سال 2021ء کے پہلے چھ ماہ کے دوران جرمنی میں قریب 48 ہزار سیاسی پناہ کی نئی درخواستیں جمع کرائی گئیں۔ یورپی کمیشن کی رپورٹ کے مطابق سب سے زیادہ درخواستیں جرمنی میں ہیں جمع کرائی گئی ہیں۔
اشتہار
سال 2021ء کے آغاز سے اختتام جون تک کے چھ ماہ کے دوران یورپی ممالک میں سب سے زیادہ سیاسی پناہ کی درخواستیں جرمنی میں جمع کرائی گئیں۔ جرمن اخبار 'ویلٹ اَم زونٹاگ‘ نے یہ بات یورپی کمیشن کی ایک رپورٹ کے حوالے سے بتائی ہے۔
تارکین وطن اور مہاجرین کی صورتحال سے متعلق یورپی کمیشن کی اس رپورٹ کے مطابق جرمنی میں رواں برس کے پہلے نصف حصے میں سیاسی پناہ کی 47,231 نئی درخواستیں جمع کرائی گئیں۔
جرمنی میں سیاسی پناہ کی درخواستیں جمع کرانے والوں میں 36 فیصد شامی، 18 فیصد افغانی جبکہ 6.6 فیصد عراقی باشندے رہے۔
جرمنی کے بعد دوسرے نمبر پر سب سے زیادہ درخواستیں فرانس میں جمع کرائی گئیں اور ان کی تعداد 32,212 رہی۔ اسپین میں سیاسی پناہ حاصل کرنے کے لیے اسی عرصے کے دوران جمع کرائی جانے والی درخواستوں کی تعداد 25.823 رہی جبکہ چوتھے نمبر پر سب سے زیادہ درخواستیں اٹلی میں جمع کرائی گئیں اور یہ تعداد 20.620 ہے۔
دنیا بھر میں خطرات سے بھاگتے ہوئے مہاجرین کی بے بسی
جنگ، ظلم و ستم، قدرتی آفات اور ماحولیاتی تبدیلیوں کے خطرات کے سبب دنیا بھر میں تقریباﹰ 82.4 ملین افراد تحفظ کی تلاش میں اپنا ملک چھوڑنے پر مجبور ہیں۔ اس دوران سب سے زیادہ تکلیف کا سامنا بچوں کو کرنا پڑ رہا ہے۔
تصویر: KM Asad/dpa/picture alliance
سمندر میں ڈوبتا بچہ
یہ بچہ صرف دو مہینے کا تھا جب ہسپانوی پولیس کے ایک غوطہ خور نے اسے ڈوبنے سے بچایا تھا۔ گزشتہ ماہ ہزاروں افراد نے مراکش سے بحیرہ روم کو عبور کرتے ہوئے یورپ پہنچنے کی کوشش کی تھی۔ اس تصویر کو خود مختار ہسپانوی شہر سبتہ میں مہاجرین کے بحران کی نمایاں عکاسی کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔
تصویر: Guardia Civil/AP Photo/picture alliance
کوئی امید نظر نہیں آتی
بحیرہ روم دنیا کے خطرناک ترین غیرقانونی نقل مکانی کے راستوں میں سے ایک ہے۔ بہت سے افریقی پناہ گزین سمندری راستوں کے ذریعے یورپ پہنچنے میں ناکامی کے بعد لیبیا میں پھنس جاتے ہیں۔ طرابلس میں یہ نوجوان، جن میں سے بہت سے ابھی بھی نابالغ ہیں، لمحہ بہ لمحہ اپنی زندگی کے لیے لڑ رہے ہیں۔ ان کو اکثر مشکل حالات میں کام کرنا پڑتا ہے۔
تصویر: MAHMUD TURKIA/AFP via Getty Images
سوٹ کیس میں بند زندگی
بنگلہ دیش میں کوکس بازار کا مہاجر کیمپ دنیا کی سب سے بڑی پناہ گاہوں میں سے ایک ہے، جہاں میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد بستی ہے۔ غیر سرکاری تنظیمیں وہاں بچوں پر تشدد، منشیات، انسانی اسمگلنگ کے ساتھ ساتھ چائلڈ لیبر اور چائلڈ میرج جیسے مسائل کے خدشات کا اظہار کرتی ہیں۔
