یورپی یونین کے اعدادوشمار کے مطابق کورونا وائرس کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے سرحدوں کی بندش کے سبب گزشتہ ایک دہائی سے زیادہ عرصے کے بعد اس سال اپریل میں یورپ میں سیاسی پناہ کے متلاشیوں کی تعداد سب سے کم رہی۔
اشتہار
یورپی یونین نے تاہم جنگ اور مسلح تنازعات کے شکار ممالک سے فرار ہونے والے افراد کو درپیش چیلنجز کے مزید پیچیدہ ہونے کی نشاندہی کی ہے۔ ''یورپی ازائلم سپورٹ آفس‘‘ EASO نے اس بارے میں اعداد و شمار خبر رساں ادارے روئٹرز کو دیے ہیں۔ ان اعداد وشمار کے مطابق رواں برس اپریل میں پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی تعداد کم ہو کر 8 ہزار 370 تک پہنچ گئی۔ یہ تعداد فروری میں61 ہزار 421 تھی، جس میں اپریل کے ماہ میں 86 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔
یورپی یونین نے کورونا کی وباؤ کے پھیلاؤ کی روک تھام کے لیے مارچ کے مہینے سے اپنی سرحدوں کو بند کر دیا تھا اور یورپی اتحاد میں شامل 27 رکن ممالک نے پناہ کے متلاشی افراد کی درخواستوں کی رجسٹریشن کا سلسلہ معطل کر دیا تھا۔
''یورپی ازائلم سپورٹ آفس‘‘ EASO کے اعداد و شمار سے مزید یہ واضح ہوتا ہے کہ محض فروری سے مارچ کے درمیان جس وقت یورپ میں لاک ڈاؤن کا سلسلہ شروع ہوا پناہ کے متلاشیوں کی درخواستوں میں 44 فیصد کمی آئی۔ ای اے ایس او کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر نینا گریگوری نے روئٹرز کو بیان دیتے ہوئے کہا،'' لاک ڈاؤن کے ابتدائی دنوں میں ممکنہ طور پر سیاسی پناہ کے درخواست دہندگان کی متعلقہ اداروں تک رسائی بالکل ممکن نہیں تھی۔ خاص طور پر کچھ مہینوں کے دوران بہت سخت پابندی عائد رہی ہے۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''یہ واضح ہے کہ پناہ کے متلاشی افراد کے لیے یہ صورتحال بہت مشکل ہے، انہیں بہت بڑے چیلنجز کا سامنا ہے۔ تشدد، جنگ اور ظلم و ستم کے شکار افراد جو پناہ کی تلاش میں پہلے ہی سے طرح طرح کی مشکلات کا سامنا کر رہے تھے انہیں کووڈ انیس کے بحران نے مزید ابتر صورتحال سے دوچار کر دیا ہے۔‘‘
2020 ء اپریل کے دوران پناہ کے متلاشیوں کی سب سے زیادہ درخواستیں شامی باشندوں نے درج کروائیں، ان کے بعد افغان اور پھر وینزویلا اور کولمبیا کا نمبر آتا ہے۔
یورپ میں اچھے مستقبل کا خواب، جو ادھورا رہ گیا
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔
تصویر: DW/G. Harvey
ترکی واپسی کی تیاری
یورپی یونین اور ترکی کے مابین طے پانے والے معاہدے کے مطابق یونان پہنچنے والے غیر قانونی تارکین وطن کی ترکی واپسی کا عمل پیر چار اپریل سے شروع ہو جائے گا۔ فی الحال واضح نہیں ہے کہ پیر کے روز کتنے پناہ گزین ملک بدر کیے جائیں گے۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
سڑکوں پر گزرتے شب و روز
ہزاروں تارکین وطن اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر یونان تک تو پہنچ گئے لیکن پہلے سے معاشی زبوں حالی کے شکار اس ملک میں انہیں رہائش فراہم کرنے کے لیے خاطر خواہ انتظامات نہیں ہیں۔ آج ایتھنز حکام نے پیریئس کے ساحلی علاقے پر موجود تارکین وطن کو دیگر یونانی علاقوں میں منتقل کرنا شروع کر دیا ہے۔
تصویر: Reuters/A.Konstantinidis
لیسبوس سے انخلاء
