یورپی یونین کے پاسپورٹوں کا کاروبار ’ایک خطرناک پیش رفت‘
مقبول ملک ایوائلو ڈِٹشیف
17 فروری 2019
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے چند ایک میں نقد رقوم کے بدلے قانونی طور پر مقامی شہریت خریدی جا سکتی ہے۔ لیکن یہ ایک ایسی ’خطرناک پیش رفت‘ ہے، جو متعلقہ ممالک میں عوامیت پسند سیاستدانوں کی مضبوطی کا سبب بن رہی ہے۔
اشتہار
یہ رجحان بالواسطہ طور پر رنگ، نسل اور مذہب کی بنیاد پر تعصب اور اجانب بیزاری کی اس سوچ کے لیے تقویت کا باعث بھی بن رہا ہے، جس کے تحت کسی بھی معاشرے میں اکثریت کی طرف سے اقلیتوں کو سماج کے مرکزی دھارے سے دور رکھنے کی کوشش کی جاتی ہے۔
اس بارے میں بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے ثقافتی عمرانیات کے پروفیسر ایوائلو ڈِٹشیف نے ڈوئچے ویلے کے لیے اپنی ایک خصوصی تحریر میں لکھا ہے کہ یورپی یونین قدیم سلطنت روما کی اس مثال پر عمل پیرا ہے، جس کے تحت اجنبیوں کو مقامی شہریت دی جاتی تھی تاکہ ہمسایہ اقوام کو متاثر کیا جا سکے۔ اس کا ایک ثبوت یہ بھی ہے کہ یورپی یونین کی طرف سے اس بلاک میں توسیع کے وعدوں کے باعث گزشتہ کئی برسوں سے یونین کی ہمسایہ ریاستوں میں امن و استحکام دیکھنے میں آئے ہیں۔
ماسڑشٹ کے معاہدے کے تحت یورپی یونین کے شہریوں کے لیے ’یورپی شہریت‘ کا نظریہ ایک اچھا نظریہ تھا لیکن اس بلاک کو دھچکا اس کی مشرق کی طرف توسیع کے اس عمل کے دوران لگا جب 2007ء میں رومانیہ اور بلغاریہ جیسے ممالک کو بھی یونین کی رکنیت دے دی گئی۔ اسے قبل یہ بھی ہوا تھا کہ سابق سوویت یونین کی تقسیم کے بعد جرمنی اور یونان نے سابق سوویت یونین کے ایسے لاکھوں شہریوں کو بھی اپنی اپنی شہریت دے دی، جن کے اجداد کا تعلق ان ممالک سے تھا۔
شہریت کے لیے قوم پسندانہ سوچ
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے پہلے ہنگری اور پھر بلغاریہ نے بھی اپنے ہاں قومیت کی شناخت کے معاملے کو قوم پسندانہ طور پر استعمال کیا۔ 1993ء سے ہنگری کے ہمسایہ ممالک میں مقیم ہنگیرین اقلیتوں کو نسلی اور قومی بنیادوں پر ہنگری کی شہریت دیا جانا بھی ایک سیاسی چال ثابت ہوا اور اس دوران اس ملک میں بائیں بازو کے لبرل سیاستدانوں کی طرف سے کی گئی تنقید کو قطعی نظر انداز کر دیا گیا۔
جیسا کہ بلقان کے خطے میں عام ہے، بلغاریہ میں بھی اکثر لوگوں کے پاس ایسی دستاویزات نہیں ہوتیں، جن کی مدد سے وہ قومی یا نسلی طور پر اپنے بلغارین ہونے کو ثابت کر سکیں۔ بلغاریہ کی بیرون ملک آباد اقلیتیوں کے پاس محض ’بلغارین شعور‘ ہی ہوتا ہے۔ لیکن اس لحاظ سے تو شمالی مقدونیہ کا ہر شہری یہ دعویٰ کر سکتا ہے کہ وہ بلغارین نسل یا قومیت سے تعلق رکھتا ہے۔
بلغاریہ کے قوم پرست تو ویسے بھی یہ کہتے ہیں کہ مقدونیہ کے عوام بلغاریہ ہی کا حصہ ہیں۔ ایسے میں جب ایسے غیر ملکیوں کو بلغاریہ کا پاسپورٹ ملتا ہے، تو وہ پہلے بلغاریہ اور پھر یورپی یونین میں مزید مغرب کی طرف جانا شروع کر دیتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے پورے شینگن زون میں بغیر ویزے کے آزادانہ آمد و رفت اور کام کرنے کے مواقع۔
کپاس سے کرنسی نوٹ تک: یورو کیسے بنایا جاتا ہے؟
