یورپی یونین 15ا کتوبر تک معاہدہ کرلے: بورس جانسن کی دھمکی
7 ستمبر 2020
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے کہا ہے کہ اگر یورپی یونین کے ساتھ 15 اکتوبر تک کوئی معاہدہ نہیں ہوپاتا ہے تو برطانیہ تجارتی مذاکرات سے الگ ہوجائے گا۔
اشتہار
برطانوی وزیراعظم بورس جانسن نے اتوار کے روز یورپی یونین کے ساتھ آزاد تجارتی معاہدے کے لیے 15 اکتوبر کی حتمی تاریخ کا اعلان کردیا ہے۔ اگر مقررہ تاریخ تک دونوں فریق کسی معاہدے تک پہنچنے میں ناکام رہتے ہیں تو برطانیہ مابعد بریگزٹ مذاکرات سے الگ ہوجائے گا۔ بورس جانسن نے کہا کہ اگر بریگزٹ کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ہے تب بھی برطانیہ 'شاندار ترقی‘ کرتا رہے گا۔
بورس جانسن کے دفتر سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے، ”اگر معاہدے کو اس سال کے اواخر تک نافذ کرنا ہے تو اس امر کی ضرورت ہے کہ ہمارے یورپی دوستوں کے ساتھ 15 اکتوبر تک معاہدہ ہو جائے۔ اس کے بعد اس معاملے پر غور کرنے کا کوئی مطلب نہیں ہے۔ اگر ہم اس تاریخ تک متفق نہیں ہو پاتے ہیں، تو مجھے نہیں لگتا کہ ہمارے درمیان آزاد تجارتی معاہدہ ہوسکے گا اور ہم دونوں کو اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے آگے بڑھنا چاہیے۔"
برطانوی رہنما کی یہ دھمکی ایسے وقت آئی ہے جب مابعد بریگزٹ مذاکرات منگل کے روز سے لندن میں دوبارہ شروع ہونے والے ہیں۔
بریسلز پہلے ہی یہ اشارہ دے چکا ہے کہ برطانیہ کے ساتھ کوئی بھی تجارتی معاہدہ وسط اکتوبر تک ہوسکتا ہے۔
یورپ سب کا ہے
یورپی پارلیمنٹ کے انتخابات تیئیس سے چھبیس مئی کے درمیان ہوں گے۔ جرمنی اور یورپی یونین کی دیگر ریاستوں میں اس الیکشن کے حوالے خاصا جوش و خروش پایا جاتا ہے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
ایک یورپ سب کے لیے
گزشتہ ویک اینڈ پر جرمن دارالحکومت برلن میں سینکڑوں لوگ ’ایک یورپ سب کے لیے‘ کے بینر تلے ایک مارچ میں شریک ہوئے۔ بریگزٹ کے بعد برلن یورپی یونین کا سب سے بڑا شہر بن جائے گا۔ اس شہر میں یورپ اور کئی دوسرے ممالک کے افراد آباد ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
ہزاروں افراد سڑکوں پر
برلن میں ہوئے مارچ میں شریک افراد کی تعداد تین ہزار کے قریب تھی۔ یورپی پارلیمنٹ میں جرمنی سے چھیانوے افراد کو منتخب کیا جائے گا۔ یورپی پارلیمنٹ کی کل نشستوں کی تعداد 751 ہے اور جرمنی سے یورپی پارلیمنٹ کے لیے سب سے زیادہ اراکین منتخب کیے جاتے ہیں۔
تصویر: Getty images/AFP/O. Messinger
فرینکفرٹ یورپ کے لیے
یورپی یونین اور یورپی سینٹرل بینک کی حمایت میں جرمن شہر فرینکفرٹ میں ہزاروں افراد نے ایک ریلی میں شرکت کی۔ اس ریلی میں ماحول دوستوں کے علاوہ سیاسی جماعتوں کے کارکن، چرچ آرگنائزیشنز سے منسلک افراد اور خواتین کے حقوق کی تنظیموں کے سرگرم ورکرز پیش پیش تھے۔
تصویر: Getty Images/T. Lohnes
کولون میں انتہائی بڑی ریلی
