بچوں کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی امدادی تنظیم ’سیو دی چلڈرن’ کی ايک تازہ رپورٹ کے مطابق یورپی ملکوں سے افغانستان واپس بھیجے جانے والے افغان پناہ گزین بچوں کی تین چوتھائی تعداد خوف اور تشدد کا شکار ہے۔
اشتہار
جرمن دارالحکومت برلن میں بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کی جانب سے جاری کردہ ایک رپورٹ کے مطابق یورپی ممالک سے افغانستان واپس بھیجے جانے والے تارکین وطن بچے تعلیم سے محروم رہنے کے ساتھ ساتھ خوف اور تشدد کا شکار بھی ہیں۔ افغان بچوں پر رپورٹ مرتب کرنے والی اور بچوں کے حقوق کی ماہر ڈاکٹر مائیکے ریباؤ کا کہنا ہے کہ ’ملک بدر کیے جانے یا پھر رضاکارانہ طور پر واپس جانے والے افغان پناہ گزین بچوں کو شدت پسند گروہوں کی جانب سے بھرتی کیے جانے کا خطرہ بھی لاحق رہتا ہے۔‘
دنیا بھر میں بچوں کی فلاح کے لیے کام کرنے والی بین الاقوامی تنظیم سیو دی چلڈرن کے مطابق 2017ء میں یورپی یونین کے رکن ممالک سے 4,260 افغان تارکین وطن کو واپس ان کے ملک بھیجا گیا۔ تاہم ان افراد میں بچوں کی تعداد واضح نہیں۔ جرمنی سمیت یورپ کے دیگر ملکوں سے واپس افغانستان جانے والے 57 بچوں اور ان کے والدین نے سیو دا چلڈرن کو بتایا ہے کہ افغانستان میں وہ خود کو ’اجنبی‘ محسوس کرتے ہیں اور ایک مرتبہ پھر ملک چھوڑنا چاہتے ہیں۔
پریس کانفرنس کے دوران ڈاکٹر مائیکے ریباؤ نے برلن حکومت سے مطالبہ کیا کہ افغانستان واپس بھیجے جانے والوں کی حفاظت اور ان کے ليے بہتر مستقبل کو یقینی بنایا جائے کیوں کہ ان بچوں کی جنگ زدہ علاقے میں واپسی، بچوں کے حقوق کی خلاف ورزی ہے۔
سن 2015 سے سن 2016 کے دوران تقریباً چھ لاکھ افغان پناہ گزینوں کی جانب سے مختلف یورپی ممالک میں پناہ کی درخواستيں جمع کرائی گئيں جبکہ گزشتہ برس یہ تعداد نماياں کمی کے ساتھ تقریبا ساڑھے تينتاليس ہزار رہی۔ گزشتہ تین برسوں میں رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے مہاجرین کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔
سیو دی چلڈرن کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ جرمنی سے افغان مہاجر بچوں کو ملک بدر کیے جانے کے بجائے ان کے والدین کی مرضی سے رضاکارانہ طور پر واپسی کے ايک منصوبے ’اسٹارٹ ہلفے پلس’ کے تحت وطن واپس بھیجا گیا ہے۔ اس منصوبے کے تحت رضاکارانہ طور پر وطن واپس جانے والے مہاجرین کی مالی مدد کی جاتی ہے، جو فی فرد 1200 یورو ہے۔ یہ رقم وطن واپس پہنچنے کے بعد قسطوں میں ادا کی جاتی ہے۔ اس حوالے سے ڈاکٹر مائیکے ریباؤ نے صحافیوں کو بتایا کہ اس رپورٹ کی تفتیش کے دوران یہ بھی دیکھا گیا کہ جو نو عمر بچے جرمنی سے رضاکارانہ طور پر واپس گئے ہیں، ان کے لیے دوسری قسط وصول نہیں کی گئی۔ انہوں نے بتايا، ’’لہٰذا ہمیں نہیں معلوم کہ وہ بچے زندہ بھی ہیں یا نہیں۔‘‘ مائیکے يہ بھی سمجھتی ہیں کہ جرمن حکومت کی ذمہ داری کابل ہوائی اڈے پر ختم نہیں ہوتی بلکہ ان کو بچوں کی حفاظت کو یقینی بنانا بھی برلن حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔
بچوں کے حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیم سیو دی چلڈرن ایک سو بیس ممالک میں بچوں کے ليے تعليم، طبی سہوليات اور تحفظ کی فراہمی کے ليے سرگرم ہے۔ يہ تنظيم بچوں پر تشدد اور ان کے استحصال کے خلاف تقریباً ايک سو سال سے کام کر رہی ہے۔
پاکستان ميں موجود افغان مہاجرين مطمئن ہيں يا نہيں؟
ڈی ڈبليو نے پاکستانی دارالحکومت کے نواحی علاقے ’I-12‘ ميں قائم افغان مہاجرين کی ايک بستی ميں رہائش پذير افراد سے بات چيت کی اور ان سے يہ جاننے کی کوشش کی کہ انہيں کن مسائل کا سامنا ہے اور آيا وہ پاکستان ميں مطمئن ہيں؟