تصویر: DANISH SIDDIQUI/REUTERS
حالیہ بحران
ایتھوپیا کے صوبے تیگرائی میں خانہ جنگی نے مہاجرین کے ایک اور بحران کو جنم دے دیا۔ تیگرائی کی 90 فیصد آبادی کا انحصار غیرملکی انسانی امداد پر ہے۔ تقریباﹰ 1.6 ملین افراد سوڈان فرار ہو گئے۔ ان میں سات لاکھ بیس ہزار بچے میں شامل ہیں۔ یہ پناہ گزین عارضی کیمپوں میں پھنسے ہیں اور غیریقینی صورتحال کا شکار ہیں۔
تصویر: BAZ RATNER/REUTERS
پناہ گزین کہاں جائیں؟
ترکی میں پھنسے شامی اور افغان پناہ گزین اکثر یونان کے جزیروں تک پہنچنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یونانی جزیرے لیسبوس کے موریا مہاجر کیمپ میں کئی پناہ گزین بستے تھے۔ اس کیمپ میں گزشتہ برس ستمبر میں آگ بھڑک اٹھی تھی۔ موریا کیمپ کی یہ مہاجر فیملی اب ایتھنز میں رہتی ہے لیکن ان کو اپنی اگلی منزل کے بارے میں کچھ معلوم نہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Y. Karahalis
ایک کٹھن زندگی
پاکستانی دارالحکومت اسلام آباد میں قائم ’افغان بستی ریفیوجی کیمپ‘ میں مقیم افغان بچوں کے لیے کوئی اسکول نہیں ہے۔ یہ کیمپ سن 1979 کے دوران افغانستان میں سوویت مداخلت کے بعد سے موجود ہے۔ وہاں رہائش کا بندوبست انتہائی خراب ہیں۔ اس کیمپ میں پینے کے صاف پانی اور مناسب رہائش کی سہولیات کا فقدان ہے۔
تصویر: Muhammed Semih Ugurlu/AA/picture alliance
بقائے حیات کے لیے امداد
وینزویلا کے بہت سے خاندان اپنے آبائی ملک میں اپنا مستقبل تاریک دیکھتے ہوئے ہمسایہ ملک کولمبیا چلے جاتے ہیں۔ وہاں انہیں غیرسرکاری تنظیم ریڈ کراس کی طرف سے طبی اور غذائی امداد فراہم کی جاتی ہے۔ ریڈکراس نے سرحدی قصبے آرائوکیتا کے ایک اسکول میں ایک عارضی کیمپ قائم کر رکھا ہے۔
تصویر: Luisa Gonzalez/REUTERS
ایک ادھورا انضمام
جرمنی میں بہت سے پناہ گزین اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے پرامید ہیں۔ جرمن شہر کارلس روہے کے لرنفروئنڈے ہاؤس میں مہاجرین والدین کے بچے جرمن اسکولوں میں داخلے کے لیے تیار تھے لیکن کووڈ انیس کی وبا کے سبب ان بچوں نے جرمن معاشرے میں ضم ہونے کا اہم ترین موقع کھو دیا۔
تصویر: Uli Deck/dpa/picture alliance
8 تصاویر1 | 8
دوسری طرف سے رواں برس کی پہلے نصف حصے میں سیاسی پناہ کی سب سے کم درخواستیں جس ملک میں جمع کروائی گئیں وہ ہنگری ہے جہاں مجموعی طور پر محض 19 سیاسی پناہ کے متلاشیوں نے اپنی درخواستیں جمع کرائیں۔
سال 2015ء اور 2016ء میں مہاجرین اور تارکین وطن کی ایک بہت بڑی تعداد نے یورپی ممالک اور خاص طور پر جرمنی کا رُخ کیا تھا۔ ایک برس کے دوران جرمنی پہنچنے والے مہاجرین اور تارکین وطن کی تعداد 10 لاکھ کے قریب تھی۔