ای سی بی نے پچاس یورو کے ایک نئے نوٹ کی رونمائی کی ہے۔ پرانا نوٹ سب سے زیادہ نقل کیا جانے والا نوٹ تھا۔ ڈی ڈبلیو کی اس پکچر گیلری میں دیکھیے کہ یورو کرنسی نوٹ کس طرح چھپتے ہیں اور انہیں کس طرح نقالوں سے بچایا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
ملائم کپاس سے ’ہارڈ کیش‘ تک
یورو کے بینک نوٹ کی تیاری میں کپاس بنیادی مواد ہوتا ہے۔ یہ روایتی کاغذ کی نسبت نوٹ کی مضبوطی میں بہتر کردار ادا کرتا ہے۔ اگر کپاس سے بنا نوٹ غلطی سے لانڈری مشین میں چلا جائے تو یہ کاغذ سے بنے نوٹ کے مقابلے میں دیر پا ثابت ہوتا ہے۔
تصویر: tobias kromke/Fotolia
خفیہ طریقہ کار
کپاس کی چھوٹی چھوٹی دھجیوں کو دھویا جاتا ہے، انہیں بلیچ کیا جاتا ہے اور انہیں ایک گولے کی شکل دی جاتی ہے۔ اس عمل میں جو فارمولا استعمال ہوتا ہے اسے خفیہ رکھا جاتا ہے۔ ایک مشین پھر اس گولے کو کاغذ کی لمبی پٹیوں میں تبدیل کرتی ہے۔ اس عمل تک جلد تیار ہو جانے والے نوٹوں کے سکیورٹی فیچرز، جیسا کہ واٹر مارک اور سکیورٹی تھریڈ، کو شامل کر لیا جاتا ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نوٹ نقل کرنے والوں کو مشکل میں ڈالنا
یورو بینک نوٹ تیار کرنے والے اس عمل کے دوران دس ایسے طریقے استعمال کرتے ہیں جو کہ نوٹ نقل کرنے والوں کے کام کو خاصا مشکل بنا دیتے ہیں۔ ایک طریقہ فوئل کا اطلاق ہے، جسے جرمنی میں نجی پرنرٹز گائسیکے اور ڈیفریئنٹ نوٹ پر چسپاں کرتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
نقلی نوٹ پھر بھی گردش میں
پرنٹنگ کے کئی پیچیدہ مراحل کے باوجود نقال ہزاروں کی تعداد میں نوٹ پھر بھی چھاپ لیتے ہیں۔ گزشتہ برس سن دو ہزار دو کے بعد سب سے زیادہ نقلی نوٹ پکڑے گئے تھے۔ یورپی سینٹرل بینک کے اندازوں کے مطابق دنیا بھر میں نو لاکھ جعلی یورو نوٹ گردش کر رہے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Hoppe
ایک فن کار (جس کا فن آپ کی جیب میں ہوتا ہے)
رائن ہولڈ گیرسٹیٹر یورو بینک نوٹوں کو ڈیزائن کرنے کے ذمے دار ہیں۔ جرمنی کی سابقہ کرنسی ڈوئچے مارک کے ڈیزائن کے دل دادہ اس فن کار کے کام سے واقف ہیں۔ نوٹ کی قدر کے حساب سے اس پر یورپی تاریخ کا ایک منظر پیش کیا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP
ہر نوٹ دوسرے سے مختلف
ہر نوٹ پر ایک خاص نمبر چھاپا جاتا ہے۔ یہ نمبر عکاسی کرتا ہے کہ کن درجن بھر ’ہائی سکیورٹی‘ پرنٹرز کے ہاں اس نوٹ کو چھاپا گیا تھا۔ اس کے بعد یہ نوٹ یورو زون کے ممالک کو ایک خاص تعداد میں روانہ کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Giesecke & Devrient
پانح سو یورو کے نوٹ کی قیمت
ایک بینک نوٹ پر سات سے سولہ سینٹ تک لاگت آتی ہے۔ چوں کہ زیادہ قدر کے نوٹ سائز میں بڑے ہوتے ہیں، اس لیے اس حساب سے ان پر لاگت زیادہ آتی ہے۔
تصویر: Giesecke & Devrient
آنے والے نئے نوٹ
سن دو ہزار تیرہ میں پانچ یورو کے نئے نوٹ سب سے زیادہ محفوظ قرار پائے تھے۔ اس کے بعد سن دو ہزار پندرہ میں دس یورو کے نئے نوٹوں کا اجراء کیا گیا۔ پچاس یورو کے نئے نوٹ اگلے برس گردش میں آ جائیں گے اور سو اور دو یورو کے نوٹ سن دو ہزار اٹھارہ تک۔ پانچ سو یورو کے نئے نوٹوں کو سن دو ہزار انیس تک مارکیٹ میں لایا جا سکتا ہے۔
