’یورپ ثابت کرے کہ وہ ہمارے ساتھ ہے،‘ یوکرینی صدر زیلنسکی
1 مارچ 2022
یوکرینی صدر وولودیمیر زیلنسکی نے یورپی پارلیمان سے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ روس کے ساتھ جنگ میں ان کے ملک اور یوکرینی عوام نے اپنے حوصلے دکھا دیے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اب یورپ ثابت کرے کہ وہ واقعی یوکرین کے ساتھ کھڑا ہے۔
اشتہار
روسی صدر ولادیمیر پوٹن کی طرف سے ملکی افواج کو یوکرین پر حملے کا حکم دیے جانے اور گزشتہ کئی دنوں سے جاری روسی یوکرینی جنگ کے پس منظر میں یورپی پارلیمان نے صدر وولودیمیر زیلنسکی کو دعوت دی تھی کہ وہ اس بلاک کے قانون ساز ادارے کے ایک خصوصی اجلاس میں ارکان سے خطاب کریں۔
زیلنسکی نے آج منگل یکم مارچ کے روز یوکرین سے یورپی ارکان پارلیمان سے جو ورچوئل خطاب کیا، اس میں ان کا لب و لہجہ اور مستقبل کے حوالے سے کییف کی خواہشات دونوں ہی بہت واضح تھے۔ یوکرینی صدر نے اپنے بہت جذباتی پیغام میں کہا کہ جس وقت وہ یورپی قانون سازوں سے اپنا خطاب کر رہے تھے، وہ کییف پر روسی میزائلوں سے حملوں کے درمیانی وقفے کا مختصر سا وقت تھا۔
یورپ میں برابری کے لیے جانوں کا نذرانہ
وولودیمیر زیلنسکی نے کہا کہ روسی فوجی حملے کے بعد ان کے ملک اور یوکرینی عوام نے اپنے بلند حوصلے دکھا دیے ہیں اور اس جنگ کی صورت میں یوکرین 'اپنی بقا کی جدوجہد‘ اور 'یورپ کا برابر حقوق والا ملک بننے‘ کی کوششیں دونوں جاری رکھے ہوئے ہے۔
یوکرینی صدر نے مزید کہا، ''مجھے یقین ہے کہ آج ہم اپنی جانوں کی جو قربانیاں دے رہے ہیں، وہ یورپ میں برابری کے لیے ہماری خواہش کا عملی نتیجہ ہے۔ اس کے لیے ہمارے بہترین شہری اپنی جانیں قربان کر رہے ہیں۔‘‘
انہوں نے زور دے کر کہا، ''ہمیں کوئی توڑ سکتا ہے اور نہ نیچا دکھا سکتا ہے۔ ہم مضبوط ہیں، ہم یوکرینی ہیں۔ ہم نے اپنی ہمت اور حوصلے کا کھل کر مظاہرہ کیا ہے۔ ہم نے ثابت کر دیا یے کہ ہم بھی بالکل آپ جیسے ہی ہیں۔‘‘
اشتہار
'ثابت کریں کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں‘
یوکرینی صدر نے یورپی ارکان پارلیمان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا، ''اب آپ کو یہ ثابت کرنے کی ضرورت ہے کہ آپ ہمارے ساتھ ہیں۔ ثابت کیجیے کہ آپ ہمیں بیچ راستے میں اکیلا نہیں چھوڑیں گے۔ آپ کو ثابت کرنا ہو گا کہ آپ واقعی یورپی ہیں۔‘‘
کییف کے رہائشی بھی ملکی فوج کے ساتھ مل کر روسی حملے کو ناکام بنانے کی کوشش میں ہیں۔ شہری دفاع کے کچھ ممبران پیٹرول بم بنا رہے ہیں۔
تصویر: Efrem Lukatsky/AP Photo/picture alliance
خصوصی یونٹس
کییف کے شہری دفاع کے محکمے نے شہر کے دفاع کے لیے مختلف یونٹس بنا لیے ہیں، جو شہر میں گشت کر رہے ہیں اور لوگوں کو مدد فراہم کر رہے ہیں۔
تصویر: Efrem Lukatsky/AP Photo/picture alliance
خوف میں مبتلا لوگ