جرمنی کے چوتھے بڑے شہر کولون میں پینتالیس ہزار افراد’ایک یورپ سب کے لیے‘ نامی ریلی میں شریک ہوئے۔ اس ریلی میں خاص طور پر سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے کارکنوں کی بڑی تعداد شریک تھی۔ اس سیاسی جماعت کی لیڈر آندریا نہلس اور برلن حکومت کی وزیر انصاف کاٹارینا بارلی بھی شریک تھیں۔
تصویر: DW/R.Staudenmaier
یورپ کو محفوظ رکھا جائے
کولون میں ریلی کے شرکاء نے یورپ کو محفوظ رکھنے کی ایک مہم میں بھی حصہ لیا۔ ہزاروں لوگوں نے یورپ کے امن منصوبوں کو محفوظ رکھنے کی قرارداد پر دستخط کیے۔ کئی لوگوں کا خیال ہے کہ عوامیت پسند سیاسی جماعتیں یورپ کے لیے نقصان دہ ہو سکتی ہیں۔
تصویر: Reuters/T. Schmuelgen
’اشٹراخے۔ تم نیو نازی ہو‘
آسٹریا کے دارالحکومت ویانا میں بھی یورپ کے حق میں ایک مارچ کا انتظام کیا گیا اور اس میں بھی ہزاروں افراد نے شرکت کی۔ اس مارچ کے شرکاء نے آسٹریا کے نائب چانسلر ہائنز کرسٹیان اشٹراخے کے خلاف نعرے بازی بھی کی۔ اشٹراخے چند روز قبل ہی اپنے منصب سے مستعفی ہوئے ہیں۔ اُن کا تعلق فریڈم پارٹی آف آسٹریا سے ہے، جسے سن 1956 میں سابقہ نازیوں نے قائم کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/PA/picturedesk/H. P. Oczeret
آسٹریائی لوگ نسل پسندی کے خلاف ہیں
آسٹریا میں قائم مخلوط حکومت پر سب سے بڑا اعتراض یہ ہے کہ اس نے غیر یورپی باشندوں کی ہجرت کو روکنے کے کئی اقدامات کیے۔ مخلوط حکومت میں فریڈم پارٹی آف آسٹریا بھی شریک تھی۔ ویانا ریلی کے شرکا نے نسل پسندی کی پالیسی کے خلاف آواز بھی بلند کی۔ آسٹریا کی مخلوط حکومت نے یورپ کی دوسری عوامیت پسند حکومتوں سے روابط بھی استوار کیے۔
تصویر: Reuters/L. Niesner
پولینڈ اور یورپ
یورپی یونین کی رکن ریاستوں پولینڈ، اسپین، ہالینڈ اور اٹلی میں بھی یورپ کے حق میں ریلیاں نکالی گئیں۔ پولینڈ کے دارالحکومت وارسا میں ریلی کا اہتمام کیا گیا۔ پولینڈ میں دائیں بازو کی قوم پرست جماعت برسراقتدار ہے۔ یہ حکومت اس وقت بعض متنازعہ اقدامات کے تناظر میں یورپی یونین کے ساتھ قانونی جنگ شروع کیے ہوئے ہے۔
تصویر: Getty Images/AFP/J. Skarzynski
یورپی یونین کی صدارت سے پولستانی صدارت تک
یورپ یونین کونسل کے صدر ڈونلڈ ٹسک بھی اپنے ملک میں یورپ کے حق میں نکالی گئی ریلی میں شریک تھے۔ پولینڈ کے سابق وزیر اعظم کی یورپی یونین کونسل کی مدت صدارت رواں برس دسمبر میں ختم ہو رہی ہے۔ وہ اپنے ملک کے سن 2020 کے صدارتی الیکشن میں حصہ لینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
تصویر: Reuters/D. Zuchowicz
9 تصاویر1 | 9
بریگزٹ سے الگ ہونے کے لیے کرائے گئے ریفرینڈم میں بہت معمولی اکثریت سے برطانوی شہریوں کی حمایت کے بعد برطانیہ اس سال 31 جنوری کو یورپی یونین سے باضابطہ الگ ہوگیا تھا۔ تاہم دونوں نے 31 دسمبر تک حالات جوں کا توں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا تھا اور برطانیہ اس وقت تک یورپی یونین کے ضابطوں کو ماننے کا پابند ہے۔ فریقین کے درمیان اب بھی کئی معاملات طے ہونے باقی ہیں۔