تصویر: EZB
8 تصاویر1 | 8
بلغاریہ کے پاسپورٹوں کا گندا کاروبار
بلغاریہ میں اس بات کے تعین کا کوئی واضح ضابطہ موجود ہی نہیں کہ مقامی شہریت کی درخواست دینے والے کسی فرد کی شخصیت میں ’بلغارین شعور‘ کی تشخیص کیسے کی جائے۔ یہ فیصلہ اکثر سرکاری اہلکاروں کی ذاتی صوابدید اور اندازوں کی بنیاد پر کیا جاتا ہے۔ یہی بات ایک غیر قانونی کاروبار کے پھلنے پھولنے کی وجہ بن رہی ہے۔
یعنی آپ پانچ ہزار یورو تک رقم ادا کر کے بلغاریہ کا پاسپورٹ خرید سکتے ہیں۔ یہ حقائق 2018ء میں منظر عام پر آئے اور اس مجرمانہ کارروائی میں بلغاریہ کے قوم پسندوں کی جماعت کے ارکان بھی ملوث پائے گئے تھے۔ ساتھ ہی انہی ’پاسپورٹوں کی تقسیم اور فروخت‘ کو اقتصادی سرمایہ کاری کے ذرائع کے طور پر بھی استعمال کیا جا رہا ہے۔
گولڈن ویزا
یورپی یونین کے رکن ممالک میں سے جن ریاستوں میں گولڈن ویزے کی بات کی جاتی ہے، وہاں یہی بات سرمایہ کاری سے بھی جڑی ہوئی ہے۔ اس سلسلے میں یورپی کمیشن کی طرف سے بلغاریہ کے علاوہ قبرص اور مالٹا پر بھی کھل کر تنقید کی جا چکی ہے۔ اس طرح کوئی بھی غیر ملکی، جو کہ کوئی مطلوب مجرم بھی ہو سکتا ہے، ایک بڑی رقم ادا کر کے یا سرمایہ کاری کی ضمانت دے کر ان ممالک کی شہریت یا وہاں مستقل رہائش کا اجازت نامہ حاصل کر سکتا ہے۔
بائی بائی برطانیہ، ہم جا ر ہے ہیں
برطانوی معیشت بار بار بریگزٹ کے ممکنہ منفی اثرات سے خبردار کرتی رہی ہے۔ حالیہ برطانوی ریفرنڈم میں یورپی یونین چھوڑنے کے فیصلے کے بعد چند ایک کاروباری اور صنعتی ادارے برطانیہ کو خیر باد بھی کہہ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/W. Kumm
ووڈافون
موبائل فون سروسز فراہم کرنے والے دنیا کے اس دوسرے بڑے ادارے کی جانب سے کہا جا رہا ہے کہ برطانیہ کو الوداع کہہ دینا خارج از امکان نہیں ہے اور ممکنہ طور پر یہ ادارہ اپنے ہیڈکوارٹرز جرمن شہر ڈسلڈورف میں منتقل کر دے گا۔ جرمن علاقے رائن لینڈ میں ووڈافون کے نئے کیمپس میں پانچ ہزار ملازمین کی گنجائش ہے۔ پھر یہ بھی ہے کہ جرمنی اس ادارے کی سب سے بڑی منڈی بھی ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/M. Hayhow
راین ایئر
پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والے اس سب سے بڑے یورپی ادارے کا مرکزی دفتر ویسے تو آئر لینڈ میں ہے لیکن اب تک اس کے زیادہ تر طیارے برطانوی سرزمین پر ہی موجود رہے ہیں تاہم اب یہ صورتِ حال بدلنے والی ہے۔ راین ایئر نے اعلان کیا ہے کہ برطانیہ میں کوئی نیا طیارہ نہیں رکھا جائے گا اور نہ ہی برطانوی ایئر پورٹس سے راین ایئر کے کوئی نئے رُوٹ متعارف کرائے جائیں گے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/M. Scholz
ایزی جیٹ
سستی پروازوں کی سہولت فراہم کرنے والی اس دوسری بڑی یورپی کمپنی کا شمار اُن کاروباری اداروں میں ہوتا ہے، جو یورپ میں آج کل سب سے زیادہ منافع میں جا رہے ہیں۔ سرِد ست اس ادارے کا مرکزی دفتر لندن میں ہے لیکن کب تک؟ رواں ہفتے اس ادارے کی مجلس عاملہ کی خاتون سربراہ کیرولین میکال نے بڑے ٹھنڈے انداز میں کہا، ’دیکھیں کیا ہوتا ہے؟‘
تصویر: Getty Images/AFP/F. Guillot