ایسے افراد جو یوکرائن سے فرار ہونے کے قابل نہیں ہیں، انہوں نے گھروں کو چھوڑ کر انڈر گراؤنڈ شیلٹرز میں مسکن بنا لیا ہے۔ زیادہ تر لوگ ٹرین اور انڈر گراؤنڈ سب وے اسٹیشنز میں پناہ لیے ہوئے ہیں۔
تصویر: Kunihiko Miura/AP/picture alliance
شہری علاقوں پر حملہ
روس نے ایسے دعویٰ کیے ہیں کہ وہ یوکرائن کے دارالحکومت کییف میں رہائشی علاقوں کو نشانہ نہیں بنائے گا لیکن کچھ راکٹ شہری علاقوں میں بھی گرے۔ چھبیس فروری کو ایک حملے میں یہ عمارت متاثر ہوئی۔
تصویر: Efrem Lukatsky/AP/dpa/picture alliance
دھچکے کی کیفیت
جمعے کو کییف میں ایک راکٹ ایک شہری علاقے میں گرا، جس کی وجہ سے اس خاتون کا گھر مسمار ہو گیا۔ جمعرات کے دن روسی افواج نے کییف سمیت کئی شہروں میں رہائشی علاقوں پر بمباری کی۔
تصویر: Emilio Morenatti/AP Photo/picture alliance
کییف کی طرف پیش قدمی جاری
روسی افواج کییف کی طرف پیش قدمی جاری رکھے ہوئی ہیں۔ اس دوران روسی حملوں کے نتیجے میں کئی شہری عمارتوں کو نقصان بھی پہنچا۔ شہری انتظامیہ نے لوگوں سے کہا ہے کہ وہ گھروں میں ہی رہیں۔
تصویر: Gleb Garanich/REUTERS
تحفظ کی تلاش میں
روسی افواج نے چوبیس فروری کو یوکرائن پر حملہ کیا۔ اس عسکری کارروائی کی وجہ سے شہری خوف کے عالم میں ہیں اور وہ تحفظ چاہتے ہیں۔
تصویر: Emilio Morenatti/AP/picture alliance
سب وے اسٹیشنز محفوظ ٹھکانہ
کییف میں جب جنگی سائرن بجتا ہے تو شہری سب وے کے انڈر گراؤنڈ اسٹیشنز کی طرف بھاگتے ہیں۔ تین ملین آبادی والے اس شہر میں ایک خوف کا عالم طاری ہے۔
تصویر: Zoya Shu/AP/dpa/picture alliance
جنگی محاذوں سے فرار
مشرقی یوکرائن کے باسی جنگ شروع ہونے کے فوری بعد ہی وہاں سے فرار ہونا شروع ہو گئے تھے۔ یہ لوگ پناہ کی غرض سے ہمسایہ ممالک پولینڈ، ہنگری اور رومانیہ کی طرف جا رہے ہیں۔
مشرقی یوکرائن کے باسی مہاجرت اختیار کر رہے ہیں۔ بہت سے لوگ پیدل ہی ہمسایہ ملک ہنگری کی طرف گامزن ہیں۔ سرحد پر لمبی قطاریں لگی ہیں۔
تصویر: Janos Kummer/Getty Images
بچھڑے مل گئے
ہنگری کے وزیر اعظم وکٹور اوربان نے عہد کیا ہے کہ وہ اس مشکل وقت میں یوکرائن کے شہریوں کو ہر ممکن مدد فراہم کریں گے۔ انہوں نے سرحدیں کھول دیں اور مہاجرین کو خوش آمدید کہا جا رہا ہے۔
تصویر: Bernadett Szabo/REUTERS
رضا کاروں کی کوششیں
رومانیہ نے بھی یوکرائنی مہاجرین کو خوش آمدید کہا ہے۔ رومانیہ کے شہری بھی ان مہاجرین کی مدد کے لیے ہر ممکن کوشش کر رہے ہیں۔
تصویر: Andreea Alexandru/AP/picture alliance
ملک نہیں چھوڑوں گا
یوکرائن کے صدر وولودومیر زیلنسکی نے کہا ہے کہ وہ کییف نہیں چھوڑیں گے۔ انہوں نے شہریوں کی حوصلہ افزائی کی ہے تاکہ وہ روسی جارحیت کے آگے ہمت نہ ہاریں۔
صدر زیلنسکی نے اپنی اس تقریر میں یہ بھی کھل کر کہا کہ یورپی یونین کو ان کے ملک کو اپنی صفوں میں شامل کرنا چاہیے۔
یورپی پارلیمان کی اسپیکر کی طرف سے روس کی مذمت