اشتہار
آسٹریلیائی طرز کا معاہدہ
جانسن کا کہنا تھا کہ بریگزٹ کے ساتھ کوئی معاہدہ نہیں ہونے کی صورت میں بھی برطانیہ'شاندارترقی‘کرتا رہے گا اور اگر یورپی یونین کے ساتھ اس کا آسٹریلیا کے طرز پر کوئی تجارتی معاہدہ ہوجاتا ہے تب بھی یہ ایک،اچھی پیش رفت‘ ہوگی۔
آسٹریلیا، یورپی یونین کے ساتھ عالمی تجارت تنظیم کے ضابطوں اور محصولات کے تحت تجارت کرتا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم کا کہنا تھا” ایک حکومت کے طورپر ہم اپنی سرحدوں اور بندرگاہوں کو اس کے لیے تیار کررہے ہیں۔ اپنے قوانین، اپنے ضابطوں اور اپنی ماہی گیری کے لیے پانیوں پر ہمارا پورا کنٹرول ہوگا۔"
یہ پاکستانی یورپ کیوں جانا چاہتا ہے؟
01:39
بورس جانسن کا تاہم کہنا تھا”ہم یورپی یونین کے اپنے دوستوں کے ساتھ موجودہ حالات میں بھی بات چیت کے لیے ہمیشہ تیار ہیں... ہمارے دروازے کبھی بند نہیں ہوں گے اور ہم اپنے دوستوں اور شرکاء کے ساتھ، کسی آزاد تجارتی معاہدے کے باوجود، تجارت کرتے رہیں گے۔"
بورس جانسن نے کسی معاہدے کے امکانات سے یکسر انکار نہیں کیا ہے اور کہا کہ اگریورپی یونین موجودہ حالت پر غور کرتی ہے تو کوئی معاہدہ اب بھی ممکن ہے۔ ”لیکن ہم نے ایک آزاد ملک ہونے کے ناطے ناتو اپنے اصولوں سے کوئی سمجھوتہ کیا ہے اور نا ہی کوئی سمجھوتہ کریں گے۔"
اس دوران برطانیہ کے چیف مذاکرات کار ڈیوڈ فروسٹ نے بھی ایک اخبار کو دیے گئے انٹرویوں میں کہا کہ بریگزٹ کے حوالے سے کوئی معاہدہ نہیں ہونے سے برطانیہ کو کسی طرح کا خوف نہیں ہے اور ہم اپنے اصولوں اور موقف سے کوئی سمجھوتہ نہیں کریں گے۔
ج ا/ ص ز (اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
.
لندن جانے کی دس وجوہات
بریگزٹ کے معاملے پر برطانوی پارلیمان میں رائے شماری پر پوری دنیا کی نگاہیں ہیں۔ مگر لندن کے مرکزِ نگاہ ہونے کی اور بھی وجوہات ہیں۔ یہ یورپ میں سیر کے لیے جانے والوں کا سب سے بڑا مرکز ہے، مگر کیوں؟
تصویر: picture-alliance/Daniel Kalker
دریائے ٹیمز
لندن میں سیاحت کے لیے سب سے زیادہ مشہور جگہیں دریائے ٹیمز کے کنارے ہیں۔ لندن میں اس دریا کے جنوبی کنارے پر ’لندن آئی‘، برطانوی پارلیمان کا حامل ویسٹ منسٹر محل اور مشہورِ زمانہ بگ بین ٹاور دیکھے جا سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Simoni
پُل
دریائے ٹیمز پر کئی پل ہیں، مگر ٹاور برج جیسی شہرت کسی دوسرے پل کی نہیں۔ سیاح اس پل کے انجن روم میں جا سکتے ہیں، جہاں کوئلے کے اصل برنر اور بھاپ کے انجن موجود ہیں، جو کسی دور میں کشتیوں کے گزرنے کے لیے پل کو اوپر اٹھانے کا کام سرانجام دیتے تھے۔ وہ افراد جو اونچائی سے ڈرتے نہیں، وہ اس پل پر شیشے کی بنی 42 میٹر اونچی ’اسکائی واک‘ پر چل سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/A. Copson
عجائب گھر