ورجن
رچرڈ برینسن برطانیہ کے مشہور ترین آجرین میں سے ایک ہیں۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے نتائج پر اُن کا تبصرہ تھا: ’’ہم ایک تباہی کی جانب بڑھ رہے ہیں۔‘‘ تئیس جون کے ریفرنڈم کے بعد بازار حصص میں اُن کی کمپنی ورجن کے شیئرز کی قیمتوں میں ایک تہائی کمی ریکارڈ کی گئی ہے۔ برینسن کا مطالبہ ہے کہ یہی ریفرنڈم ایک بار پھر منعقد کرایا جائے۔
تصویر: Getty Images/AFP/D. Leal-Olivas
جے پی مارگن
اس سب سے بڑے امریکی بینک کی لندن شاخ میں سولہ ہزار ملازمین کام کرتے ہیں۔ اب یہ بینک اپنے کاروبار کے ایک حصے کو برطانیہ سے کہیں اور منتقل کرنے کے بارے میں سوچ رہا ہے۔ اس بینک کے سربراہ جیمی ڈائمن نے ریفرنڈم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ ایک سے لے کر چار ہزار تک آسامیاں کہیں اور منتقل کی جا سکتی ہیں۔
تصویر: Getty Images/C.Gillon
ویزا
کریڈٹ کارڈ کی سہولت فراہم کرنے والے اس ادارے کے پاس برطانیہ میں اپنی سینکڑوں ملازمتیں ختم کرنے کے سوا غالباً کوئی چارہ ہی نہیں ہے۔ یورپی یونین کی شرائط میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ایسے کسی ادارے کا ڈیٹا یورپی یونین کے کسی رکن ملک کے اندر پڑا ہونا چاہیے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لندن میں اس ادارے کے ڈیٹا سینٹر کو بند کرنا پڑے گا۔
تصویر: Imago
فورڈ
اس امریکی کار ساز ادارے کے لیے برطانیہ یورپ میں ایک ’کلیدی منڈی‘ کی حیثیت رکھتا ہے اور ادارے نے اس بات کا بار بار اظہار بھی کیا ہے۔ ڈیگنہیم میں واقع فورڈ کا کارخانہ جرمن پیداواری مراکز کو انجن اور دیگر پُرزہ جات بھی فراہم کرتا ہے۔ بریگزٹ ریفرنڈم کے بعد اس ادارے کی جانب سے کہا گیا کہ یہ ادارہ ایسے تمام ضروری اقدامات کرے گا، جن سے اس کی مقابلہ بازی کی صلاحیت کو برقرار رکھا جا سکتا ہو۔
تصویر: picture-alliance/dpa
جیگوار لینڈ رووَر
لیکن ایسا نہیں ہے کہ سبھی ادارے ہی مایوس ہیں۔ جیگوار لینڈ رووَر کے اسٹریٹیجی کے شعبے کے سربراہ ایڈریان ہال مارک نے کہا، ’’ہم برطانوی ہیں اور برطانیہ کا ساتھ دیں گے۔‘‘ ہال مارک نے یقین دلایا کہ کاروبار معمول کے مطابق جاری ہے۔ شاید وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ کم از کم اگلے دو سال تک برطانیہ بدستور یورپی یونین کا ہر لحاظ سے مکمل رکن رہے گا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Jones
8 تصاویر1 | 8
اسی تناظر میں یورپی یونین کی انصاف سے متعلقہ امور کی نگران خاتون کمشنر ویرا ژُورووا تو کئی ایسے روسی شہریوں کی مثالیں بھی دے چکی ہیں، جو اس طرح یورپی یونین کے رکن ممالک میں رہائشی اجازت نامے حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔
شہریت برائے فروخت
مسئلہ صرف سلامتی کا نہیں ہے۔ اس کام کے پیچھے ایک ایسی منڈی ہے، جہاں شہریت اور شہری حقوق بیچے اور خریدے جاتے ہیں۔ یہ صورت حال ایسے چھوٹے ممالک کی حکومتوں کے مابین ایک بے ہنگم مقابلے کی صورت اختیار کر چکی ہے، جو غیر ملکیوں کو اپنے ہاں کی شہریت دے کر مقامی سطح پر انہی نئے شہریوں کے ہاتھوں مقامی سرکایہ کاری کے خواہش مند ہیں۔