یوکرینی صدر کے خطاب سے پہلے یورپی پارلیمان کی اسپیکر روبیرٹا میٹسولا نے ارکان سے اپنے خطاب میں یوکرین پر روسی فوجی حملے کی سخت ترین الفاظ میں مذمت کی۔ انہوں نے کہا، ''ہم اس وقت پوٹن کی شروع کردہ جنگ کے تاریک سائے میں ہیں، ایک ایسی جنگ جس کے لیے ہم نے نہ کوئی اشتعال انگیزی کی اور جو نہ ہی ہم نے شروع کی۔‘‘
روبیرٹا میٹسولا نے کہا، ''یوکرین پر روسی فوجی حملہ ایک آزاد اور خود مختار ریاست پر عسکری چڑھائی ہے۔ یورپی یونین اس بات کی حمایت کرے گی کہ روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور بیلاروس کے رہنما آلیکسانڈر لوکاشینکو کے خلاف جنگی جرائم کے الزامات کے تحت چھان بین کی جائے۔‘‘
م م / ب ج (ڈی پی اے، اے پی، اے ایف پی، روئٹرز)
روس میں جنگ مخالف مظاہرے
گرفتاری کے خطرے کے باوجود کئی روسی شہروں میں بے شمار لوگوں نے یوکرائن کی جنگ کے خلاف احتجاج کیا۔ روسی حکام نے ان مظاہرین کے خلاف فوری اقدامات کیے۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
’جنگ نہیں‘
سینٹ پیٹرزبرگ میں چوبیس فروری کے روز سینکڑوں افراد اپنا احتجاج کا حق استعمال کرتے ہوئے جمع ہوئے۔ یہ مظاہرین ’جنگ نہیں‘ کے نعرے لگاتے رہے۔ کئی روسی شہریوں نے یوکرائنی باشندوں کے ساتھ اپنے روابط منقطع کر دیے ہیں۔ ان میں سرحد پار آباد خاندانوں سے تعلق رکھنے والے شہری بھی شامل ہیں۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
پولیس کا ردعمل
مظاہروں پر پابندی اور سخت سزاؤں کے خوف کے باوجود سماجی طور پر سرگرم افراد نے بتایا کہ چوالیس روسی شہروں میں عام شہری احتجاجی مظاہروں میں شریک ہوئے۔ ماسکو (تصویر) کی طرح باقی تمام مقامات پر بھی پولیس نے موقع پر پہنچچ کر مظاہرین کو حراست میں لے لیا۔
تصویر: EVGENIA NOVOZHENINA/REUTERS
مظاہرے اور گرفتاریاں
سیاسی اور سماجی طور پر سرگرم روسی شہریوں کے مطابق اب تک ایک ہزار سات سو سے زائد روسی باشندوں کو یوکرائنی جنگ کے خلاف مظاہروں میں شریک ہونے پر گرفتار کیا جا چکا ہے۔ یہ تصویر ماسکو کی ہے، جہاں شہر کے مرکز میں واقع پشکن اسکوائر میں مظاہرین جمع ہوئے۔
تصویر: DENIS KAMINEV/REUTERS
یوکرائن کے ساتھ یک جہتی
’جنگ نہیں‘ اور ’فوجیوں کو واپس بلایا جائے‘، یہ ہیں وہ الفاظ جو اس تصویر میں ایک نوجوان خاتون کے ہاتھ میں موجود پلے کارڈ پر درج ہیں۔ یہ خاتون سینٹ پیٹرزبرگ میں کیے گئے احتجاج میں شریک تھی۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
مظاہرین کو پولیس نے تحویل میں لے لیا
مختلف شہروں میں حکام نے کووڈ انیس کی وبا کا سہارا لے کر بھی مظاہروں پر پابندی عائد کر دی تھی۔ کئی عینی شاہدین نے مظاہرین کے خلاف پولیس کی کارروائی کو اپنے کیمروں بطور ثبوت ریکارڈ بھی کر لیا۔
تصویر: ANTON VAGANOV/REUTERS
حراست کے بعد بھی احتجاج
احتجاج میں شریک ایک روسی کارکن اپنے ہاتھ کے پچھلی طرف بنایا گیا امن کا نشان دکھاتے ہوئے۔ اس نے یہ نشان اپنی گرفتاری کے بعد پولیس کے ایک ٹرک میں بیٹھے ہوئے بنایا۔
کلاؤڈیا ڈیہن (ع ح / م م)