لندن میں وکٹوریہ اور البرٹ میوزم اور برٹش میوزم کو دنیا بھر میں بہترین عجائب گھر قرار دیا جاتا ہے۔ ٹیٹ ماڈرن میوزم میں جدید فنی تخلیقات موجود ہیں، جب کہ یہ ماضی میں ایک بجلی گھر ہوا کرتا تھا۔ بہت سے دیگر عجائب گھروں کی طرح اس میوزم میں داخلے کی بھی کوئی فیس نہیں۔
تصویر: Switch House, Tate Modern/Iwan Baan
موسیقی
کانسرٹس، کانسرٹس اور کانسرٹس۔ موسیقی کے دل دادہ افراد کو لندن ضرور جانا چاہیے۔ اس شہر میں کسی چھوٹے سے پب سے لے کر موسیقی کی بڑی تقریبات تک، ہر جگہ موسیقی کی بہار ہے۔ خصوصاﹰ موسم گرما میں ہائیڈ پارک لندن میں تو جیسے میلہ لگا ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance7Photoshot/PYMCA
محلات
بکنگھم پیلس ملکہ برطانیہ کی سرکاری رہائش گاہ ہے۔ اس محل کے متعدد کمرے جولائی تا اکتوبر عام افراد کے دیکھنے کے لیے کھول دیے جاتے ہیں، کیوں کہ اس وقت ملکہ اسکاٹ لینڈ میں ہوتی ہیں۔ اور صرف یہی نہیں بلکہ شاہی خاندان کے دیگر بہت سے محل بھی آپ دیکھ سکتے ہیں۔
تصویر: picture-alliance/DPA/M. Skolimowska
پارک
لندن میں بہت سے قابل دید پارک، باغات اور باغیچے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی دوسرے بڑے شہر کے مقابلے میں سب سے زیادہ سبزہ لندن کا خاصا ہے۔ لندن کے ریجنٹ پارک کی پریمروز پہاڑی سے پورا شہر آپ کی نگاہوں کے سامنے ہوتا ہے۔
تصویر: picture-alliance/Design Pics/Axiom
دکانیں
لندن میں ہر طرح کے بجٹ کے لیے اور ہر دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ چھوٹے بوتیک سے لے کر بڑے بڑے ڈیپارٹمنٹل اسٹورز تک، حتیٰ کہ سیکنڈ ہینڈ سامان کی دکانیں بھی۔ اختتام ہفتہ پر لندن میں جگہ جگہ مارکیٹیں لگی نظر آتی ہیں۔ اس تصویر میں کیمڈن مارکیٹ کا منظر ہے۔ یہ مارکیٹ نوجوانوں میں بے حد مقبول ہے۔
تصویر: picture-alliance/Eibner
گرجا گھر
ویسٹ منسٹر ایبے کے ساتھ سینٹ پال کا کیتھیڈرل لندن کا مشہور زمانہ گرجا گھر ہے، مگر لندن میں بہت سے دیگر کیتھیڈرلز بھی ہیں، جو سیاحوں کو اپنی جانب کھینچتے ہیں۔ ویسٹ منسٹر ایبے سن 1066ء سے شاہی خاندان کے انتقال کر جانے والے افراد کی آخری آرام گاہ ہے۔ اس میں مشہور زمانہ سائنس دانوں کی قبریں بھی ہیں، جن میں ڈارون اور جے جے تھامسن سے لے کر اسٹیفن ہاکنگ تک کئی شخصیات شامل ہیں۔
دریائے ٹیمز کے جنوبی کنارے پر ’شارڈ‘ سے لندن شہر پر ایک طائرانہ نگاہ۔ 244 میٹر اونچائی سے جیسے کوئی پورا شہر آپ کے سامنے رکھ دے۔ شیشے اور اسٹیل سے بنی یہ عمارت مغربی یورپ کی سب سے بلند عمارت ہے، اسے اسٹار آرکیٹکٹ رینزو پیانو نے ڈیزائن کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/robertharding/M. Ertman
مے خانے
لندن کی تاریخ ہی مکمل نہیں ہوتی اگر اس شہر سے یہ مے خانے نکال دیے جائیں۔ مقامی طور پر انہیں ’پب‘ کہا جاتا ہے اور یہاں آپ کو ہر طرح کی بیئر اور الکوحل والے دیگر مشروبات کی بہتات ملتی ہے۔ اس کے علاوہ یہاں لوگ گپ شپ بھی کرتے ہیں اور کھاتے پیتے شامیں گزارتے ہیں۔