یہ شہریت ایک بڑی رقم ادا کر کے حاصل کی جا سکتی ہے اور حیرانی کی بات تو یہ ہے کہ اس عمل کے لیے درخواست دہندہ کا ذاتی طور پر اس متعلقہ ملک میں موجود ہونا بھی ضروری نہیں ہوتا، جس کی شہریت وہ لے رہا ہوتا ہے۔ یوں مستقبل میں کوئی بھی ایسا غیر ملکی دنیا کے کسی ایسے جزیرے سے ہی اپنے لیے یورپی یونین کی شہریت کی درخواست دے سکتا ہے، جہاں وہ اپنا کالا دھن چھپائے بیٹھا ہو یا کم ٹیکسوں کی وجہ سے مقیم ہو۔
بلیو کارڈ: پیشہ ور افراد کے لیے یورپ کا دروازہ
بلیو کارڈ جرمنی اور یورپ میں قیام کا وہ اجازت نامہ ہے، جس کے تحت یورپی یونین سے باہر کے اعلیٰ تعلیم یافتہ غیر ملکیوں کو یورپی یونین کے رکن ممالک میں ملازمت اور رہائش کی اجازت دی جاتی ہے۔
تصویر: picture-alliance/chromorange
غیر ملکیوں کا آسان انضمام
بلیو کارڈ اسکیم کو 2012ء میں متعارف کرایا گیا تھا۔ بلیو کارڈ لینے والے کے لیے یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کے مواقع کھل جاتے ہیں۔ اس کے لیے یورپی یونین کے باہر کا کوئی بھی شخص درخواست دے سکتا ہے۔ کسی جرمن یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم بھی تعلیم مکمل کرنے کے بعد 18 ماہ تک جرمنی میں رہ کر کام کی تلاش کر سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
پورے یورپی یونین میں کہیں بھی
بلیو كارڈ کے حامل فرد کو ڈنمارک، آئر لینڈ اور برطانیہ کو چھوڑ کر یورپی یونین کے کسی بھی ملک میں کام کرنے کی اجازت مل جاتی ہے۔ شرط یہ ہے کہ اس شخص نے یورپ سے باہر کسی ملک میں کالج کی تعلیم مکمل کی ہو اور اس کے پاس جرمنی کی کسی کمپنی کی طرف سے سالانہ کم از کم 48,400 یورو تنخواہ کی ملازمت کا كنٹریکٹ موجود ہو۔ ڈاکٹرز اور انجینئرز کے لیے سالانہ 37,725 یورو تنخواہ کا کنٹریکٹ بھی قابل قبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/C. Rehder
خاص شعبوں میں زیادہ امکانات
جرمنی کے کئی علاقوں میں کچھ شعبوں کے ماہرین کی کافی کمی ہے جیسے کہ مكینیكل انجینئرز، ڈاکٹرز اور نرسز وغیرہ۔ اس کے علاوہ کئی شعبوں میں ریسرچ اینڈ ڈیویلپمنٹ یعنی تحقیق و ترقی کا کام کرنے والوں کی بھی کمی ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق 2020ء تک جرمنی میں قریب دو لاکھ چالیس ہزار انجینئرز کی ضرورت ہوگی۔ ان علاقوں میں تربیت یافتہ لوگوں کو بلیوكارڈ ملنا زیادہ آسان ہے۔
تصویر: Sergey Nivens - Fotolia.com
بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات
جرمن حکومت نے بلیو کارڈ کے بارے میں تفصیلی معلومات کی فراہمی کے لیے ایک ویب پورٹل بنا رکھا ہے http://www.make-it-in-germany.com ۔ یہاں آپ جرمنی سے متعلق تمام موضوعات پر معلومات مل سکتی ہیں۔
تصویر: make-it-in-germany.com
خاندان کی رہائش بھی ساتھ
صرف 2014ء میں ہی تقریباﹰ 12,000 لوگوں کو بلیو کارڈ دیا گیا۔ بلیو کارڈ ہولڈر اپنے کنبے کو بھی جرمنی لا سکتا ہے۔ اس کے لیے اُس کے اہلِ خانہ کی جرمن زبان سے واقفیت ہونے کی شرط بھی نہیں ہوتی۔ بلیو کارڈ ہولڈرز کے پارٹنر کو بھی کام کرنے کی اجازت مل سکتی ہے ۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Frank Leonhardt
سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کے لیے بھی بلیو کارڈ کا مطالبہ