تصویر: DW/A. Saleem
کچی بستيوں ميں رہائش مشکل
اس بستی ميں افغان مہاجرين کے لگ بھگ سات سو خاندان آباد ہيں۔ بستی کے رہائشی شمع گُل پچھلے سينتيس سال سے پاکستان ميں رہائش پذير ہيں۔ اس بستی ميں وہ پچھلے چھ سال سے مقيم ہيں۔ گُل کے مطابق بستی انتہائی برے حال ميں ہے اور بارش کے موسم ميں ہر طرف پانی کھڑا ہو جاتا ہے۔ ايک اور مسئلہ پکی سڑک تک رسائی کا بھی ہے۔ بستی جس علاقے ميں ہے، وہ کسی پکی شاہراہ سے کافی فاصلے پر ہے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بنيادی سہوليات کی عدم دستيابی
گلا گائی بستی ميں پينے کے پانی کی عدم دستيابی سے نالاں ہيں۔ ليکن ان کے ليے اس سے بھی بڑا مسئلہ يہ ہے کہ اگر کسی رہائشی کو ہسپتال جانا پڑ جائے، تو صرف سفر پر ہی ہزار، بارہ سو روپے کے اخراجات آ جاتے ہيں، جو ان مہاجرين کی وسعت سے باہر ہيں۔ ان کے بقول پکی سڑک تک تين کلوميٹر دور ہے اور جب بارش ہو جائے، تو مشکل سفر کی وجہ سے بيمار گھروں ميں ہی پڑے رہتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
افغانستان واپسی کے ليے حالات سازگار نہيں
عبدالجبار پاکستان ميں پينتيس سال سے ہيں۔ وہ پہلے ’آئی اليون فور‘ ميں کچی بستی ميں رہتے تھے اور اب پچھلے سات سالوں سے ’آئی ٹوئيلو‘ کی اس بستی ميں رہائش پذير ہيں۔ عبدالجبار کے مطابق افغانستان ميں امن و امان کی صورتحال خراب ہے اور اسی ليے وہ چاہتے ہيں کہ بارہ افراد پر مشتمل ان کے خاندان کا پاکستان ميں ہی کوئی مستقل بندوبست ہو جائے۔ عبدالجبار آج بھی اپنی شناخت ايک افغان شہری کے طور پر کرتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’پاکستان نے بہت محبت دی ہے‘
شير خان سات برس کی عمر ميں افغانستان سے پاکستان آئے تھے اور اب ان کی عمر سينتاليس برس ہے۔ خان کہتے ہيں کہ پاکستان نے ان کو محبت دی ہے۔ ان کے بقول ان کے والدين يہاں وفات پا چکے ہيں، وہ خود يہاں بڑے ہوئے ہيں اور اب ان کے بچے بھی بڑے ہو چکے ہيں۔ شير خان کے بقول وہ خود کو پاکستانی ہی محسوس کرتے ہيں، افغان نہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
’ميری شناخت پاکستانی ہے‘
حميد خان چونتيس سال سے پاکستان ميں ہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ اگرچہ ان کی پيدائش افغانستان ميں ہوئی ليکن انہوں نے اپنی تقريباً پوری ہی عمر پاکستان ميں گزاری اور اسی ليے انہيں ايک پاکستانی کے طور پر اپنی شناخت پر بھی کوئی اعتراض نہيں۔ وہ کہتے ہيں کہ ان برسوں ميں پاکستان نے انہيں پناہ دی، اچھا سلوک کيا اور بہت کچھ ديا۔
تصویر: DW/A. Saleem
نوجوانوں کے ليے مواقع کی کمی
نوجوان ناصر خان اس بستی ميں سہوليات کی کمی سے نالاں ہيں۔ وہ پاکستان ميں ہی رہنا چاہتے ہيں ليکن وہاں مواقع کا سخت فقدان ہے۔ ناصر چاہتے ہيں کہ کم از کم بستی ميں کچھ تعميراتی کام ہو، سڑکيں بنائی جائيں تاکہ رہن سہن ميں آسانی پيدا ہو سکے۔
تصویر: DW/A. Saleem
بچوں کے ليے ناکافی سہوليات
پاکستان ميں موجود رجسرڈ افغان مہاجرين کی تعداد اس وقت 1.4 ملين کے قريب بنتی ہے۔ اس بستی ميں سات سو خاندانوں کے بچوں کے ليے صرف ايک اسکول موجود ہے، جو ناکافی ہے۔ بچوں کے ليے نہ تو کوئی ميدان اور نہ ہی کوئی اور سہولت ليکن يہ کمسن بچے کيچڑ ميں کھيل کر ہی دل بہلا ليتے ہيں۔
تصویر: DW/A. Saleem
طبی سہوليات بھی نہ ہونے کے برابر
بستی ميں ويسے تو تين کلینک موجود ہيں، جن ميں سے ايک جرمن تنظيموں کی امداد سے چلتی ہے۔ ليکن ان کلينکس ميں ڈاکٹر ہر وقت موجود نہيں ہوتے۔ برسات اور سردی کے موسم اور بستی کے رہائشيوں کو کافی دشواريوں کا سامنا رہتا ہے۔