ترکی سے غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے زیادہ تر تارکین وطن لیسبوس نامی یونانی جزیرے پر پہنچتے ہیں۔ معاہدہ طے پانے کے بعد تارکین وطن کو لیسبوس کے کیمپوں سے نکال کر دیگر علاقوں کی جانب لے جایا جا رہا ہے جس کے بعد انہیں واپس ترکی بھیجنے کے اقدامات کیے جائیں گے۔
تصویر: Reuters/M. Karagiannis
یاس و امید کے درمیان
ہزاروں تارکین وطن یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر واقع ایڈومینی کیمپ میں اب بھی اس امید سے بیٹھے ہیں کہ کسی وقت سرحد کھول دی جائے گی اور وہ جرمنی اور دیگر مغربی یورپی ممالک کی جانب اپنا سفر جاری رکھ سکیں گے۔ ان ہزاروں تارکین وطن کے ہمراہ بچے اور عورتیں بھی موجود ہیں۔
تصویر: DW/D. Tosidis
خاردار تاروں کے سائے میں
مقدونیہ اور یونان کے مابین سرحد مکمل طور پر بند ہے۔ تارکین وطن متبادل راستوں کے ذریعے مقدونیہ پہنچنے کی ایک سے زائد منظم کوششیں کر چکے ہیں لیکن ہر مرتبہ انہیں گرفتار کر کے واپس بھیج دیا جاتا ہے۔ پناہ گزینوں نے مقدونیہ کی سکیورٹی فورسز کی جانب سے تشدد اور ناروا سلوک کی شکایات بھی کیں ہیں۔
تصویر: picture-alliance/dpa
یورپ میں بھی پولیس سے جھڑپیں
یونانی حکام تارکین وطن سے بارہا درخواست کر چکے ہیں کہ وہ ایڈومینی سے دوسرے کیمپوں میں منتقل ہو جائیں۔ کیمپ خالی کروانی کی کوششوں کے دوران یونانی پولیس اور تارکین وطن نے احتجاج اور مظاہرے کیے۔ اس دوران پولیس اور تارکین وطن میں جھڑپیں بھی ہوئیں۔
تصویر: Getty Images/AFP/A. Isakovic
معاہدے کے باوجود ترکی سے یونان آمد میں اضافہ
اگرچہ یہ بات واضح ہے کہ غیر قانونی طور پر یونان پہنچنے والے تمام تارکین وطن کو معاہدے کی رو سے واپس ترکی بھیج دیا جائے گا۔ اس کے باوجود پناہ گزین بحیرہ ایجیئن کا خطرناک سمندری سفر طے کر کے مسلسل ترکی سے یونان پہنچ رہے ہیں۔ گزشتہ چند دنوں کے دوران تارکین وطن کی آمد میں مزید اضافہ دیکھا گیا ہے۔
تصویر: Getty Images/A. Koerner
لائف جیکٹوں کا ’پہاڑ‘
سمندری سفر کے دوران تارکین وطن کے زیر استعمال لائف جیکٹیں یونانی جزیروں پر اب بھی موجود ہیں۔ انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والے اداروں کا کہنا ہے کہ ترکی پناہ گزینوں کے لیے محفوظ ملک نہیں ہے اس لیے انہیں واپس ترکی نہیں بھیجا جانا چاہیے۔ یونین کا کہنا ہے کہ ان اقدامات کے ذریعے تارکین وطن کو خطرناک سمندری راستے اختیار کرنے سے روکا جانے میں مدد حاصل ہو گی۔
تصویر: DW/G. Harvey
8 تصاویر1 | 8
یورپی یونین نے ماضی میں زمینی راستے سے یورپی سرحدوں میں داخلے کی کوشش کرنے والوں کے لیے اس امر کو ناممکن بنا دیا اور تمام راستے بلاک کر دیے گئے تھے۔ ساتھ ہی لیبیا اور ترکی کو امداد دے کر یورپی یونین نے ان ممالک سے کہا کہ یہ پناہ گزینوں کو یورپ کی طرف بڑھنے سے روکے رکھیں۔
اپریل میں اٹلی نے بھی کہہ دیا تھا کہ وہ امدادی جہازوں کو بھی پناہ گزینوں کے لیے نقل و حرکت کی اجازت نہیں دے گا کیونکہ یہ کورونا وبا کے تناظر میں اٹلی کے لیے مزید خطرات کا باعث بن سکتا تھا۔ مالٹا نے بھی کہہ دیا تھا کہ کورونا بحران کے سبب ایمرجنسی صورتحال پائی جاتی ہے اور وہ تارکین وطن کی حفاظت کی کوئی ضمانت نہیں دے سکتا اور نہ ہی انہیں اپنی سرحدوں میں داخل ہونے دے گا۔