روزگار کی وفاقی جرمن ایجنسی نے اب مطالبہ کیا ہے کہ سیاسی پناہ کے متلاشی ایسے افراد کو بھی بلیو کارڈ کی سہولت دی جائے، جو اعلیٰ تعلیمی قابلیت کے حامل ہوں اور مخصوص شعبوں میں مہارت رکھتے ہوں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
تشہیری مہم کی ضرورت
بعض جرمن ماہرین اس بات کے قائل ہیں کہ بلیو کارڈ کو دیگر ممالک میں متعارف کرانے کے لیے ایک جارحانہ تشہیری مہم کی بھی ضرورت ہے۔ یہ امر اہم ہے کہ جرمنی کی 1250 سے زائد کمپنیوں نے کھلے عام یہ کہہ رکھا ہے کہ وہ غیر ملکی ہنر مند افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کے لیے تیار ہیں۔
تصویر: picture-alliance/chromorange
7 تصاویر1 | 7
مسئلے کا حل کیا ہے؟
اس رجحان پر قابو پانے کے دو طریقے ہو سکتے ہیں۔ ایک تو یہ کہ یورپی یونین کے رکن ممالک میں مقامی شہریت دیے جانے کے یورپی سطح پر یکساں نطام اور شرائط متعارف کرائے جائیں، جن پر عمل درآمد اس بلاک کی رکن ہر ریاست کے لیے لازمی ہو۔ لیکن یہ سیاسی کامیابی یورپی یونین کے کئی ممالک میں قوم پرست قوتوں کی مضبوطی کے دور میں مشکل نظر آتی ہے۔
دوسرا حل یہ ہو سکتا ہے کہ یورپی یونین میں مقامی اور یورپی سطح کی شہریت کے مابین تفریق کا نظام متعارف کرا دیا جائے، یعنی پہلے مثلاﹰ کوئی غیر ملکی بلغاریہ، قبرص یا مالٹا وغیر کی مقامی شہریت حاصل کرے اور پھر دوسرے مرحلے میں دیگر شرائط پوری کرنے پر یورپی یونین کی شہریت کے دستاویزی حقوق حاصل کرے۔
اگر کوئی یہ کہے کہ ایسا کرنا تو یورپی یونین کے معاہدوں کی خلاف ورزی ہو گا، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اگر یورپی پاسپورٹوں کا یہ کاروبار بند نہ ہوا، جو کہ سہولتوں اور مراعات کا غلط استعمال ہے، تو پھر، چاہے کسی کو پسند آئے یا نہ آئے، یورپی یونین میں پاسپورٹوں کی سطح پر بھی ایک متنوع نظام دیکھنے میں آ سکتا ہے۔
یونان میں غیر قانونی پاکستانی تارکین وطن کا المیہ
یونانی جزیرے لیسبوس پر موجود پاکستانی تارکین وطن کسی صورت واپس ترکی نہیں جانا چاہتے۔ ان کا کہنا ہے کہ ترکی محفوظ ملک نہیں ہے اور انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح یورپ میں پناہ دی جائے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ماں کا زیور بیچ کر آیا ہوں‘
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
یونان بھی پناہ نہیں دے رہا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق جو تارکین وطن یونان میں سیاسی پناہ کی درخواستیں نہیں دے رہے، انہیں واپس ترکی بھیجا جا رہا ہے۔ پاکستانی تارکین وطن کی اکثریت نے یونان میں پناہ کی درخواست اس لیے بھی نہیں دیں کہ انہیں خدشہ ہے کہ وہ مسترد کر دی جائیں گی۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’یورپی یونین ترکی کو پیسے نہ دے‘
لیسبوس میں موجود یورپ میں پناہ کے خواہش مند ان پاکستانیوں کا دعویٰ ہے کہ ترکی یورپ سے پیسے لے کر مہاجرین کو واپس ترکی آنے کی اجازت دے رہا ہے۔ انہیں نے الزام عائد کیا کہ ترکی اپنے ہاں پناہ گزینوں کو کوئی سہولیات نہیں دیتا اور وہاں انہیں پہلے بھی کھلے آسمان تلے سونا پڑتا تھا۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
