'یورپ عوامیت پسندی کے خاتمے کے لیے مہاجرت کا سدباب کرے،
23 نومبر 2018
سابق امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے برطانوی اخبار گارڈین کو دیے گئے اپنے ایک حالیہ انٹرویو میں کہا ہے کہ یورپ کو خطے میں بڑھتی ہوئی عوامیت پسندی کے سدباب کے لیے مہاجرت کے معاملے سے نمٹنا ہو گا۔
اشتہار
ہیلری کلنٹن کا یہ خصوصی انٹرویو گارڈین اخبار میں جمعرات بائیس نومبر کو شائع کیا گیا ہے۔ ہیلری کلنٹن نے اپنے انٹرویو میں کہا،’’ میرے خیال میں یورپ کو مہاجرین کے بہاؤ کو روکنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہی وہ چیز ہے جو دائیں بازو کی عوامیت پسندی کو ہوا دیتی ہے۔‘‘
سن 2015 اور 2016 میں مہاجرین کے بہاؤ کے اعتبار سے یورپ کو دوسری عالمی جنگ کے سے سے بڑے بحران کا سامنا رہا۔ اس وقت کے مقابلے میں اب اگرچی اس بحران کی شدت میں خاطر خواہ کمی آئی ہے تاہم تب سے امیگریشن پالیسی یورپ بھر میں ایک ترجیحی معاملہ بن چکی ہے۔ آسٹریا اور اٹلی جیسے ممالک میں مہاجرین مخالف اور دائیں بازو کی جماعتوں کو بے انتہا پذیرائی حاصل ہوئی ہے۔
کلنٹن نے مزید کہا کہ وہ جرمن چانسلر انگیلا میرکل جیسے یورپی رہنماؤں کی مہاجرت پر ’سخاوت مندانہ سوچ‘ کو سراہتی ہیں، لیکن وہ سمجھتی ہیں کہ یورپ اس مسئلے کے حل کے لیے اپنا حصہ ڈال چکا ہے اور اب اسے اپنے شہریوں کو ترجیح دینی چاہیے اور ’نسل و شناخت‘ کے معاملے پر ان کے تحفظات کو دور کرنا چاہیے۔
ہیلری کلنٹن نے گارڈین سے بات کرتے ہوئے مزید کہا کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظامیہ نے ’شناخت اور نسل‘ کے حوالے سے امریکی شہریوں کے تحفظات کا بہت زیادہ استحصال کیا ہے۔
جرمن چانسلر اینگیلا میرکل جو پانچویں مدت کے لیے انتخابات نہ لڑنے کا اعلان کر چکی ہیں، کی مقبولیت میں سن 2015 میں قریب ایک لاکھ مہاجرین کے لیے جرمنی کی سرحدیں کھولنے کے فیصلے کے بعد سے کمی آئی ہے۔
ہیلری کلنٹن امریکا کی سابق خاتون اول، سینیٹر اور وزیر خارجہ رہ چکی ہیں۔ وہ امریکا کی تاریخ میں پہلی خاتون ہیں جنہوں نے ایک بڑی سیاسی جماعت میں صدارتی امیدوار کی نامزدگی حاصل کرنے میں کامیابی حاصل کی تھی۔
ص ح / ع ت / نیوز ایجنسی
مہاجرین کے مبینہ جرائم پر دائیں بازو کا رد عمل شدید تر
جرمنی میں حالیہ کچھ عرصے میں ایک طرف جہاں مہاجرین کی طرف سے مبینہ جرائم کی خبریں سامنے آ رہی ہیں وہیں ملک میں انتہائی دائیں بازو کی جانب سے ان کے خلاف جذبات میں بھی اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ملاحظہ کیجیے یہ پکچر گیلری۔
تصویر: Getty Images/S. Gallup
جرمن شہری کی ہلاکت اور مظاہروں کا آغاز
کیمنٹس میں چھبیس اگست سے انتہائی دائیں بازو کی سوچ کے حامل افراد نے مظاہروں کا سلسلہ اُس وقت شروع کیا تھا جب ایک جرمن شہری کو سیاسی پناہ کے دو متلاشیوں نے ہلاک کر دیا تھا۔
تصویر: Jan Woitas/dpa/picture alliance
مظاہروں کے خلاف مظاہرے
اگرچہ رواں ماہ کی سات تاریخ کو کیمنٹس میں رائٹ ونگ گروپوں کے ارکان نے بھرپور مہاجرین مخالف مظاہرے کیے تاہم اگلے ہی روز کیمنٹس کے شہریوں نے بھی بڑی تعداد میں مہاجرین مخالف مظاہروں کے خلاف مظاہرے کیے۔
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Woitas
مسائل کی ماں مہاجرت
انہی مظاہروں کے درمیان جرمن وزیر داخلہ ہورسٹ زیہوفر کی جانب سے بھی پناہ گزینوں کی مخالفت میں ایک تنقیدی بیان سامنے آیا جس میں انہوں نے کہا کہ مہاجرت ہی تمام مسائل کی ماں ہے۔ زیہوفر نے کیمنٹس میں رائٹ وِنگ کی جانب سے کیے گئے مظاہروں پر تنقید بھی نہیں کی۔
تصویر: Imago/Sven Simon/F. Hoermann
میا وی کے قاتل کو سزائے قید
ستمبر کی تین تاریخ کو جنوب مغربی جرمن شہر لنڈاؤ میں ایک جرمن عدالت نے عبدل ڈی نامی ایک افغان تارک وطن کو پندرہ سالہ جرمن لڑکی میا وی کو قتل کرنے کے جرم میں ساڑھے آٹھ سال قید کی سزا سنائی تھی۔ میا وی کی ہلاکت پر بھی اُس کے شہر کانڈل میں تارکین وطن کے خلاف مظاہرے کیے گئے تھے۔
تصویر: DW/A. Prange
ایک اور افغان مہاجر جیل میں
رواں ہفتے کے اختتام پر جرمن شہر ڈارم شٹڈ کی ایک عدالت نے ایک اور افغان مہاجر کو اپنی سترہ سالہ سابقہ گرل فرینڈ کو چاقو سے شدید زخمی کرنے کے جرم میں سات سال جیل کی سزا سنائی تھی۔ نو عمر افغان پناہ گزین پر الزام تھا کہ اس نے سن 2017 میں کرسمس سے قبل اپنی سابقہ گرل فرینڈ پر چاقو سے حملہ کیا تھا۔
تصویر: picture-alliance/dpa/S. Stein
کوئتھن، جرمن نوجوان کی ہلاکت
ابھی کیمنٹس شہر میں تناؤ پوری طرح کم نہ ہوا تھا کہ جرمن ریاست سیکسنی اَن ہالٹ کے شہر کوئتھن میں ایک بائیس سالہ جرمن نوجوان کی دو افغان مہاجرین کے ہاتھوں مبینہ قتل نے ہلچل مچا دی۔ ریاست کے وزیر داخلہ ہولگر شٹالک نیخت نے شہریوں سے پر امن رہنے کی اپیل کی۔
تصویر: picture-alliance/dpa/D. Hein
کوئتھن میں مظاہرے
مقامی پولیس کے مطابق ’کیمنٹس پرو‘ گروہ کی طرف سے سوشل میڈیا پر کوئتھن میں مظاہرے کی کال دی گئی جس پر لوگوں کی ایک بڑی تعداد نے مثبت ردعمل ظاہر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق اس مظاہرے میں پچیس ہزار افراد شریک ہوئے۔ جس میں چار سو سے پانچ سو افراد کا تعلق انتہائی دائیں بازو کے نظریات کے حامل افراد سے تھا۔