یورپین کونسل آن ریفیوجی اینڈ ایگزائلز ECRE جو کہ 40 یورپی ممالک کی 100 سے زائد این جی اوز کا نیٹ ورک ہے، نے بھی کہا ہے کہ کورونا بحران کے دوران کسی طرح یورپ کی سرحدوں تک پہنچ جانے والے پناہ کے متلاشیوں کی صورتحال اور ان کا مستقبل بہت خطرے میں ہے۔ اس نیٹ ورک کی ایک سینئیر آفیسر پیٹرا بائینز کے بقول،''یورپ تک پہنچ جانے والے یہ پناہ کے متلاشی افراد اپنی درخواستیں جمع نہیں کرا سکے ہیں اور اس لیے اب انہیں سب سے زیادہ خطرات و مشکلات کا سامنا ہے۔‘‘ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے مزید کہا کہ ان افراد کی صحت کی سہولیات تک بہت محدود رسائی ہے اور درخواستیں جمع نہیں کروانے کے سبب ان کی کوئی قانونی حیثیت نہیں ہے۔ پیٹرا بائینز نے کہا،'' ان کی مخدوش حالی پر کوئی توجہ نہیں دی جا رہی اسی لیے ان افراد کے استحصال کا سب سے زیادہ خطرہ ہے۔‘‘
یہ سال پناہ کے متلاشیوں کا سال رہا
اس سے قبل کبھی بھی اتنی بڑی تعداد میں لوگ پناہ کی تلاش میں نہیں نکلے جتنے سال 2015ء کے دوران۔ ان میں سے ایک بڑی تعداد نے جرمنی اور یورپ کا رخ کیا۔ سال رواں کے دوران دل ہلا دینے والی کچھ تصاویر۔
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
منزل مقصود
یہ شامی نوجوانوں کا ایک گروپ ہے، جو اپنے سفر کا خطرناک ترین مرحلہ عبور کر تے ہوئے یونان پہنچا ہے۔ یورپی یونین میں داخل ہو جانے کے باوجود یہ ابھی اپنی منزل پر نہیں پہنچ سکے ہیں۔ یہ لوگ مغربی یورپی ممالک جانا چاہتے ہیں۔ اس سال کے دوران زیادہ تر افراد نے جرمنی اور سویڈن کا رخ کیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
بحیرہٴ روم کے ذریعے
بحیرہٴ روم کے ذریعے یورپ تک پہنچنا جان جوکھوں میں ڈالنے کے برابر ہے۔ اس سفر کے دوران متعدد کشتیاں غرقاب ہو چکی ہیں۔ یہ شامی باپ اور اس کے بچے خوش قسمت تھے کہ انہیں جزیرے لیسبوس کے پاس یونانی مچھیروں کی ایک کشتی نے ڈوبنے سے بچا لیا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
دنیا کو ہلا دینے والی تصویر
تین سالہ ایلان کردی اپنے اس سفر کے دوران دنیا سے ہی ہجرت کر گیا۔ وہ اپنے بھائی اور والدہ کے ساتھ بحیرہٴ ایجیئن میں یونانی جزیرے کوس پہنچنے کی کوشش میں ڈوب گیا۔ اس کی لاش ترک علاقے بودرم کے ایک ساحل سے ملی تھی۔ یہ تصویر کچھ ہی دیر میں پوری دنیا کے ذرائع ابلاغ پر جاری ہوئی اور اس نے پوری دنیا کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا۔
تصویر: Reuters/Stringer
پناہ گزین اور سیاح
پناہ کے متلاشیوں کی ایک بڑی تعداد یونان کے کوس جزیرے پر پہنچتی ہے۔ یہ علاقہ ترکی سے بہت ہی قریب ہے۔ یہاں کے ساحلوں پر عام طور پر سیاح ہوتے ہیں لیکن وقتاً فوقتاً اب مہاجرین کے مختلف گروپ بھی یہاں پہنچتے ہیں، جیسے پاکستانی شہریوں کا یہ گروپ، جسے یونان کی امدادی تنظیموں نے محفوظ طریقے سے ساحل پر پہنچایا ہے۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
افراتفری
کوس پہنچ کر بہت سارے پناہ گزینوں کی زندگی ایک طرح سے رک سی جاتی ہے۔ یہ لوگ اندراج کے بعد ہی جزیرے سے باہر جا سکتے ہیں۔ موسم گرما میں یہاں حالات اس وقت کشیدہ ہو گئے تھے، جب حکام نے پناہ گزینوں کو ایک اسٹیڈیم میں بند کر دیا تھا۔ اس دوران انہیں رجسٹریشن کے لیے طویل انتظار کرنا پڑا تھا اور شدید گرمی کے باوجود انہیں پانی بھی مہیا نہیں کیا گیا تھا۔