صرف شامی مہاجرین ہی پناہ کے مستحق؟
یورپ میں زیادہ تر صرف خانہ جنگی سے بچ کر آنے والے شامی مہاجرین ہی کو پناہ دی جا رہی ہے۔ پاکستان اور افغانستان سے تعلق رکھنے والے تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ بھی اپنی جانوں کے تحفظ کے لیے یورپ میں پناہ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
خیمے عارضی، سفر مسلسل
لیسبوس کے جزیرے پر سمندر کے کنارے عارضی خیموں میں شب و روز گزارنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کا سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ یورپ اور ترکی کے مابین معاہدے کے بعد انہیں بھی واپس ترکی جانا پڑے گا لیکن انہیں پھر بھی امید ہے کہ وہ مغربی یورپ کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سفر بےسود
خستہ حال کشتیوں کے ذریعے بحیرہ ایجیئن عبور کر کے ترکی سے بحفاظت یونان پہنچ جانے والے یہ تارکین وطن دراصل خوش قسمت ہیں۔ یورپ میں مہاجرین کے موجودہ بحران کے دوران اب تک ہزاروں انسان سمندر میں ڈوب چکے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
کھانے کے لیے قطار
لیسبوس نامی اس یونانی جزیرے پر موجود ان تارکین وطن کو کافی کھانا بھی دستیاب نہیں ہوتا۔ کھانے کے حصول کے لیے انہیں طویل قطاروں میں کھڑے ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’خواب ایسا تو نہیں تھا‘
اچھے مستقبل کی خواہش دل میں لیے اور خطرناک راستے عبور کر کے یونان پہنچنے والے ان پاکستانی تارکین وطن کو اپنے شب و روز ایسی خستہ حالی میں گزارنا پڑ رہے ہیں کہ وہ ان حالات کو اپنے مستقبل کے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے بالکل برعکس قرار دیتے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’ہمیں بھی پناہ دو!‘
پاکستان، افغانستان اور دیگر ممالک سے تعلق رکھنے والے ان تارکین وطن کو یورپ میں پناہ ملنے کے امکانات نہایت کم ہیں۔ پناہ کے متلاشی ان غیر ملکیوں کا احتجاج کرتے ہوئے کہنا تھا کہ یورپی یونین انہیں بھی شامی مہاجرین کی طرح انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ دے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
’مر جائیں گے، واپس نہیں جائیں گے‘
ترکی سے یونان پہنچنے والے اور اب وہاں سے ملک بدری کے تقریباﹰ یقینی خطرے کا سامنا کرنے والے ان تارکین وطن کا کہنا ہے کہ وہ ترکی واپسی کے بجائے موت کو ترجیح دیں گے۔ اس موقف کے ساتھ اب وہ احتجاجی مظاہرے بھی کرنے لگے ہیں۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
جب پریشانی بےحال کردے
ان تارکین وطن کو ان کے احتجاج کے باوجود ابھی تک یہی ’ناپسندیدہ امکان‘ دکھائی دے رہا ہے کہ انہیں زبردستی واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ انسانی حقوق کی کئی تنظیموں کی رائے میں ترکی خود بھی کوئی ’محفوظ ملک‘ نہیں ہے۔
تصویر: DW/R. Shirmohammadi
11 تصاویر1 | 11
ایوائلو ڈِٹشیف بلغاریہ سے تعلق رکھنے والے ثقافتی عمرانیات کے ماہر ہیں، جو اس وقت جرمن شہر ریگنزبرگ کی ایک یونیورسٹی میں مہمان پروفیسر کے طور پر تدریسی شعبے سے وابستہ ہیں۔