمال کرنے کے لیے بیلسٹک میزائل فراہم کرنے پر ایران پر نئی پابندیوں کی منظوری دی۔

بوریل نے میٹنگ سے قبل یہ بھی کہا کہ انہیں امید ہے کہ یورپی یونین کے ارکان کییف کو بلاک کی طرف سے فراہم کردہ ہتھیاروں سے روس کے اندر حملہ کرنے کی اجازت دینے پر رضامند ہو جائیں گے۔

بوریل نے کہا، "میں بار بار کہہ رہا ہوں کہ یوکرین کو ہمارے فراہم کردہ ہتھیاروں کو استعمال کرنے کے قابل ہونا چاہیے، تاکہ وہ نہ صرف میزائیلوں کو روک سکے بلکہ انہیں داغنے والوں کو نشانہ بنانے کے قابل ہو۔"

ان کا یہ تبصرہ ان اطلاعات کے درمیان آیا ہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو اجازت دی ہے کہ وہ روس کے اندر دور تک حملہ کرنے کے لیے امریکی فراہم کردہ میزائل استعمال کرے۔ ایسا ماسکو کی طرف سے اپنے پڑوسی کے خلاف جنگ میں ہزاروں شمالی کوریائی فوجیوں کی تعیناتی کے ممکنہ ردعمل میں کیا جائے گا۔

 ج ا ⁄ ص ز ( روئٹرز، ڈی پی اے)

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ سیکشن پر جائیں

ڈی ڈبلیو کی اہم ترین رپورٹ

ڈی ڈبلیو کی مزید رپورٹیں سیکشن پر جائیں