تصویر: Reuters/Y. Behrakis
یورپی مسائل
یونان اور مقدونیہ کی سرحد پر موجود پولیس کسی کو بھی آگے بڑھنے نہیں دے رہی تھی اور ان مجبور افراد میں اپنے والدین سے بچھڑنے والے بلکتے ہوئے بچے بھی شامل تھے۔ اس تصویر کو یونیسیف کی جانب سے’’سال کی اہم ترین تصویر‘‘ قرار دیا گیا ہے۔ یہ تصویر مہاجرین کے معاملے میں ایک کشمکش میں مبتلا یورپ کی عکاسی کر رہی ہے
تصویر: picture-alliance/dpa/G. Licovski
کوئی پرسان حال نہیں
موسم سرما کے دوران ہنگری انتظامیہ پناہ گزینوں کے لیے اقدامات کرنے اور نسلی امتیاز کے واقعات کو روکنے میں مکمل طور پر نا اہل ثابت ہوئی۔ دارالحکومت بوڈاپیسٹ کا ریلوے اسٹیشن پناہ گزینوں کا مسکن بن گیا کیونکہ حکومت نے ان کے آگے سفر کرنے پر پابندی عائد کر دی تھی۔ اس کے بعد بہت سے لوگ پیدل ہی جرمنی کی جانب چل پڑے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/B. Roessler
جرمنی اور آسٹریا کا اہم اعلان
پانچ ستمبر کی رات جرمن چانسلر انگیلا میرکل اور آسٹریا کے ان کے ہم منصب ویرنر فیمان کی جانب سے مشترکہ طور پر اپنی اپنی سرحدیں کھولنے کا اعلان سامنے آیا۔ اس کے ساتھ ہی پناہ گزینوں کا پیچیدہ افسر شاہی طریقہٴ کار کے بغیر سفر کرنا آسان ہو گیا۔ ان دنوں کے دوران کئی خصوصی بسین اور ٹرینیں میونخ اور ویانا پہنچتی رہیں۔
تصویر: picture alliance/landov/A. Zavallis
پناہ گزین ’خوش آمدید‘
چانسلر انگیلا میرکل کے اس اعلان کے ساتھ ہی ہزاروں کی تعداد میں پناہ گزین جرمنی پہنچ گئے۔ ستمبر کے پہلے اختتام ہفتہ پر میونخ پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد تقریباً بیس ہزار رہی۔ اس موقع پر میونخ کے ریلوے اسٹیشن پر امدادی کارکنوں نے آنے والے افراد کا پرجوش انداز میں استقبال کیا۔
تصویر: Getty Images/AFP/P. Stollarz
چانسلر میرکل کے ساتھ سیلفی
چانسلر میرکل کو مہاجرین سے متعلق ان کی پالیسی پر تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑا تاہم وہ اپنے موقف پر ڈٹی رہیں۔ ان کا ایک بیان ’’ہم اس مسئلے پر قابو پا لیں گے‘‘ ایک نعرہ سا بن گیا۔ جرمنی میں ایک مہاجر کیمپ کے دورے کے موقع پر ایک پناہ گزین کی جانب سے چانسلر کے ساتھ یہ سیلفی تصویر کافی مقبول ہوئی۔
تصویر: Reuters/F. Bensch
اپنی کہانی تصویر کی زبانی
ستمبر کے آخر میں جرمن پولیس کی جانب سے ایک انتہائی جذباتی تصویر جاری کی گئی۔ یہ ایک پناہ گزین بچی کی تخلیق تھی، جو اس نے پاساؤ نامی شہر کی پولیس کو بطور تحفہ پیش کی تھی۔ اس تصویر میں اس نے اس سفر کے دوران کی مشکلات بیان کی ہیں اور یہ بتایا ہے کہ وہ جرمنی پہنچنے پر کتنی خوش ہے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/Bundespolizei
سلسلہ ابھی جاری ہے
اکتوبر کے آخر تک تقریباً ساڑھے سات لاکھ افراد پناہ کی تلاش میں جرمنی میں داخل ہوئے اور یہ سلسلہ ابھی بھی جاری ہے۔ بلقان ممالک نے اپنی سرحدیں بند کر دی ہیں۔ وہ صرف شامی، عراقی اور افغانی باشندوں کو آگے جانے کی اجازت دے رہے ہیں۔ دوسرے ممالک سے تعلق رکھنے والے کچھ پناہ گزینوں نے احتجاج کے طور پر اپنے لب سی لیے تھے۔