یورپ اور امریکا کے مابین ’تجارتی جنگ‘ فی الوقت ٹل گئی
22 مارچ 2018
بھاری درآمدی محصولات لاگو کیے جانے سے چند گھنٹوں قبل امریکی صدر ٹرمپ نے یورپی یونین سمیت چند ممالک کو ’عارضی استثنیٰ‘ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ یوں فی الوقت امریکا اور یورپ کے مابین اقتصادی جنگ شروع ہونے کا خطرہ بھی ٹل گیا۔
اشتہار
امریکی صدر ٹرمپ نے یورپی یونین کو درآمدی محصولات سے ’عارضی استثنیٰ‘ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔ اٹھائیس رکنی یورپی یونین کے علاوہ کینیڈا، برازیل، میکسیکو، آسٹریلیا اور ارجنٹائن کو بھی عارضی استثنیٰ دینے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس فیصلے کے بعد امریکا اور یورپ کے مابین تجارتی جنگ کا خطرہ بھی عارضی طور پر ٹل گیا ہے۔
لیکن اب امریکا میں اسٹیل اور ایلومینیم پر بھاری درآمدی ٹیکسوں کے نفاذ سے سب سے زیادہ چین متاثر ہو گا، جس کا ایک مطلب یہ بھی ہے کہ اب امریکی پالیسیوں کے باعث ’اقتصادی جنگ‘ چین اور امریکا کے مابین جاری رہے گی۔
صدر ٹرمپ نے ایک ٹویٹ کے ذریعے ایلومینیم اور اسٹیل پر بھاری درآمدی محصولات عائد کرنے کا اعلان کیا تھا۔ اس صدارتی فیصلے کا اطلاق آج بائیس مارچ بروز جمعرات کی نصف شب سے ہو رہا ہے۔
جرمن نیوز ایجنسی ڈی پی اے کے مطابق ٹیکسوں کے اطلاق سے چند گھنٹے قبل امریکی تجارتی نمائندے روبرٹ لائیتھیزر نے ملکی سینیٹ کی اقتصادی کمیٹی کو بتایا کہ صدر ٹرمپ نے یورپی یونین سمیت چند ممالک سے درآمد ہونے والی دھاتوں پر ٹیکس کا نفاذ ’روک دینے‘ کی اجازت دے دی ہے۔
چین امریکا ’تجارتی جنگ‘
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ آج جمعرات کو مزید چینی مصنوعات پر ٹیکس یا تادیبی محصولات میں اضافے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ وائٹ ہاؤس ذرائع نے بتایا ہے کہ یہ فہرست تقریباً ایک سو چینی مصنوعات پر مشتمل ہو گی۔ ان میں چین سے درآمد کی جانے والی جدید ٹیکنالوجی کی اشیاء خاص طور پر شامل کی گئی ہیں۔ واشنگٹن حکام کا موقف ہے کہ چینی برآمدات سے امریکی صنعت کو شدید نقصان ہو رہا ہے۔
روئٹرز کی رپورٹ کے مطابق ان تادیبی محصولات کی مالیت پچاس بلین ڈالر ہو گی۔ صدر ٹرمپ اس حوالے سے میمورنڈم پر آج امریکی وقت کے مطابق دوپہر ساڑھے بارہ بجے دستخط کر دیں گے۔
چین نے اسے بین الاقوامی تجارتی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا ہے۔ آج بیجنگ حکومت نے امریکا کو خبردار کیا ہے کہ چین اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے تمام ممکنہ اقدامات کرے گا۔
ش ح/اا (روئٹرز، ڈی پی اے، اے پی)
چین کے حوالے سے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پانچ جملے
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ اپنے چبھتے ہوئے بیانات کے لیے خاص شہرت رکھتے ہیں۔ ایسے ہی کچھ جملے انہوں نے چین کے لیے بھی کہے۔ ’چین نے امریکا کو تباہ کر دیا‘ کے بیان سے لے کر ’ آئی لو یو چائنہ‘ تک ٹرمپ کے تبصرے رنگا رنگ ہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ آئی لو یو چائنہ‘
سن دو ہزار سولہ میں امریکی صدر کا منصب سنبھالنے کے فوراﹰ بعد ہی ٹرمپ نے ایک امریکی نشریاتی ادارے کو بتایا تھا،’’ مجھے چین سے محبت ہے۔‘‘ لیکن جہاں تک بیجنگ حکومت سے متعلق اُن کے تبصروں کا تعلق ہے تو وہ کبھی مثبت نہیں رہے۔
تصویر: picture-alliance/AP/A. Harnik
’ چین ہمارے ملک کا ریپ کر رہا ہے‘
صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکا چین تعلقات کو بیان کرتے ہوئے ہمیشہ سخت زبان کا استعمال کیا ہے۔
اپنی صدارتی مہم کے دوران ایک اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے کہا تھا،’’ ہم چین کو اپنا ملک برباد کرنے کی اجازت نہیں دے سکتے جو وہ کر رہا ہے۔‘‘
تصویر: Feng Li/AFP/GettyImages
’کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا‘
رواں برس اپریل میں چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ ملاقات کے بعد وال اسٹریٹ جرنل کو ایک انٹرویو میں صدر ٹرمپ نے کہا،’’ آپ جانتے ہیں کہ چین اور کوریا کی تاریخ ہزاروں سال اور کئی جنگوں پر محیط ہے۔ کوریا دراصل چین کا حصہ ہوا کرتا تھا۔‘‘
تصویر: picture-alliance/AP Photo/N. H. Guan
‘انہیں میکڈونلڈز لے جائیں‘
سن 2015 میں ایک ریلی سے خطاب میں ٹرمپ نے کہا،’’ اگر آپ سمارٹ ہوں تو چین سے جیت سکتے ہیں لیکن ہمارے لوگوں کو اس کا پتہ نہیں ہے۔ ہم چین کے سربراہان کو سرکاری ڈنر دیتے ہیں۔ ہم انہیں اسٹیٹ ڈنر کیوں دیں؟ میں کہتا ہوں کہ انہیں میکڈونلڈز لے جائیں اور بھر دوبارہ مذاکرات کی میز پر واپس آ جائیں۔‘‘
سن دو ہزار گیارہ میں چین کی سرکاری نیوز ایجنسی شنہوا کے ساتھ ایک مبینہ انٹرویو میں ٹرمپ نے کہا،’’ میں نے چین کے بارے میں سینکڑوں کتابیں پڑھ رکھی ہیں۔ میں نے چینی لوگوں کے ساتھ بہت روپیہ بنایا ہے۔ میں چینی ذہنیت کو اچھی طرح جانتا ہوں۔‘‘ تاہم بعض افراد کا ماننا ہے کہ یہ انٹرویو کبھی ہوا ہی نہیں۔
تصویر: picture-alliance/AP Photo/A. Harnik
’ گلوبل وارمنگ کا ذمہ دار چین ہے‘
سن 2012 میں ٹرمپ نے گلوبل وارمنگ کا الزام عائد کرتے ہوئے کہا کہ چین نے امریکا کے اقتصادی مفادات کو ضرب لگانے کے لیے یہ منصوبہ بنایا ہے۔ ٹرمپ کا کہنا تھا،’’ گلوبل وارمنگ کی تخلیق چین کے ہاتھوں اور چینی عوام کے لیے ہوئی تاکہ امریکی مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں بے وقعت کیا جا سکے۔‘‘